سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(95) تقویۃ الایمان نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑا بھائی کہا ہے..الخ

  • 3877
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 2831

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

’’صاحب تقویۃ الایمان نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑا بھائی کہا ہے حالانکہ تمام انبیاء آپ کی تابعداری کرنے اور امتی ہونے کی خواہکرتے رہے اور اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو صحابہ یا امت کا بھائی کہا ہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم بھی ان کو اپنا بھائی کہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اعتراض معترض بر فائدہ تقویۃ الایمان کہ زیر حدیث((اعبدوا ربکم واکرموا اخاکہ)) مذکور است ، نیز مشعر بر جہالت وعدم عبور اور بر قرآن مجید وحدیث است مدفوع بددوجہ است۔

’’معترض کا یہ اعتراض بھی صاحب تقویۃ الایمان کے فائدہ پر جو انہوں نے حدیث اعبدواء ربکم واکرموا اخاکم‘‘ کے تحت لکھا ہے سراسر جہالت اور قرآن وحدیث شریف پر عدم عبور کی بنا پر ہے اور یہ اعتراض دو طرح پر مردود ہے۔‘‘

وجہ اول این کہ مسلمان باہم چہ اعلیٰ وچہ ادنی باصل واحد کہ ایمان واسلام است منتسب می شوند، یعنی ایمان واسلام بمنزلہ اب است ، وہمہ مسلمانان برادران دینی ہستند، وانتساب دینی واسلامی اشرف وافضل است از انتساب نسبتی ، چنانکہ کفار با خود ہا بمشارکت۔

کفریہ اخوان اندر، خدائے تعالیٰ در قرآن مجید می فرمایا(انما المؤمنون اخوة) جز این نیست کہ مومنان برادرانند مریک دگر رادردین چہ ہمہ منت ، ندباصل واحد کہ ایمان است(انما المؤمنون اخوة) من حیث انہم منتسبون الی اصل واحد وہو الایمان الموجب للحیوۃ الابدیۃ کذا فی التفسیر البیضاوی المسئلۃ الاولی قولہ تعالیٰ(انما المؤمنون اخوة) قال بعض اہل اللغۃ الاخوۃ جمع الاخ من النسب والاخون جمع الاخ عن الصداقۃ فاللہ تعال قال(انما المؤمنون اخوة) تاکیدا لا مر واشارۃ الی ان ما بینہم ما بین الاخوۃ من النسب والاسلام کا لاب قال قائلہم؂

آبی الاسلام لا اب لی سواہ

اذا افتخروا بقیس او تمیم

انتہی ما فی التفسیر الکبیر وغیرہ من التفاسیر ،نعم ما قبل؂

ہزار خویش کہ بیگانہ ز خدا باشد

فدائے یک تن بیگانہ کاشنا باشد

وپر ظاہر است کہ صیغہ مومنون ومسلمون از جملہ الفاظ عام است العام ہوا للفظ المستغرق بجمیع ما یصلح لہ بحسب وضع واحد کذا فی کتب اصول الفقہ پس آیت کریمہ(انما المؤمنون اخوة) من حیث لا یمان مستوعب وشامل گردید رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم وہم امت مومنہ راد۔۔۔ است عند العلاء الفحول من اہل الاصول کا اخلاء المعنی من اللفظ العام الموضوع غیر معقول کما لا یخفی علی الماہر بالاصول۔

’’وجہ اول یہ ہے کہ مسلمان آپس میں خواہ ادنیٰ ہوں یا اعلیٰ ایک اصل ایمان کی طرف منسوب ہونے کی بنا پر بھائی بھائی ہیں یعنی ایمان اور اسلام بمنزلہ باپ کے ہے ، اور تمام مسلمان دینی بھائی ہیں اور دینی اور اسلامی نسبت سب سے اشرف واعلیٰ ہے اور کافر بھی اپنی ملت کفر یہ کی وجہ سے آپس میں بھائی ہیں اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں کہ مومن سب آپس میں بھائی بھائی ہیں یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ آج (بھائی) کی جمع دو طرح سے آتی ہے ایک اخوۃ اور دوسری اخوان‘‘ اہل لعنت کہتے ہیں کہ اخوۃ حقیقی بھائیوں کی جمع کے لیے آتا ہے اور اخوان دوستی کی وجہ سے بھائی کی جمع پر بولا جاتا ہے اور یہاں جمع اخوۃ ہے یعنی مسلمان سب آپس میں حقیقی بھائی ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ لفظ مومنوں اور مسلمون عام ہیں جس سے مسلمانوں اور مومنوں کا کوئی فرد بھی باہر نہں ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے خارج کرنا تخصیص بلا مخصص ہے۔‘‘

اگر معترض درین جا قیاس راد خل وہد دگوید، کہ من کثیف البال وسی الحال کجا و آنحضرت ذات شریف جامع فیض وکمال کجا ازیں جہت ذات بابرکات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم از عموم نص (انما المؤمنون اخوة) واز خطاب فاخوانکم فی الدین وغیرہ خارج است پس درین صورت اطلاق اخوۃ وبرادرکلان برآنحضرت جائز در دانہ بود، پس در صورت عدم جواز اطلاق اخوۃ برآن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سر اسرگناہ و بے ادبی است، گویم کہ نص عام رابقیاس خاص کردن کا را بلیس است کہ نص رابقیاس خاص نمودہ خودرا ازان خارج کردہ وازین روملعون شد چنانکہ از تفسیر کبیر وغیرہ ہو ید امی گرد (( والرابع انه تعالیٰ امر الملئکه بالسجود لا دم حیث قال ﴿واذ قلنا للملٰئکة اسجدوا الا ابلیس﴾ ثم ان ابلیس لم یدفع ہذا النص بالکلیۃ بل خصص نفسہ عن زلک العموم بقیاس ہو قولہ﴿خلقتنی من نار وخلقته من طین﴾ ثم اجمع العقلاءء علی انہ جعل القیاس مقدما علی النص وصار بذلک السبب ملعونا وہذا یدل علی ان تخصیص النص بالقیاس تقدیللقیاس علی النص وانہ غیر جائز انتہی ما فی التفسیر الکبیر فی سورۃ النساء ﴿اَطیعوا اللہَ وَاَطِیعوا الرَّسُولَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنکُم﴾

’’اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ ہم بد حال لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا نسبت؟ لہٰذا آپ کو عموم نص ﴿انما المؤمنون اخوة﴾ سے خارج سمجھا جائے گا اور اس طرح آپ کو ’’ بڑا بھائی کہنا جائز نہ ہو گا اور اس صورت ں آپ پر بھائی کا اطلکرنا سراسر بے ادبی اور گناہ ہو گا تو میں اس کے جواب میں تفسیر کبیر کا اقتباس پیش کرتا ہوں کہ لکھتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو آدم کے سامنے سجدہ بجا لانے کا حکم دیا تو شیطان نے اس نص کو بالکلیہ رد نہیں کیا بلکہ اپنے آپ کو اس آیت کے عموم نص سے قیاس کی بنا پر خاص کر لیا اور کہا ﴿خلقتنی من ناروخلقة من طین﴾ اور تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ شیطان نے قیاس کو نص پر مقدم کیا اور اس سبب سے ملعون ہو گیا اور یہ عبارت دلالت کرتی ہے کہ قیاس کی بنا پر نص کی تخضیص کرنا حقیقت میں قیاس کو نص پر مقدم کرنا ہے اور یہ جائز نہیں ہے اب اس ایت کے عموم کو قیاس کی بنا پر خاصرنے والے اپنے متعلق سچیں کہ وہ کون ہیں۔‘‘

وازین جا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم راگفتہ ، کہ من برادرشما ام ، و آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سنخ ابوبکر رضی اللہ عنہ راتقریر نمودہ وانکار نہ فرمودہ وآغاز قصہ این است کہ جناب آن سرور خیر البشر پیغام درخواست نکاح عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بسوئے ابوبکر رضی اللہ عنہ فرستاد پس ابوبکر صدیق درجوابش گفت کہ من برادر توام واخوۃ مانع نکاح است، پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمودا وراکہ تو برادر دینی واسلامی بحکم کتاب اللہ ہستی واویعنی عائشہ برمن حلاالست ونکاح من ازوجائز است خوۃ اسلامی مانکاح نیست ،بلکہ اخوۃ نسبتی ورضاعی مانع می شود و آن مفقود است چنانکہ درصحیح موجود واست ((عن عروة ان النبی صلی اللہ علیه وسلم خطب عائشہ الی ابی بکر فقال له ابوبکر انما انا اخوك فقال انت اخی فی دین اللہ وکتابهه وهی لی حلال کذا فی صحیح البخاری فی باب تزویج الصغار من الکبار من الجزء الحادی والعشرین قوله فقال لہ ابوبکر انما انا اخوک فقال صلی اللہ علیہ وسلم انت اخی فی دین اللہ وکتابہ وہی لی حلال نکاحہا لان الاخوۃ المعانۃ من ذلک اخوۃ النسب والرضاع لااخوۃ الدین کذا فی القسطلانی وفتح الباری وخبر عروہ بصورت ارسال است وبمعنی مرفوع است چنانکہ از فتح الباری مستفاد می شود کما لا یخفی علی الماہر بالحدیث ۔

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا رشتہ پوچھا، تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اخوت اسلامی کی بنا پر عرض کیا یا حضرت میں تو آپ کا بھائی ہوں تو آپ نے فرمایا ہاں واقعی تو میرا اسلامی بھائی ہے لیکن اس سے ہرمت نکاح ثابت نہیں ہوتی نکاح کی حرمت نسب یارضاع سے ثابت ہوتی ہے۔‘‘

وآیت کریمه سورة براة

﴿فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوةَ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ ﴾

ترجمہ! پس اگر بازگرونداز کفر وبپائے دارند نماز رادید ہند زکوٰۃ راپس ایشان برادران شما انددردین اسلام ایشان راست آنچہ شمارابودوبرایشان است آنچہ برشماباشد، نیز موید وممداست مرآیت اولیٰ راز یرا کہ خطاب یہ نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ تر مقتضی است داعی و ہادی الی الاسلام وامل واعلم واتقی واکرام اند، پس منکر ازین خطاب بلا ریب جاہل وگمراہ است چنانکہ برماہر ان نصوص مخفی نخواہد بودبنا بران درتفسیر کبیر در سوہ اعراف گفتہ کہ ((لایجوز تخصیص النص با لقیاس انتہی مافیہ مختصراً

’’اور قرآن مجید میں ہے کہ اگر وہ توبہ کریں اور نما زقائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو دین میں تمہارے بھائی ہیں اب اس آیت اور اوپر کی حدیث سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھائی ہونا ثابت ہوا اخوانکم میں ضمیر کم کے اولین مخاطب تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہوں گے کیونکہ وحی اصصاۃ آپ ہی کی طرف آتی تھی ار دوسرے مسلمان بعد میں مخاطب تصور ہوں گے۔قرآن مجید کی دونوں آیات اور حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمارا بھائی بنا رہی ہیں اور چونکہ آپ کا ایمان ساری دنیا والوں کے ایمان سے بھی ہزارہا بلکہ کرورڈگنا زیادہ ہے۔ لہٰذا آپ بڑے بھائی ہوں گے اور باقی تمام امت چھوٹ بھائی۔‘‘

پس رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم بدلیل ہر دو آیت کریمہ مذکورہ از راہ اخوۃ اسلامی برادر کلان و بزرگ ترشدند دہمہ امت مسلمہ برادرخورد دکمتر گردید ندمن حیث الایمان ، چہ ایمان رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم الوف آلاف از ایمان تمام امت مومنہ ازید وافضل است کما تقرر فی مقرہ ((عن ابی ہریرۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتی المقبرۃ فقال السلام علیکم دار قوم مومنین وانا انشاء اللہ بکم لا حقون وددت انا قدر اینا اخواتنا قالو او لسنا اکوانک یا رسول اللہ قال انتم اصحابی واخواننا الدین لم یاتو بعد الی اخر مارواہ مسلم کذا فی المشکوٰۃ فی الفصل الثالث من کتاب الطہارۃ۔ قال العلامۃ الطیبی فی شرح ہذا الحدیث لیس نفیالاخرتہم لکن ذکرہ مزیۃ لہم بالصحبۃ علی الاخوۃ فہم اخوتہ وصحابتہ واللاحقون اخوۃ کما قال اللہ تعالیٰ(انما المومنون اخوۃ) انتہی کلام الطیبی فی شرح المشکوٰۃ‘‘

ترجمہ حدیچ، دوست میدارم وآرزدمی برم کہ کاش من وکسانے کہ بامن اندمی دیدیم برادران خودریعنے آنہاکہ بعدازین بآیندء گفتند صحابہ کہ یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بودند ، آیا برادرمی خوانی آنہار او ما نیستم برادران تو فرمود شما اصحاب ہستید، برادران ما آنہا اند کہ بعد ازین بیایند وایشان ہنوز باقلیم وجود قدم نہ نہادہ اندا نتہے ما فی ترجمہ الشیخ عبدالحق المحدث الدہلوی وجذب القلوب لہ۔

وشیخ جلال الدین درجمع الجوامع چند حدیث بدین مضمون آدردہ است وازین جہت شیخ محی الدین ابن العربی و رباب پنجم فتوحات مکمی نوشته فضلت الصحابة فانہم حصلوا الذات وحصنا نحن الاسم ولما راعیتا الاسم مراعاتہم الذات ضوعن لنا الا جر وایضا للحسرة التی لم تکن لہم فکان لنا تضعیف علی تضعیف فنحن الاخوان وهم الاصحاب انتہی کلامه۔

’’اس کے بعد اس حدیث پر بھی غور فرمائیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان میں تشریف لائے ،مردگان کے لیے دعا فرمائی اور کہا کاش! ہم اپنے بھائیوں کو دیکھ لیتے، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا ہم آپ کے بھائی نہیں آپ نے فرمایا: تم میرے صحابی میرے بھئای وہ ہیں جو ابھی پیدا نہیں ہوئے بعد میں آئیں گے۔‘‘

علامہ طیبی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے بھائی ہونے کی نفی نہیں فرمائی بلکہ ان کی ایک اور فضیلت بیان کر دی جو بھائی ہونے کے علاوہ ان کو نصیب تھی، شیخ محی الدین ابن عربی فتوحات مکیہ میں فرماتے ہیں کہ صحابہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات نصب ہوئی اور ہمیں ان کا اسم گرامی ملا ہم نے جب اس اسم کی رعایت ذات کی طرح کی اور پھر ہمارے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کی حسرت بھی رہی تو ہمارا اجر بہت بڑہا دیا گیا ہم کو بھائی کا درجہ نصیب ہوا اور ان کو صحابی کا۔‘‘

پس قول صاحب تقویۃ الایمان مطابق قرآن مجید وقول وتقریر رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم وقول ابوبکر صدیق واقوال دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم بپایہ صدق متلقی بالقبول گردید ومجال معترض نادان تنگ شد تو بہ درکار واگر اعتقاد بر عنوان قرآن و فرمود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدار دبلا ریب خاطی وگنہگار شرمسار روزگار باشد واعتقاد برآیت(لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ) کہ مژدہ کامرانی دو جہانے می بخشد باید داشت داز دائرہ شریعت یا بجہالت بیروں نباید گذاشت وعلم منشور لا معنی النور(جاء الحق وزہق الباطل ) برصداقت صاحب تقویۃ الیمان وحماقت معترض متعصب دنادان برا فراشت وحق حقیق بجانب صاحب رسالہ باید پنداشت ،چہا افسوس بر افسوس کہ حسن وعقل سلیم معترضین از خوروتامل نصوص مبدل گردیدہ کہ اعتراض بے ہودہ ازنا فہمی حق بر صاحب رسالہ ناحق می کنند وعارف رومی رحمہ اللہ درشان ہبچو کسان نافہمان درمثنوی می فرمائد

از شراب قہر چوں مستی دہی

نیست ہارا صورت ہستی دہی

چیست مستی بندچشم ازدید خشم

تانماید سنگ گوہر یشم یشم

چیست مستی حسہا مبدل شدن

چوب اگر اندر نظر صندل شدن

وجہ دوم، درانچہ صاحب تقویۃ الایمان گفتہ کہ انسان آپس میں سب بھائی ہیں جو بڑا بزرگ ہو وہ بڑا بھائی ہے سو ان کی تعظیم انسانوں کی سی چاہئے نہ خدا کی سی الی اآخرہ ،پس آنبنا بررداعتقاد فاسد مسلمانان جہلاد بعضے صوفیان سفہاء کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم را از حد لوازم بشریت واز مرتبہ نبوت ومنصب رسالت برمدارج الوہیت وصفات رب العزت رسانید امور مستحیلہ کہ مختص بذات وصفات وافعال اد ذوالجلال لایزال است برسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نسبت می کنند، دبدان اعتقاد در کفر وشرک می افتند نوشتہ ومطابق کتاب اللہ تعالیٰ وسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بخوبی نگاشتہ ونقاب غفلت دخذلان از روئے جہلا برداشتہ وتفصیل اجمال این برین منوال است، کہ بعضے صوفی جاہل کہ خود راپیشوائے دین واسلام می شمار ندا اعتقاد می کنند یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم را اللہ مجسم میدانند ومی گویند کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مظہر اسم اللہ اند وغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مظاہر اسماء دیگر ، چون رحمن ورحیم، قاہر ومضل ومظہربدان معنی گویند کہ اسم اللہ متعین شد محمد نام شد، واگر محمد مطلق شود اللہ گردود نعوذ باللہ منہا ، ہنود مہادیو درام را اوتارمی گویند، ایشان محمد صلی اللہ علیہ وسلم را گفتند شاید کہ بتے ہم بنام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بسا زند دبہ برتش پر دارزند، تمام شد کلام مولوی ظہور الحق صاحب عظیم آبادی رحمہ اللہ در تنویر الطالبین کہ در رد صوفیان جاہلین نوشتہ واین صریح کفر است بلا ریب و حذوالنعل بالنعل قول یک فرقہ نصاری یعقوبیہ است چنانکہ او حق سبحانہ ور قرآن مجید می فرماید۔

﴿لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ وَ قَالَ الْمَسِیْحُ یٰبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ اعْبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیْ وَ رَبَّکُمْ ﴾ الایة (هذا هو قول الیعقوبة لانہم یقولون ان مریم ولدت الہا ولعل معنی هذا المذهب انہم یقولون اللہ تعالیٰ حل فی ذات عیسیٰ واتحد بذات عیسی ثم حکی تعالیٰ عن المسیح انه قال وهذا تنبیه علی ماهوا الحجة القاطعة علی فساد قول النصاری وذلك لانه علیه الصلوٰة والسلام لم یفرق بین نفسه وبین غیرہ فی ان دلائل العدوث ظاهرة علیه انتہی ما فی اتفسیر الکبیر من سورة المائدة وقال فی المدارك ان بعض النصاری کانوا یقولون کان المسیح بعینه هو اللہ لان اللہ ربنا یتجلی فی بعض الازمان فی شخص فتجلی فی ذلك الوقت فی شخص عیسیٰ ولہذا کان یظہر من شخص عیسیٰ افعال لا یقدر علیہا الا اللہ انتہی ما فی المدارك مختصراً۔

’’تو ان تصریحات کی روشنی میں صحاب تقویۃ الایمان کی عبارت بالکل صحیح ہے اور معترض متعصب اور نادان ہے ۔‘‘

دوسری وجہ یہ ہے کہ صاحب تقویۃ الایمان نے جو یہ لکھا ہے کہ انسان آپس میں سب بھائی ہیں جو بڑا بزرگ ہو وہ بڑا بھائی ہے سو ان کی تعظیم انسانوں کی سی چاہیے نہ خدا کی سی۔۔۔ الخ تو یہ جاہل مسلمانوں اور بعض بے وقوف صوفیوں کے قول کی تردید کے لیے لکھا ہے جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نوازم بشریت سے نکال کر بجائے منصب رسالت و نبوت کے مرتبہ الوہیت پر پہنچا دیتے ہیں اور ناممکن افعال جو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک سے خاص ہیں ان کی طرف منسوب کرتے ہیں اور اس طرح کفر وشرک میں مبتلا ہو جاتے ہیں، چنانچہ وہ لوگ تو یہاں تک پہنچ گئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مجسم خدا ماننے لگے اور کہہ دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو اسم اللہ سے پیدا ہوئے اور دوسری تمام مخلوقات دوسرے اسماء سے اور اس میں اتنا غلو کیا کہ کہنے لگے کہ جب اللہ کا اسم متعین ہوا تو اس کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہو گیا اور اگر محمد مطلق ہو جائے تو اللہ بن جائے نعوذ باللہ من ہذہ الخرافات ، ہندو مہادیو اور رام چند ر کو خدا کا اوتار کہتے ہیں یہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے ہیں ان کی یہ بات عیسائیوں کے فرقہ یعقوبیہ کی طرح ہے جنہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کہا ان کا عقیدہ یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام میں خدا نے حلول کیا تھا یہی وجہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام سے ایسے افعال صادر ہوتے تھے جو خدا کے ساتھ مختص ہیں۔‘‘

و شاہ عبدالقادر صاحب مرحوم برادر خرد شاہ عبدالعزیز قدس سر ہما تحت آیت سورہ انعام ﴿قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآءِنُ اللّٰہِ وَ لَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَآ اَقُوْلُ لَکُمْ اِنِّیْ مَلَکٌ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰی وَ الْبَصِیْرُ اَفَلَا تَتَفَکَّرُوْنَ﴾ مطابق قول صاحب تقویۃ الایمان در موضح القرآن می نویسند یعنی پیغمبر آدمی کے سوا کچھ اور نہیں ہو جاتے کہ ان س یمحال باتیں طلب کرے ایک اندھے اور دیکھتے کا فرق ہے۔ انتہی کلامہ

وصاحب تفسیر کبیر در رد عقیدہ شرکیہ ہمچو تقریر صاحب تقویة الایمان زیر ہمین آیت مذکورہ می نویسد الایة مسائل اکل مسئله الاولی اعلم ان هذا من بقیة الکلام علی قوله(لولا انزل علیه ایة من ربه فقال اللہ تعالیٰ قل لہٰؤلاء الاقوام انما بعثت مبشا ومنذرا او لیس لی ان احکم علی اللہ تعالیٰ )وامرہ اللہ تعالیٰ ان ینفے عن نفسه امورا ثلاثة اولہا قوله (لا اقول لکم عندی خزائن اللہ فاعلم ان القوم کانوا یقولون له ان کنت رسولا من عند اللہ فاطلب من اللہ حتی یوسع علینا منافع الدنیا وخیراتہا ویفتح علینا ابواب سعاداتہا فقال تعالیٰ (قل لهم انی لا اقول لکم عندی خزائن اللہ )فہو تعالیٰ یؤتی الملك من یشاء ویعز من یشاء ویذل من یشاء بیدہ الخیر لایدی وثانیها قوله (ولا اعلم الغیب ) ومعناہ ان القوم کانوا یقولون له ان کنت رسولا من عنداللہ فلا بدان تخبرنا عما یفع فی المستقبد من المصالح والمضار حتی نستعد لتحصیل تلك المالح ولدفع تلك المضار فقال تعالیٰ(قل انی لا اعلم الغیب) فکیف تطلبون منی هذہ المطالب والحصر انہم کانوا فی المقام الاول یطلبون منه الاموال الکثیرة والخیرات الاسعتکم فی المقام الثانی کانوا یطلبون منه الاخبار عن الغیب لیتوسلوا بمعرفة تلك الغیوب الی الفوز بالمنافع والاجتناب عن المضار والمفاسد وثالثہا قوله ولا لکم انی ملك) ومعناہ ان القوم کانوا یقولون ما لہذا الرسول یاکل الطعام ویمشی فی الاسواق ویتزوج ویخالط الناس فقال تعالیٰ(قل لہم انی لست من المفسد‘‘

واعلم ان الناس اختلفوا فی انه من الفائدة فی ذکر نفی هذہ الاحوال الثلاثة فالقولا الاول ان المواد منه ان یظہر الرسول من نفسه التواضع للہ والخضوع له والاعتراف بعبودیت حتی لا یعتقد فیه مثل اعتقاد النصاریٰ فی المسیح علیه السلام والقول الثانی ان القوم کانوا یفترحون منه اظہار المعجزات القاهرة القویة لقولهم(وقالو لن نؤمن لك حتی تفجرلنا من الارض ینبوعاً الی اٰکرا الایة) فقال تعالیٰ فی اٰخرا لایة( قل سبحان ربی هل کنت الا بشر رسولاً) یعنی لا ادعی الا الرسالة والنبوة واما هذہ الامور التی طلبتموہا فلایمکن تحصلہا الا بقدرة اللہ تعالیٰ فکان المقصود من هذا الکلام اظہار العجزوالضعف وانه لا یستقل بتحصیل هذہ المعجزات التی طلبوها منه والقول الثالث ان المراد من قوله(لاقول لکم عندی خزائن اللہ) معناہ انی ادعی کوفی موصوفا بالقدرة الائقة باللہ تعالیٰ فوقوله( ولا اعلم الغیب) ای ولا ادعی کوفی موصوفا بعلم اللہ تعالی وبمجموع هذین الکلامین حصل انه لا یدعی الالہیة ثم قال(ولا اقول لکم انی ملك) وذلك لانه لیس بعد الالہیة درجة الاعلیٰ حالا من الملٰئکة فصار حاصل الکلام کانه یقول لا ادعی الالہیة ولا ادعی الملکیة ولکنی ادعی الرسالة وهذا منصب لا تمنع حصوله للبشر فکیف اطبقتم علی استنکارِ قولی ودفع دعوائی انتہی ما فی التفسیر الکبیر للامام الرازی پس دندنہ صاحب تقویة الایمان در ردبدعقیدگان انبیاء ہم چودندنہ صاحب تفسیر کبیر درابطال عقیدہ مردمان اشقیاء کما لایخفی علی الاذکیاء

’’شاہ عبدالقادر صاحب دہلوی نے موضح القرآن میں آیت ﴿قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآءِنُ اللّٰہِ وَ لَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَآ اَقُوْلُ لَکُمْ اِنِّیْ مَلَکٌ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰی وَ الْبَصِیْرُ اَفَلَا تَتَفَکَّرُوْنَ﴾ کے تحت لکھا ہے کہ پیغمبر آدمی کے سوا اور کچھ نہیں ہو جاتے کہ ان سے محال باتیں طلب کہ سے ایک اندھے اور دیکھتے کا فرق ہے۔‘‘

تفسیر کبیر میں امام رازی نے اسی آیت کے تحت لکھا ہے آپ ان سے کہہ دین کہ میرا کام تو صرف انذار اور مبشر ہے میں اللہ تعالیٰ سے زبردستی کوئی چیز نہیں منوا سکتا اور آپ نے تین چیزوں کی نفی فرمائی، میرے پاس اللہ کے خزانے نہیں ہیں ، میں غیب نہیں جانتا اور میں فرشتہ نہیں ہوں اس لیے کہ وہ کہتے تھے اگر آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہمیں دولت مند بنا دیجئے اگر یہ نہیں کر سکتے تو کم از کم ہمیں غیبی خبریں ہی بتا دیجئے تاکہ ہم چیزوں کے نرخ معلوم کر کے نفع حاصل کر سکیں اگر یہ بھی نہیں ہو سکتا تو کم از کم خود ہی ہماری سطح سے بلند ہو کر دکھائیے کھانے پینے کی محتاجی جیسے ہم کو ہے تم کو نہیں ہونی چاہئے تو ان کا ایک ہی جواب دیا گیا کہ میں تو صرف ایک انسان ہوں اور خدا کا رسول ہوں۔‘‘

مولانا شاہ عبدالعزیز قدس سرہ در تفسیر سورہ جن می نویسند، باید دانست کہ ذکر وعبادت مستلزم طلب حضور آن چیز است کہ اور اند کور می کنند و معبود می سازند، پس ذگر وعبادت غیر درمفامے کہ خصوصیت بحضرت حق تعالیٰ داشتہ باشد ازان قبیل است کہ مکانے رابرائے نزدل وقد دم بادشاہ ہے مہیا سازند وہمراہ او کسے را ازرعایائے اور نیز دعوت کنند کہ کما بے ادبی است (وانہ لما قام عبداللہ) وآنکہ ہر گاہ برمے خیز دبندہ خداازان جہت کہ بندہ است ، اور اخواندن خاوند خود ضرور است تا عرض مطلب خود نماید دلہذابر ائے این بی می خیز د کہ یدعوہ یعنے بخواند خدا را دبہ سبب ذکر وخواندن او حضرت حق بر قلب اور تجلی فرماید وبہترین مکانات بدنش کہ دل است محل نزدل نور الٰہی گرد وراد تعالیٰ در ان محل مہمان شود (کادوا یکونون علیه لبدا) یعنے قریب است کہ آدمیان وجنیان برآن بندہ ہجوم آدردہ مانند نمد توبر توشند یکے ازان بندہ طلب فرزند می کندد دیگرے طلب روزی ودیگر سے طلب خدمات دنیا ودیگرے کشف کو فی و علی ہذا القیاس بسبب این ہجوم آوردن ہمہ اوقات او را منغص ومشوش می کنند دہم خود درد رطۂ شرک وکفر گرفتار می شوندو می فہمند کہ چون نور الٰہی بخانہ درد نے این بندہ بسبب کمال ذکر وعبادت نزول فرمود گویا این بندہ شریک کار خانہ خدائے شدو ادرا و جاہتے وقدر نزد حق تعالیٰ پیدا شدکہ ہر چہ این بگوید حق تعالیٰ بعمل آرد چنانچہ در دنیا مہمان را خاطر داری میزبان بہ ہمیں مرتبہ می باشد ولہذا ابل دنیا متجس مے باشند کو کہ بادشاہ امیر وحاکم وفوجدار در خانہ ہر کہ مے آیند ازوے حل مشکلات وحاجت روائی مے جو یند، دبہ ہمین خیال فاسد کہ درحق بندگان خدا بخدا بم میر ساننذدر ورطہ پیر پرستی دگور پرستی می افتند ودرین حادثہ جنیان د آدمیان ہر دو شریک اند، وترا منصب رسالت ثقلین اگر درین امر درحق خود خوف کنی باین ہر دو فرقہ واشگاف (قل انما ادعوا ربی) یعنی بگو سوائے این نیست کہ من می خواتم پردرگار خودرانا ظلمت کدہ دل مرانیور تجلی خود مشرف سازدو (ولا اشرک بہ احد) یعنے وہرگزشریک نہ می کنم با اوہیچ کس راد چوں من با اوہیچ کس را شریک نہ می کردم ، وبخواندن پردرگار خود مشغول شدم پس ازدیگران کے روا خواہم داشت کہ مرابخوانند یا مرا باد شریک مقرر کنند واگر این ہر دو فرقہ از تو ،توقعے نفعے یا ضررے داشتہ ترا بخوانند وشریک مقرر کنند پس صاف(قل انی لا املک لکم ضرا ولا شداً) یعنے بگو تحقیق من ہرگز مالک نیتم برائے شما ضررے دنہ تدبیر مطلب رس را چنانچہ پیش از من وکلاء وسفرائے جنیان وارد داح ضالہ بنی آدم اہل دنیا رابطمع منفعتہا وخوف مضر تہامی فریفتند، دخودرانزدآنہا مالک نفع وضرر نمود می کردند کہ حالا این دفتر راگاوخورد کردم واگر حادثہ ومصیبتے بتو پناہ آرندد بخواہند از غضب خدا دردامن توپناہ گیر ندپوست کندہ(قل انی لن یجیرنی من اللہ احد) یعنے بگو بتحقیق من خوددرین حالت ام کہ ہرگز پناہ نمی تواند داد مرااز غضب خدا ہیچ کس( ولن اجد من دونہ ملتحدا) یعنے وہرگز نہ خواہم یافت درد جدان خود دریہچ وقت سوائے خدا ہیچ جائے رجوع ومیلان تابسوئے آن رجوع والتجاکنم تمام شدکلام مولانا شاہ عبدالعزیز در تفسیر عزیزی۔

’’دیکھئے صاحب تفسیر کی تقریر بھی تو صاحب تقویۃ الایمان ہی کی طرح ہے اور شاہ عبدالعزیز سورہ جن کی تفسیر میں لکھتے ہیں جاننا چاہے یکہ ذکر وعبادت کی مثال ایسی ہے کہ جیسے اپنے معبود ومذکور کو کسی مقام پر بلایا جائے تو جیسے بادشاہ کو کسی جگہ اجلاس کرنے کی دعوت دی جائے اور اس کے ساتھ ہی کسی اور کو بھی دعوت دے دی جائے تو یہ بادشاہ کی انتہائی توہین ہے ایسا ہی اگر خدا تعالیٰ کو پکاریں او راس کے ساتھ کسی اور کو بھی پکاریں تو اس سے کدا تعالیٰ کی توہین ہوتی ہے وانہ لما قام عبداللہ‘‘ یعنی جب بندہ خدا تعالیٰ کو پکارنے اور اس کی عبادت کرنے لگا، تو جنوں اور انسانوں نے سمجھ لیا کہ اب یہ مقبول الدعوات ہو گیا حق تعالیٰ نے اس پر تجلی فرمائی ہے تو اس پر تہ بر تہ گرنے لگے کوئی اس سے فرزند کا مطلب گا دعا کو رزق کی فرخی کا فراخی کا کوئی صحت اور خوش حالی کا اور اس کے اوقات کو پریشان کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ ان سے کہہ دیں کہ میں نے تو اپنے رب کو پکارتا ہوں کہ وہ میرے ظلمت کدہ دل کو پریشانی اوقات کی ظلمت سے منور کر دیے اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا اور جب میں خود اس کے ساتھ کسی کو شریک کرنے کے لیے تیار نہیں تو میں کب گوارا کر سکتا ہوں کہ کوئی مجھ ہی کو خدا کا شریک بنانے لگے اور اگر ان دونوں کو آپ سے نفع ونقصان کی امیدیں ہوں تو صاف کہہ دیجئے کہ میں تو اپنے نفع ونقصان کا مالک بھی نہیں ہوں اور اگر خدا کی نافرمانی اور بے ادبی اور گستاخی کر کے آپ کے دامن میں پناہ لینا چاہیں تو آپ کہہ دیں کہ خود میرے لیے بھی خدا کے سوا کوئی پناہ کی جگہ نہیں ہے۔‘‘

قوله (انی لا املك لکم ضر ولا رشد) ومعنی الکلام ان النافع والضار والمرشد والمغوی هوا للہ وان احد امن الخلق لا قدرة علیه انتہی ما فی التفسیر الکبیر بایددانست کہ روش وطرز بیان صاحب تقویة الایمان ونصیحت المسلمین مولوی خرم علی مرحوم در رداشراك وابطال عقائد فاسدہ عوام ہمچو روش بیان مولانا شاہ عبدالعزیز ،وصاحب تفسیر کبیر است چنانکہ برما ہران کتب مذکورہ مخفی نخواہد بودباز قیل وقال کردن بر صاحب تقویۃ الایمان وصاحب نصیحت المسلمین خالی از غبادت وجہالت نیست نعوذ باللہ من الغبی الغوی۔

واصل حدیث کہ معترض برفائدہ آن اعتراض بر مولوی اسماعیل دہلوی رحمہ اللہ کردہ است نوشتہ می شود عن عائشہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان فی نفر من المہاجرین والانصار) روایت است از عائشہرضی اللہ عنہا کہ آنحصرت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تسجدلک البہائم والشجر سجدہ می کنند تراچہار یا یہادور ختان ’’ فخن احق ان نسجد لک‘‘ پس ماسزا دار تریم بآنکہ سجدہ کنیم مرترا’’ فقال اعبدواربکم‘‘ پس گفت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عبادت گنید پروردگار خودرا واکرموا اخاکم گرامی وعزیز دارید برادر خودرا عبادت ذات شریف خود داشت و لوکنت امرا احدان یسجد لاحد لامرت المراۃ ان تجسد لزوجہا الی اخر مافی المشکوٰۃ رواہ احمد۔

’’اور معترض نے صاحب تقویۃ الایمان مولانا اسماعیل شہید کی جس عبارت پر اعتراض کیا ہے وہ اس حدیث کا فائدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین وانصار کی ایک جماعت میں تشریف فرما تھے ایک اونٹ نے آکر آپ کو سجدہ کیا تو صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ چارے پائے جانور اور درخت آپ کو سجدہ کرتے ہیں تو ہمارا زیادہ حق ہے کہ ہم آپ کو سجدہ کریں تو آپ نے فرمایا اپنے رب کی عبادت کرو اور اپنے بھائی کی عزت کرو اگر میں اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنے کی اجازت دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔‘‘

وازین حدیث دو فائدہ مستفادشد، یکے آنکہ صحابہ کرام بفرط محبت اور زیادت تعظیم خواستند کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم را سجدہ کنند، لیکن اجازت سجدہ کردن نداد کہ غیر مشروع بود زیرا کہ سجودازا قصیٰ مرتبہ تعظیم است برائے آنکہ اعلیٰ وجہ تعظیم ذاتی داشتہ باشد وآن مختص بذات پاک رب العالمین است

فائدہ دوم، آنکہ قیاس صحابہ برقیاس سجدہ کردن بہالم ودرخت نزد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحیح ومقبول نہ شدہ کہ قیاس مع الفارق بود، زیراکہ پہائم ودرخت مکلف ہم چو جن وانس براحکام شریعت انبیاء علیہم السلام نیستند، چہ سجدہ آنہا تبسخیر الٰہی می باشد، واین از مباحث شرعیہ خارجہ است بخلاف جن وانس کو براحکام شرعیہ بواسطہ انبیاء علیہم السلام مسخر اند، کہ ازین چارہ نیست ایشان راولہذا فرمود(اعبدوا ربکم) چہ عبادت مختص بہ پروردگار است ۔

در روایت است در صحیح بخاری از حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہ ’’ لا تطرو فی کما اطرت النصاری عیسی بن مریم وقولوا عبداللہ ورسولہ‘‘ یعنی در مدح من مبالغہ از حد عبدیت زیادہ کمند چنانکہ مبالغہ حضرت عیسیٰ ابن مریم از حد عبدیت بمرتبہ الوہیت درمارح کردہ شد وبگوید واعتقاد کنند بندہ اور ورسول او وازین معنے شیخ عبدالحق محدث دہلوی در رسالہ نہم زیر حدیث’’ الدین النصحیۃ‘‘ از جملہ مکتوبات خود می نویسند کہ جمیع مراتب کمالات صوری ومعنوی در عبدہ ورسولہ مندرج است وعبودیت خاصہ ومخصوص ذات شریف اوست، کہ بندہ حقیقی جزا وکس نتواند بود، خدا خداست دبندہ بندہ او انتہی کلامہ مختصراً

’’جانور اور درخت چونکہ احکام شرعیہ کے مکلف نہیں ہیں لہٰذاان کو اس سے روکا نہیں جا سکتا او رجن وانس چونکہ مکلف ہیں اور شریعت میں حکم ہے کہ خدا کے سوا کسی کو سجدہ نہ کیا جائے ، لہٰذا انسانوں کو اس س یمنع فرمایا گیا اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ کا درختوں اور جانوروں کے سجدہ پر قیاس کر کے خود سجدہ کرنا حضور کے نزدیک مقبول نہ ہو سکا کیونکہ یہ قیاس مع الفارق تھا، لہٰذا آپ نے فرمایا: اپنے رب ہی کی عبادت کرو اور میری عزت کرو، بخاری کی حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا میری تعظیم میں اس طرح مبالغہ نہ کرنا جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعریف میں مبالغہ کیا کہ ان کو عبدیت کے مقام سے نکال کر الوہیت کے مقام پر پہنچا دیا تم یہی کہتے رہنا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں تمہارے ہی جیسا ایک آدمی ہوں ہاں اللہ تعالیٰ نے مجھے نبوت ورسالت سے سرفراز فرمایا ہے اس مرتبہ میں مجھ کو وہ مقام بخشا ہے جو دوسرے لوگوں کو نصیب نہیں ہوا میں تمام بنی آدم کا سردار ہوں فخر یہ نہیں کہتا بلکہ حقیقت کا اظہار کرتا ہوں۔‘‘

ازین جافرمود’’ واکرموا اخاکم‘‘ یعنے بسبب منصب رسالت از صفات بشریت ممتاز بودہ بصفات الوہیت متصف نہ شدہ ام کہ مراعبادت کیند د سجدہ نمائید ’’ انا سید ولد ادم ولا فخر‘‘ بدانیدواکرام کیند وگرامی دارید واطلاق برادر بجہت بنی آدم بودن ’’ وانا بشر مثلکم‘‘ است وبزرگ وکلان از لفظ اکرام وجملہ’’ انا سید ولد آدم‘‘ بوجہ حسن مستفاد گردید، قاللہ تعالیٰ(قد جائکم رسول اللہ من انفسکم ای من جنسکم عربی مثلکم انتہی) ما فی البیضاوی قولہ (من انفسکم ) وفی تفسیرہ وجوہ الاول یریدانہ بشر مثلکم کقولہ تعالیٰ(اکان للناس عجبا ان اوحینا الی رجل منہم ) وقولہ انا بشرٌ مثلکم )والمقصود انہ لوکان من جنس الملائکۃ لصعب الامر بسبب علی الناس علی مامرتقریرہ فی سورۃ الانعام انتہی مافی التفسیر الکبیر مختصرا۔

دور سورہ فصلت می نویسد(قل انما انا بشر مثلکم یوحی الی) وبیان ہذا الجواب کانہ یقول انی الا اقدر علی ان احملکم علی الایمان جبرام وقہراً فانی بشر مثلکم ولا امتیاز بینی وبینکم الا بمجرد ان اللہ اوحی الی وما اوحی الیکم فانا ابلغ ہذا الوحی الیکم انتہی ما فی التفسیر الکبیر و در بیضاوی زیر آیت مذکورہ نوشتہ(قل انما انا بشر مثلکم یوحی الی انما الٰہکم الہ واہد) لست ملکا ولا جنیالایمکنہم التلقی منہ انتہی ما فی البیضاوی وغیرہ من التفاسیر۔

عن عائشه ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کان فی نفرا ای مع جماعة من المہاجرین والانصار فجاء بعیر فسجد له ای لرسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فقال اصحابه یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تجسدلك البہائم والشجر فنخن احق ان نسجد لك فقال اعبدوا ربکم ای بتخصیص السجدة له فانه غایة العبودیة ونہایة العبادة واکراموا اکاکم ای عظموہ تعظیما یلیق له بالمحبة القلبیة والاکرام المشتمل علی الطاعة الظاهر الباطنة وفیه اشارة الی قوله تعالیٰ﴿و ما کان لبشر ان یوتیه اللہ الکتاب والحکم والنبوة ثم یقول للناس کونوا عبادا لی من دون اللہ ولکن کونوا ربا نیین﴾ وایماء الی ما﴿قلت لہم الا ماامرتنی به ان اعبدوا اللہ ربی وربکم﴾ واما سجدة البعیر فخرق للعادة واقع بتسخیراللہ تعالیٰ وامرہ فلامدخل له صلى اللہ علیه وسلم فی فعله والبعیر معذور واکرموا اخاکم ہو بشر مثلکم ومفرع من صلب ابیکم ادم اکرموہ اکرمه اللہ واختارہ واوحی الیه کقوله تعالیٰ﴿قلم انما انا بشر مثلکم یوحی الی﴾انتہی ما فی المرقاة شرح المشکوة للملاعلی القاری بقدر الحاجة۔‘‘

’’قوله﴿انما انا بشر مثلکم یوحی﴾ الخ البشر یطلق علی الجماعة والواحد یعنی انه منهم والمراد انه مشارك للبشر فی اصل الخلقة ولوزادعلیه بالمزا یاالتی اختص بہا فی ذاته وصفاته والحصرہنا مجازی لانه یختص بالعلم الباطن ویسمی قصر قلب کانه اتی به ردا علی من زعم ان من کان رسولا فانه یعلم کل غیب حتی لا یخفی علیه المظلوم انتہی مافی فتح الباری وانما یعلمه الانبیاء من الغیب ما اعلموا به بوجه من وجوہ الوحی انتہی ما فی العینی شرح البخاری مختصراً۔‘‘

اگر معترض غافل نہاد سورہ اعراف ابتد بردامعان نظر تلاوت کر دے این چنین خرافات وترہات بزبان نیادرد ے زیرا کہ خدائے تعالے بنا برہمین بشریت دہم جنسیت وبنی آدم بودن حضرت ہود وحضرت صالح وحضرت شعیب علیہم السلام رابرادران کفار مشرکین ارشاد فرمود باد صفے کہ کفارو مشرکین نجس اند کما قال اللہ تعالیٰ(انما المشرکون نجس۔۔۔الایۃ) (والی عاد اخاہم ہودا۔۔۔الایۃ)پس درین صورت اگر صاحب تقویۃ الایمان بردزعم فاسد بسیارے ازجہلا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم رابمرتبہ الوہیت رسانیدہ اندو بعضے مختار کل درکارخانہ خدائی میدانند، برادرکلان وبزرگ گفت چنانچہ تحقیقش بالا گذشتہ بووچہ گناہ وجرم شرعاً عائد شد، بیان کند بدلیل شرع از کتاب وسنت والا بمجرداعتراض صورت مدعا نمی بندد لان الدعوی لاتسمع الا بالبینۃ

آخر اے آہوئے مشکین کہ رمیدی ازما

چہ گناہ رفت وچہ کر دیم وچہ وبدی ازما

صاحب تقویۃ الایمان درہیچ مقامے نہ نو شتہ، کہ بزرگان دین ودیگر اہل تمکین درخصائل مذمومہ ہم چو چماراند حاشا وکلا کہ شخص ادنی این چنین نمی گوید چہ جا کہ مولوی صاحب مرحوم این چنین گویند دبر دعوئے من کلام مولوی صاحب ممدوح در تقویۃ الایمان جا بجا شاہد عدل است ۔

اولاً کلام متنازع فیہ است کہ ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا ‘‘ آہ برتفاوت درجات اشخاص مشعر است

ثالثاً در فائدہ آیت کریمہ﴿قل لا املك لنفسی نفعاً ولا ضراً﴾ می نگارند کہ ’’اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء واولیاء کو جو اللہ نے سب لوگوں سے بڑا بنایا ہے سو ان میں بڑائی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ بتاتے ہیں۔‘‘آہ

رابعاً درضمن حدیث اعرابی می فرمانید سبحان اللہ اشرف المخلوقات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تو اس کے دربار میں یہ حالت۔‘‘ آہ مشت نمونہ از خردار ے برائے افہام وتفہیم معترض نقل کردہ شددومولوی صاحب مرحوم خوددر تقویۃ الایمان بہ نسبت بے ادبی کنند گان شرعی می فرمانید کہ کسے این بیت گفتہ

’’غافل مزاج معترض کو سورہ الاعراف کی تلاوت بڑے غور سے کرنی چاہے یکہ خداوند تعالیٰ نے انبیاء کو مشرکین کا بھائی قرار دیا ہے حالانکہ قرآن کی نص کی رو س یمشرک ناپاک ہیں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو بھیجا۔‘‘ الایۃ اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا۔‘‘ الایۃ

پس اس صورت میں اگر مولانا شہید نے بہت سے جہلاء کے فاسد عقیدہ کی تردید میں جو کہ آپ کو خداوندی مقام پر پہنچا دیتے ہیں اور مختار کل جانتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑا بھائی لکھ دیا ہے تو شرعی لحاظ سے اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے اعتراض تو تب ہو سکتا کہ وہ یہ لکھتے کہ انبیاء ودیگر اہل تمکین اور بزرگان دین اپنے خصائل مذمومہ میں چماروں کی طرح ہیں، کلا وحاشا کہ کوئی ادنیٰ آدمی بھی ایسا لکھے چہ جائے کہ مولانا صاحب مرحوم ایسا لکھتے ، چنانچہ میرے ا س دعوے پر تقویۃ الایمان ہی کی بہت سی عبارتیں گواہ ہیں‘ بطور مشتے نمونہ از ضرور تین چار عبارتیں ملاحظہ فرمائیں۔

اولاً اسی مقام پر غور فرمائیں کہ یہاں بڑا ہو یا چھوٹا درجات کے تفاوت کی اطلاع دے رہا ہے۔

ثانیاً( قل لا املک لکم ضرا ولا رشداً) کے تحت لکھتے ہیں کہ سب بڑوں کے بڑے پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ وسلم رات دن اللہ سے ڈرتے تھے۔

ثالثاً: آیت لا املک لنفسي نفعاً ولا ضراً‘‘ کے تحت لکھتے ہیں کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء اور اولیاء کو اللہ نے سب لوگوں سے بڑا بنایا ہے سو ان میں بڑائی یہی ہے کہ وہ اللہ کی راہ بتاتے ہیں۔۔۔۔الخ‘‘

دل از مہر محمد ریش دار رم

رقابت باخدائے خویش دارم

وکسے این چنین می نویسد

باخدا دیوانہ باش و بامحمد ہوشیا

د کسے این چنین می گوید کہ حقیقت محمدی الوہیت سے افضل ہے اللہ تعالیٰ ایسی باتوں سے پناہ میں رکھے کسی نے کیا خوب کہا ہے۔

از خدا خواہیم توفیق ادب

بے ادب محروم گشت از فضل رب

انتہی ما فی تقویۃ الایمان مختصراً

طرفہ تماشا است ،کہ صاحب تقویۃ الایمان سوء ادبی کنندگان شریعت رابے ادب می نویسند، داین غافلان مولوی صاحب رابے ادب می گویند، حالانکہ مولوی صاحب مرحوم رسالہ دو ورقہ بزبان عربی درجواب ازالہ وسوسہ وشبہات سید عبداللہ بغدادی، ودیگر موسوسین غافلین نوشتہ بودند، کہ دراں ہمہ اعتراضات والیہہ معترضین ومنکرین رابوجہ احسن دفع درفع کردہ اند، مگر غبادت وکج فہمی راعلاجے نیست چہ ہرگاہ پیشینان ازراہ عداوت وغبادت درحق حضرت قرآن مجید(ماذا اراد اللہ بہذا مثلاً )گفتند وجواب ازرب الارباب چنین یافتند(یضل بہ کثیرا ویہدی بہ کثیرا وما یضل بہ الا الفاسقین۔۔۔الایۃ)

پس چہ مجال مولوی صاحب کہ برگشتگان را براہ راست آرندوایشان رابر جادہ سعادت بے کم وکاست گزار ندجندا ماقال

کسانے کہ ذین راہ برگشتہ اند

برفتند بسیار سرگشتہ اند

قول معترض حالانکہ جمیع انبیاء خواہش آہ بران نیست، ہم سلطان از حدیث وقرآن ومن ادعی فعلیہ البیان بالباہان، پس ازین بخدمت علماء ماہراں متحلین بعدل وانصاف وماہران متخلین از جو رواعتساف بمتقضائے منطوق لازم الوثوق(اعدلواہو اقرب للتقویٰ)گذارش می کند، کہ درین اوراق صدق وفاق بغور تامل ونظر بازند وبد اب آداب علم وفضل خود شور وشغب وغیظ وغضب نہ سازند کہ موجب صلاح وفلاح گردد

حافظا علم وادب در زکہ درحضرت شاہ

ہر کر انیست ادب لالق خدمت نبود

ما علینا الا البلاغ ۔ وہو ہذا

’’عجیب معاملہ ہے کہ مولانا شاہ اسماعیل صاحب تو شریعت کی بے ادبی کرنے والوں کو بے ادبی کرنے والوں کو بے ادب فرماتا ہیں اور یہ لوگ مولانا ممدوح ہی کو بے ادب کہنے لگے، اب مولانا ممدوح کے اس دو ورقہ رسالہ کا مضمون نقل کیا جاتا ہے جو انہون نے سید عبداللہ بغدادی اور دوسرے معترضین کے جواب میں لکھا تھا۔ علماءئے کرام سے درخواست ہے کہ وہ اس مضمون کو تعصب چھوڑ کر بغور ملاحظہ فرمائیں پھر ان اعتراضات کی قلعی خود بخود ان پر کھل جائے گی، اگر انصاف سے کام نہ لیا جائے تو بہت سے منکرین نے تو قرآن پر بھی اعتراض کر دئیے تھے ان کو جواب یہی ملا تھا کہ یضل بہ کثیراویہدی بہ کثیر اوما یضل بہ الا لفارقین۔‘‘

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 229-250

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ