سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(125) حدیث میں ’’ قال لا الٰہ الا اللہ‘‘ کا کیا معنی ہے

  • 3907
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 1075

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اور حدیث میں ’’ قال لا الٰه الا اللہ‘‘ کا کیا معنی ہے کلمہ گو بے نماز بے زکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟ (محی الدین بن محمد علی لکھوی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس نے ’’ لا اله الا اللہ‘‘ کہا وہ بے شک جنت میں داخل ہو گا مگر مراد اس سے یہ ہے کہ ’’ لا اله الا اللہ‘‘ اس کی آخری کلام ہو مثلاً مرنے کے وقت اس کی زبان پر ’’ لا اله الا اللہ‘‘ جاری ہو اس کے بعد اس نے کوئی کلام نہ کی اور ’’ لا اله الا اللہ‘‘ پر خاتمہ ہو گیا، وہ ضرور کسی نہ کسی وقت جنت میں جائے گا کیونکہ اس وقت ’’ لا اله الا اللہ‘‘ پڑھنا یا تو نئے سر سے ایمان لانا ہے یا پہلے ایمان کو تازہ کرنا ہے پس دونوں صورتوں میں دنیا سے بہتر حالت پر رخصت ہوا۔

جو لوگ بے نماز اور بے زکوٰۃ ہیں اور ان کو نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ لیکن وہ اس امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی پرواہ نہیں کرتے ان س یقطع تعلق ضروری ہے ۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بنی اسرائیل نافرمانیوں میں مبتلا ہوئے۔ ان کے علماء نے ان کو روکا جب وہ باز نہ آئے تو علماء نے ان سے قطع تعلق نہ کیا بلکہ بدستور ان کے ساتھ بیٹھتے اٹھتے کھاتے پیتے رہے پس خدا نے سب کے دلوں کو یکساں بتا کر داؤد علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کی زبان سے ان پر لعنت کر دی یہ اس لیے کہ انہوں نے نافرمانی کی اور حد سے تجاوز کرتے تھے۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکیہ لگائے بیٹھے تھے، پھر سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا خدا کی قسم! یا تو تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو گے اور ظالم کا ہاتھ پکڑو گے اور اس کو حق پر روکو گے اور ظلم سے بند کرو گے ورنہ خدا تمہارے دل بھی یکساں بنا کر انہی کی طرح تمہیں لعنتی کرے گا۔

عبداللہ امرتسری روپڑی ضلع انبالہ ۱۸ شعبان ۱۳۵۹ھ مطابق ۲۱ ستمبر ۱۹۴۰ء فتاویٰ روپڑی: ص ۱۲۹)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 311

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ