سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(96) تقویۃ الایمان او ر نصیحت المسلمین جن میں شرک کی برائی ہے ..الخ

  • 3878
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1543

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

علمائے دین وفضلائے محققین موحدین سے یہ ہے کہ کتاب مسمی بہ تقویۃ الایمان تصنیف مولوی اسماعیل صاحب کی او رکتاب نصیحت المسلمین مولوی خرم علی صاحب کی جس میں شرک کی برائی کا بیان ہے ان دونوں کا کیا حال ہے، آیا ان پر عمل کرنا اور ان کے موافق عقیدہ رکھنا ہدایت ہے یا گمراہی اور ان کا مضمون موافق اہل سنت کے ہے یا نہیں اور جو شخص ان کے مصنفوں کو اور ان پر عمل کرنے والوں کو بہ سبب اس تصنیف کے اور عمل کے کافر اور گمراہ کہے اس کا کیا حال ہے اور ا سکے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں ؟ بینوا توجروا!


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نصیحت المسلمین اس فقیر کی نظر سے نہیں گذری اور نہ اس کے مصنف کا تفصیلی حال معلوم ہے لیکن اگر اس کتاب میں شرک کی برائی کا بیان ہے تو اس کے اچھے ہونے میں کس کو کلام ہے اور تقویۃ الایمان کو نظر اجمال سے دیکھا ہے باعتبار اصول اور اصل مقصود کے بہت خوب ہے ، او رمولوی اسماعیل صاحب کو ایسا دیکھا کہ پھر کسی کو ایسا نہ دیکھا یہ لوگ ان میں سے ہیں کہ جن کے حق میں حق سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾

’’تم میں سے ایک جماعت ہونی چاہئے جو بھلائی کی طرف بلا دیں اور اچھے کام کا حکم کریں اور برائی سے روکیں اور یہی ہیں مراد چاہنے والے ۔‘‘

اور فرمایا:

﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا وَ جٰہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُولٰٓءِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾

’’ایمان والے اور مہاجر اللہ کی راہ میں جان ومال سے کوشش کرنے والے اللہ کی رحمت کے امید وار ہیں اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے ۔‘‘

﴿وَ اللّٰہُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآءُ وَ اللّٰہُ ذُوْ الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ﴾

’’اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنی رحمت سے خاص کرے اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل کا مالک ہے۔‘‘

پس جو ان کو کافر اور گمراہ کہے وہ آپ گمراہ ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب!

(حررہ محمد صدر الدین، محمد صدر الدین)

سوال:سائل لکھتا ہے کہ کتاب تقویۃ الایمان تصنیف مولوی اسماعیل صاحب کی اور کتاب نصیحۃ المسلمین مولوی خرم علی صاحب کی جس میں شرک کی برائی کا بیان ہے ۔ الی آخرہ فقط!

جواب:سب خاص اور عام پر ظاہر ہے کہ شرک ایسی بری بلا ہے جس کے دفع کرنے اور مٹانے کو اور اس کی مذمت کے بیان کرنے کو سب انبیاء اور سول حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک بھیجے گئے اور سب صحیفے اور کتابیں آسمانی اور فرامین رحمانی تورات سے لے کر فرقان تک اسی شرک کی برائی ومذمت کے بیان میں نازل ہوئیں اور جو شخص زبان دان عربی واقف علوم دین و ماہر قواعد اصول شرع متین اول سے آخر تک قرآن شریف کو غور س یتلاوت کرے اور اس کے مضامین عالی پر اپنے فکر صحیح اور سلیم نظر خرچ کرے اس مطلب کو صراحۃً پائے گا کہ مراد اور مقصود اور مہتم بالشان حضرت رب العالمین جل ذکرہ کا نزول قرآن سے یہ دفع شرک اور اظہار توحید اور اثبات وحدانیت اپنی ذات پاک کا ہے اور یہی خلاصہ مضمون سب اذکار اور سب ادیان حقہ اور کلمہ توحید لا الٰہ الا اللہ‘‘ کا ہے جس کو سب انبیاء واولیاء مقربین اور صوفیہ صافیہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نفی اور اثبات سے تعبیر وبیان فرماتے ہیں۔ باقی مضامین اثبات رسالت واحکام معاد واحکام عبادت ومعاش وغیرہ مبادی اور وسائل تحصیل اسی توحید ذاتی اور صفاتی حضرت رب العالمین کے ہیں اور یہ توحید ذاتی اور صفاتی حضرت رب الارباب کے بلا فرق وتفادت کے سب دینوں اور مذاہب حقہ میں چلی آتی ہے کسی دین میں اس کا نسخ اور تبدیل ہوا اور کلام برکت التیام حصرت خیر الاولین والآخرین رسول رب العالمین کا جو چھ کتابوں وغیرہ میں مندرج ہے جس کو صحاح ستہ کہتے ہیں وہ سب اسی شرک وبدعت کے رفع کرنے اور اظہار توحید ذاتی اور صفاتی ور اعلائے کلمۃ اللہ اور احیائے سنت رسول اللہ میں بآواز بلند ناطق ہے اور حضرت خلفائے راشدین اور سب صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین اور علمائے مجتہدین اور محدثین صوفیہ صافیہرضی اللہ عنہم اجمعین دفع شرک وبدعت اور اثبات توحید ذاتی اور صفاتی اور اعلائے کلمۃ اللہ اور احیائے سنت رسول اللہ میں جس قدر سعی اور کوشش کر گئے ہیں ان کی کتابوں کے مطالعہ سے واضح ولائح ہے شکر اللہ سعیہم

اور متاخرین مثل امام غزالی اور امام رازی اور شیخ محی الدین ابن عبری اور حضرت قطب الاقطاب عبدالقادر جیلانی اور حضرت مجدد الف ثانیا ور شاہ عبدالحق محدث دہلوی اور شاہ ولی اللہ صاحب محدث اور شاہ عبدالعزیز صاحب وشاہ رفیع الدین وشاہ عبدالقادر محققین علمائے دہلی نے اسی دفع شرک اور بدعت میں اور اثبات توحید ذاتی اور صفاتی میں اور اعلائے کلمۃ اللہ اور احیائے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں طرح طرح س یمضامین رنگا رنگ بیان فرمائے ہیں جو کچھ شک وشبہ ہو ان سابقین لوگوں کی کتابیں ملاحظہ کرے۔

الغرض اس مضمون میں یعنی بیان مذمت وبرائی شرک وبدعت اور ا ثبات توحید ذاتی اور صفاتی حضرت واجب الوجود فائض الجود اور اعلائے کلمۃ اللہ اور احیائے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں وحی آسمانی اور کلام نبوی اور جما بیراہل سنت والجماعت از سلف تاخلف متفق اور متحد ہیں کسی کو اس میں مجال اختلاف اور انحراف کا نہیں ہے کیونکہ یہ عین ایمان ہے اس کا خلاف دین وایمان کا خلا ف ہے۔

پھر اب غور کیا چاہئے کہ جب یہ امر مانند آفتاب واضح ہو گیا کہ کتاب تقویۃ الایمان تصنیف مولوی اسماعیل صاحب مغفور ومرحوم کی یاد اور کوئی رسالہ مولوی خرم علی وغیرہ کا جس میں دفع شرک اور بدعت اور اثبات توحید ذاتی اور صفاتی اور اعلائے کلمۃ اللہ اور احیائے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان موافق قرآن مجید اور احادیث حمید کے ہو وہ سراسر مطابق مذہب اہل سنت وجماعت کے ہے اس پر عمل کرنا، اور اس کے موافق عقیدہ رکھنا عین ہدایت ہے، مخالف اس کا مخالف اہل سنت وجماعت کا ہے مجیب نے تقویۃ الایمان کو اور رسالہ نصیحت المسلمین کو مطالعہ کیا اس میں اول سے آخر تک آیا ت قرآن اور صحاح احادیث نبوی مندرج ہیں اقرار ان پر عین ایمان اور انحراف اور اعراض ان سے عین کفر ہے۔

مولوی خرم علی اپنی تحریر رسالہ میں دیبان مسائل میں اکثر تابع تحریر اور تقریر مولانا صاحب کے ہے اور تحریر اور تریر مولانا صاحب کی تقویۃ الایمان میں مثل تحریر و تقریر امام رازی مفسر تفسیرکبیر کے ہے اور مسائل اور احکام مندرجہ تقویۃ الایمان موافق کتب سلف اہل سنت کے ہیں اور جب کہ یہ مضمون عالی مقصود اعظم متفق علیہ جماعت انبیاء اور اولیاء اور علمائے اولین اور آخرین کا یعنے مضمون دفع شرک وبدعت اور اثبات توحید ذاتی اور صفاتی اور اعلائے کلمۃ اللہ اور احیائے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اشرف مقاصد دینی قرار دپایا۔ پھر غور کیا چاہیے کہ جوکتاب محتوی اور حامل اس مضمون شریف کو ہے وہ کس مرتبہ کی اشرف اور لائق تعظیم و تکریم ہو گی، اور تقویۃ الایمان میں اول سے آخر تک یہی مضمون شریف مندرج ہے۔

الحمد للہ! اس کتاب کی شرافت کس عالی درجہ میں علیا لرغم مخالفان ثابت ہو گئی ہے۔

پس اندرین صورت منکر اور مخالف کتاب تقویۃ الایمان پر جو کہ مضمون توحید ذاتی اور صفاتی حضرت واجب الوجود کا ہے ، انکار لازم آیا اور جس پر یہ انکار لازم آیا وہ اشد دا غلظ کفار ومنافقین میں شامل ہوا۔ پھر کیونکر ایسے بدعقیدہ کے پیچھے اہل سنت کی نماز درست ہو گی۔ ہاں اگروہ یوں تقریر کرے کہ مجھ کو بعضے مسائل فرعیہ مندرجہ تقویۃ الایمان میں شک وشبہ ہے تو ان شاء اللہ تعالیٰ ہم اس کے شک وشبہ کو رفع کر دیں گے۔ اس سے تین برس قبل فضل امام ابدایونی نے تقویۃ الایمان اور صراط مستقیم تصنیف مولوی اسماعیل صاحب مرحوم پر دس شبہات لکھ کر ایک رسالہ مقولات عشر نام شائع کیا تھا سواس کے جواب اور دفع شکوک میں ہم نے ایک کتاب نشر’’ نام فارسی زبان میں لکھدی ہے جس صاحب کو شوق ہو اس کا مطالعہ کرے۔

واضح ہو کہ اس موقعہ پر حضرت مولوی اسماعیل صاحب رحمہ اللہ مصنف کتاب تقویۃ الایمان کے چند اوصاف اور محامد کا ذکر کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

اس راقم الحروف نے حضرت ممدوح کو بخوبی دیکھا اور فیوض برکات زبانی ان کی صحبت سے اور انوار ایمانی ان کی مجالس وعظ ونصیحت میں پائے اور ہزاروں منکرین خدائے تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرب اور ہزاروں فاسقین دائم الخمر اور زانی بدکار ان کی صحبت کی برکت سے تائب اور پار سا ہو گئے ، حضرت مولانا ، حافظ قرآن مجید ضابطہ احادیث رسول حمید، حاجی الحرمینالشریفین، عالم ربانی، باعمل، عارف معارف سبحانی باخبر غازی ومجاہد فی سبیل اللہ ، مہاجر فی محبۃ رسول اللہ قامع بنیان شرک اور بدعت باعث احیائے سنت ، حامی دین وملت تھے، غرضیکہ اپنی جان ومال اور عزت وآبرو کو اس ولا صفات نے محض محبت خدا ورسول میں نثار کر کے رتبہ شہادت کبریٰ حاصل کیا۔

’’اللهم اوصله فی درجات رضوانك بفضلك ورحمتك‘‘

’’اے اللہ اپنے فضل اور رحمت سے ان کو اپنی رضا مندی کے درجات تک پہنچا دے۔‘‘

نزدیک مجیب کے مولانا مرحوم مرتبہ اولیاء کاملین کا سا رکھتے ہیں ان میں اولیائے سابقین کے سے اوصاف پائے جاتے ہیں کیونکہ شرع شریف کی رو سے خدا کا ولی او رسول کا مقبول وہی ہو سکتا ہے کہ جس کی صحبت میں خدا رسول کی محبت زیادہ ہو اور ایمان صیقل پائے ،گناہ چھوٹیں اور عبادت بڑھے اللہ جل شانہ کا خوف اور رسول مقبول کی راہ کی محبت دل میں پڑے دنیا سے بیزاری اور آخرت کے کاموں میں شوق زیادہ ہو سو یہ سب خوبیاں حضرت مولانا ممدوح کی صحبت میں موجود تھیں، اور نیز ان کی مصنفہ کتب میں پائی جاتی ہیں جن لوگوں کو دیدہ بصیرت اور نورا یمان اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے ہے ، وہ دریافت کر لیتے ہیں اور جو لوگ بغاوت اور شقاوت ازلی میں گرفتار ہیں وہ اس نور کی روشنی سے محروم اور بے نصیب ہیں ایسوں کی شان میں یہ صادق ہے:

﴿اولئك کالاَنْعام بَل هُم اَضَل﴾

’’یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گمراہ تر۔‘‘

اکثر آیات قرآنی واشارات رحمانی واحادیث صادقہ حضرت رسول مقبول کے مولانا کے حال صافی پر منطبق وصحیح مظنون ہیں۔ مگر بخوف طوالت بعض کو ذکر کرتا ہوں۔

قال اللہ﴿وَ مَنْ یَّخْرُجْ مِنْ بَیْتِه مُہَا جِرًا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوْلِه ثُمَّ یُدْرِکْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ﴾

’’اور جو شخص اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کے ارادہ سے اپنے گھر سے نکل کھڑا ہوا پھر اس کو موت نے پا لیا ، تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ واقع ہو گیا۔ ‘‘

﴿وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوْنَoفَرِحِیْنَ بِمَآ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِه ﴾

’’اور ان لوگوں کو جو اللہ کی راہ میں قتل ہو جائیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں رزق دئیے جاتے ہیں۔ اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل سے عنایت کیا ہے اس پر خوش ہیں۔‘‘

الغرض مولانا صاحب کا اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہونا اور عالم دیندار متقی اور پرہیزگار اور محدث اور حافظ قرآن ہونا، آفتاب کی مانند ثابت ہے اور وہ جو حدیث میں وارد ہے:’’ العلماء ورثۃ الانبیاء‘‘ ’’علماء لوگ نبیوں کے وارث ہیں۔ ‘‘وہ ایسے ہی علماء کی شان میں میں ہے۔:

((فنعم ما قیل فمن سب العلماء فکانما سب الانبیاء ومن سب الانبیاء فدخل فی حزب اعداء اللہ و رسوله فاولئك حزب الشیطان الا ان حزب الشیطان ہم الخامدون۔ فقط‘‘

سو بہت ہی اچھا کہا گیا ہے کہ جس نے علماء کو گالی دی اس نے نبیوں کو گالی دی اور جس نے نبیوں کو گالی دی تو وہ اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں کے لشکر میں شامل ہوا یہ لوگ شیطان کا لشکر ہیں‘ خبردار شیطان کا لشکر ہی خسارہ اٹھانے والا ہے۔‘‘

ایسے دیندار عالمان ربانی کو کافر اور ان کی کتابوں کو کہ جن میں بالکل آیات قرآنی اور احادیث نبوی مندرج ہیں برا کہنا یا برا جاننا اشد فیق ہے ، بلکہ خوف کفر ہے ،ایسے عقیدہ رکھنے والے پر شرح فقہ اکبر باب بیان کلمات میں ملاعلی قاری نے اس روایت کلمہ لون ذکر کیا ہے:

’’وفی الخلاصة من البغض عالما من غیر سبب ظاهر خیف علیه الکفر وقیل یکفر باستخفاف العلماء وہو مستلزم لا ستغفاف الانبیاء علیہم السلام لان العلماء ورثة الانبیاء ، انتہی ملخصا ‘‘

’’اور خلاصہ میں ہے جو کسی عالم سے بغیر کسی ظاہری سبب کے بعض رکھے اسی پر کفر کا خوف ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ علماء کی توہین کرنے کے باعث کافر ہو جاتا ہے اور علماء کی توہین انبیاء کی توہین کو مستلزم ہے کیونکہ علماء نبیوں کے وارث ہیں۔‘‘

اور ایسے ہی شرح عفاید نسفی میں لکھا ہے:

’’المنع عن الصلوٰة خلف المبتدع فمحمول علی الکراهة اذلاکلام فی کراهة الصلوٰة خٌف الفاسق والمبتدع ہذا ازا لم یودالفسق والبدعة الی حدا الکفر فاما اذا دی فلا کلام فی عدم جواز الصلوٰة ۔‘‘

یعنی ایسے عقیدے والے کے پیچھے جس کا فسق وبدعت حد کفر کو پہنچا ہو ، نماز پڑھنا اور اقتدار کرنا جائز اور درست نہیں ۔ واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واکمل، کتبہ العبد المسکین محمد تقی اختم اللہ لہ بالحسنی۔( محمد تقی خان، سید محمد نذیر حسین۔ فتاویٰ نذیریہ جلد اول،ص۷۱تا۷۶)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 250-256

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ