سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(79) کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین ان مسائل میں

  • 3861
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1410

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین ان مسائل میں:

(اول) یا شیخ عبد القادر جیلانی شیئاً للہ کا حاضر ناظر جان کر ورد کرنا جائز ہے یا نہ اور اس ورد کا پڑھنے والا کیسا ہے؟

(دوم) بغداد کی طرف منہ کر کے اور بعضے گلے میں کپڑا بھی ڈال کر دست بستہ ہو کر گیارہ قدم چلتے ہیں، اور پیر پرستی استمداد و استعانت کرتے ہیں، یہ لوگ کیسے ہیں؟

(سوم) گیارہویں واسطے از دیاد مال اور استعانت اور استغاثہ کے مصائب میں کرتے ہیں جائز ہے یا نہ، اور اگر یہ اعتقاد محض ایصال ثواب کے لیے کیا جائے تو تعیین یوم کیسا ہے؟

(چہارم) جو شخص ان افعال مذکورہ کا مجوز دمفتی اور مروج اور مثبت اور مصر ہو وہ کیسا ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنی درست ہے یا نہ،ا ور اہل سنت والجماعت اور مذاہب اربعہ سے کسی مذہب میں داخل ہے یا نہ؟

(پنجم) جو لوگ افعال مذکورہ کے مرتکب اور مقتد ہوں، ان کے ساتھ مخالطت اور مجانست اور مواکلت اور مشاربت اور مناکحت درست ہے یا نہ، ان کے ساتھ السلام علیکم کرنا جائز ہے یا نہ؟

(ششم) جو شخص ان افعال مذکورہ سے مانع ہو، اس پر فتویٰ تکفیر اور اتہام وہابیت و انکار ولایت اولیاء اللہ کا لگانا کیسا ہے، اور اس مانع کے پیچھے نماز پڑہنی درست ہے یا نہ؟ ((بینوا بالایات القراٰنیة والاحادیث النبویة والروایات الفقھیة توجروا))


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

﴿اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ﴾ قید و سوالات سائل سے صاف ظاہر ہے کہ جس کا یہ عقیدہ ہے، وہ مشرک ہے کیونکہ غیر اللہ کو حاضر ناظر جاننا اور اس کے نام کا مثل اسماء الٰہی درود وظیفہ کرنا اور اس سے حاجات طلب کرنا، اور گیارہ قدم بسولے بغداد بہ نیت جانب قبر غوت الاعظم مثل داب نماز و سنت بستہ ہو کر چلنا اور پھر رجعت قہقری اس آداب سے کرنا کہ جس کو اصطلاح مشرکین مبتدعین میں، نماز غوثیہ اور ضرب الاقدام، کہتے ہیں، اور استمداد اور استعانت غیر اللہ سے کرنا، اور ایسے افعال شرکیہ بدعیہ کا مرتکب ہونا طریقہ مشرکین کا ہے کیونکہ عقیدہ ثبوت علم غیب کا سوائے ذات باری «عَزَّ اِسْمُه عَلَّامُ الْغُیُوْبِ» کے کسی نبی یا ولی یا غوٹ یا قطب یا پیر یا مرشد کے ساتھ رکھنا عین شرک ہے، بدلیل آیات بینات قرآن مجید و احادیث رسول کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم اور روایات فقیہہ کے۔ اَمَّا الْاٰیٰتِ۔ (آیات قرآنیہ تو یہ ہیں)

﴿قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ ‎﴿٦٥﴾‏ النمل

’’آپ کہہ دیں کہ آسمان اور زمین میں کوئی بھی اللہ تعالیٰ کے سوا غیبت کی باتیں نہیں جانتا اور کسی کو بھی معلوم نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔‘‘

﴿وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ ‎﴿٥﴾‏ الأحقاف

’’اس آدمی سے زیادہ گمراہ کون شخص ہے، جو اللہ تعالیٰ کے سوا اوروں کو پکارے جو اس کی التجاؤں کو قیامت تک بھی قبول نہیں کر سکتے، بلکہ وہ تو ان کے پکارنے ہی سے بے خبر ہیں۔‘‘

﴿وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَ ‎﴿١٠٦﴾‏ يونس

’’تو اللہ کے سوا ایسی چیزوں کو نہ پکارو جو نہ نفع دے سکیں اور نہ نقصان پہنچا سکیں، اگر تو نے ایسا کیا تو ظالموں میں سے ہو جائے گا۔‘‘

((واما الاحادیتث۔ ففی حدیث الجادیات قالت احد لھن وفینا نبی یعلم ما فی غد فقال دعی ھذہ وقولی الذی کنت تقولین۔ وَعَنْ عَاءِشَة رضی اللہ عنہا قَالَتْ من اخبرك ان محمداً ﷺ یعلم الخبس التی قال اللّٰہ تعالیٰ اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَة الاٰیة ۔ فَقَدْ اَعْظَمَ الغریمة رواہ مسلم۔ قال النبیﷺ وَاللّٰہِ لَا اَوْرِیْ وَاللّٰہِ لَا اَدْرِیْ وَاَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَلَا بِکُمْ رواہ البخاری کذا فی المشکوٰة))

’’اب رہیں احادیث: تو لڑکیوں والی حدیث میں یہ بھی ہے کہ ایک لڑکی نے ان میں سے کہا، ہم میں ایسے نبی ہیں جو کل ہونے والی باتیں جانتے ہیں، تو آپ نے فرمایا، اس بات کو چھوڑ دے، اور جو پہلے کہتی تھی وہی کہتی جا، اور حضرت عائشہ سے روایت ہے ۔ آپ فرماتی ہیں کہ جو آدمی تجھے یہ خبر دے کہ محمدﷺ ان پانچ چیزوں کو جانتے تھے، جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا، کہ اللہ ہی کے پاس ہے قیامت کا علم الآیۃ۔ تو اس نے بہت بڑا جھوٹ بولا۔ اس کو مسلم نے روایت کیا۔ نبیﷺ نے فرمایا: خدا کی قسم، میں نہیں جانتا، خدا کی قسم! میں نہیں جانتا۔ حالانکہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں کہ میرے متعلق کیا کہا جائے گا اور تمہارے متعلق کیا فیصلہ ہو گا، اس کو بخاری نے روایت کیا، مشکوٰۃ میں بھی اسی طرح ہے۔‘‘

اور بخاری و مسلم میں حدیث الافک مصرح ہے، کہ جب منافقین نے بہتان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر باندھا، ایک مدت تک رسول اللہﷺ کو کس قدر اہتمام تحقیق برات صدیقہ رضی اللہ عنہا میں رہا اور قلب مبارک سے شک ذنب کا ان سے قبل اس نزول آیات برأت کے بارگاہ قدوس سے رفع نہ ہوا، جب آیات برأت نازل ہوئیں، تب یقین ہوا اگر علم غیب آپ کو ہوتا تو اس قدر رنج و غم اور اہتمام شان حادثہ کیوں ہوتا۔ قصہ حدیث کا اس بات کا واسطے نذیر عریان ہے، اور حدیثیں بھی بہت ہیں۔

((واما الروایات الفقھیۃ۔ قال الملاء علی قاری فی شرح فقہ الاکبر ثم اعلم اَنَّ الْاَنْبِیَاءِ لَا یَعْلَمُوْنَ الْمُغِیْبَاتِ لمعارضة قوله تَعَالٰی قُلْ لَا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبِ اِلَّا اللّٰہَ۔ وقال فی البزازیة وغیرھا من الکتب الفتاوی من قال رواح المشائخ حَاضرہ تعلم یکفر وقال الشیخ فخر الدین بن سلیمان الحنفی فی رسالت ومن ظن ان المیت بتصریف فی الامور دون اللّٰہ واعتقد به ذلك کفر کذا فی البحر الرائق فعلم ان علم اللّٰہ سبحانه وتعالیٰ ازنی وابدی ومحیط بما کان وما یکون من جمیع الاشییاء بقضہا وقضیضھأ وقلھا وجلھا ونقیرھا وقطمیرھا و صغیر ھا وکبیرھا ولا یخرج من علمه وقدرته شئی لان اہلجہل بالبعض والعجز عن البعض نقص واقتضاء ھذہ النصوص القطعیة ناقتة العموم وشمول قدرته فھو بکل شئی علیم وھو علی کل شئی قدیر۔))

’’اب رہیں، فقہی روایات تو ملا علی قاری نے، فقہ اکبر کی شرح میں کہا ہے۔ ’’ پھر جان لینا چاہیے کہ انبیا علیہم السلام غیب کی باتیں نہیں جانتے، کیونکہ یہ عقیدہ اللہ تعالیٰ کی اس آیت کریمہ کے خلاف ہے، کہ آپ کہہ دیں کہ کوئی بھی آسمان اور زمین میں اللہ تعالیٰ کے سوا غیب نہیں جانتا، اور بزازیہ وغیرہ کتاب فتاویٰ میں کہا ہے کہ جو آدمی یہ کہے کہ بزرگوں کی روحین حاضر ہیں اورسب کچھ جانتی ہیں۔ اس پر کفر کا فتویٰ دیا جائے گا۔ اور شخ فخرین بن سلیمان حنفی نے اپنے رسالہ میں کہا ہے کہ جو آدمی یہ عقیدہ رکھے کہ مردہ الہ تعالیٰ کے سوا لوگوں کے امور میں تصرف کر سکتا ہے تو وہ کافر ہو جائے گا۔ بحر الرائق میں بھی اسی طرح ہے، تو اب معلوم ہوا کہ اللہ سبحانہ کاعلم ازلی ابدی ہے، اور ما کان ومایکون (جو ہو چکا ہے اور جو ہو گا) سب اشیاء کو محیط ہے، خواہ وہ چھوٹی ہوں یا بڑی، تھوڑی ہوں یا بہت اور اس کے علم اور قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے، کیونکہ بعض اشیاء سے بے خبری اور بعض اشیاء سے عاجز آ جانا نقص ہے اور ان نصوص قطعیہ کا بولتا ہوا تقاضا ہے کہ اس کا علم عام ہے، اور اس کی قدرت ہر چیز کو شامل ہے اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘

پس یہ علم اور قدرت خاصہ باری عالم الغیت قادر مطلق کا ہے اس میں شریک کرنا نبی کو یا ولی کو عین شرک ہے، اور جو امور غائبہ پر انبیاء علہیم السلام یا اولیائے کرام کو انکشاف ہوا ہے بسو محض بوحی و اعلام بالہام الٰہی ہوا۔

﴿قَالَ اللّٰہُ تعالیٰ وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِنْ عِلْمِهِ اِلَّا بِمَا شَاءَ﴾

’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور وہ اس کے علم میں سے کوئی چیز بھی معلوم نہیں کر سکتے مگر جو وہ چاہے۔‘‘

اور یہ علم جو علام حق سبحانہ و تعالیٰ مقربان خاص الخاص کو ہوتا ہے، ذات سید کائنات علیہ الصلوۃ کو بہ نسبت اور انبیاء عظام و اولیائے کرام کے اگرچہ بوجہ اکمل ہے لیکن علم علام الغیوب سے مماثل نہیں۔

﴿قال اللّٰہ تعالیی قُلْ لَا اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَاءِنَ اللّٰہِ وَلَا اَعْلَمُ الْغَیْبِ الاٰیة﴾

’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آپ کہہ دیں کہ میں نہیں کہتا ہے کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں الآیۃ۔ ‘‘

((وقال الامام فخر الدین الرازی رحمة اللّٰہ علیه فی تفسیرہ الکبیر تحت اٰیٰه قُلْ لَا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبِ اِلَّا اللّٰہ الاٰیة انه مَا بین انه المختص بعلم الغیب والاٰیة سلقت الاختصاصه تعالیٰ بعلم الغیب وان العباد لا علم لھم بشئی منه واما قوله وَمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ صفة لاھل السمٰوٰتِ والارض نفی ان یکون لھم علم الغیت انتہی مختصراً ))

’’امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر کبیر میں آیت قل لا یعلم من فی السموات والارض الغیب الا اللہ کے ماتحت فرمایا ہے، جب اللہ تعالیٰ نے یہ ظاہر کر دیا کہ وہی غلم غیب کے ساتھ مختص ہے اور آیت اللہ تعالیٰ کے علم غیب کی خصوصیت کے متعلق پہلے گذر چکی ہے، اور بندوں کو اس کی اشیاء میں سے کسی چیز کا علم نہیں ہے، اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول وما یشعرون ایان یبعثون، یہ تمام آسمان اور زمین والوں کی صفت ہے اور اس میں ان کے علم غیبت کی نفی بیان کی گئی ہے۔ انتہیٰ۔‘‘

دوم: یہ گیارہ قدم چلنا اصطلاح اہل شرک و بدعت میں اس کا نام ’’صلوۃ غوثیہ‘‘ ہے اور ضرب الاقدام بھی کہتے ہیں، یہ بھی شرک ہے، کیونکہ نماز خاص عبادت معبود حقیقی کی ہے، وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، غیر کی عبادت بدنی یا مالی، شرک ہے اور فاعل مشرک۔

سوم: گیارہویں جو معمولی بہ اور مہتمم بالشان اہل بدعت کی بہ نیت نذر غیر اللہ اور تقریب غیر اللہ کے ہے، یہ بھی شرک ہے، کیونکہ عبادت مالی بھی غیر معبود برحق کے لیے حرام اور شرک ہے، اور اگر نیت ایصال ثواب ہو، تو خالصتاً لوجہ اللہ دے کر بے تعیین یوم ایصال میت کریں، اور نام گیارہویں کا زامل کر دینا واجب ہے، کیونکہ یہ نام رکھا ہوا، اہل شرک و بدعت کا ہے، اگر کوئی خالص نیت سے گیارہویں نام رکھ کر ایصال کرے، تو بھی اہل توحید و سنت کے نزدیک محل تہمت ہے، او رمواجح تہمت سے بچنا ارشاد رسول اللہﷺ ہے۔

چہارم: جو شخص مجوز اور مفتی اور مروج ان امور کا ہے، العیاذ باللہ منہٗ، وہ راس المشرکین ہے، یعنی اپنے تابعین مشرکین کا رئیس ہے، اس کے پیچھے نماز درست نہیں، اور جب کہ دائرہ توحید و سنت سے وہ خارج ہوا، تو کسی مذہب میں مذہب اربعہ سے کب داخل رہا۔

پنجم: جن لوگوں کا یہ عقیدۂ بد اور ایسے افعال شرکیہ بدعیہ ہوں، ان سے معاملہ ترک کرنا چاہیے۔ جب تک تائب نہ ہوں۔

((قد جاء فی الحدیث من احب اللّٰہ والبغض اللّٰہ واعطی اللّٰہ ومنع اللّٰہ فقد استکمل الایمان))

’’حدیث میں آیا ہے، جو شخص اللہ کے لیے محبت رکھے اور اللہ کے لیے دشمنی رکھے اور اللہ کے لیے دے اور اللہ کے لیے بخل کرے تو اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا۔‘‘

ششم: جو شخص ان افعال شنعیہ سے مانع ہو، وہ موحد سنی محب اولیاء ہے ۔ قابل امامت ہے، اور اس کی امامت اولیٰ اور انسب ہے، اور اس کی تکفیر خود کفر کی تکفیر ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم وعلمہ اتم۔ حررہ الفقیر محمد حسین الدہلوی عفا اللہ عنہ۔ (فقیر محمد حسین)

((کیف یوکن عبد مساویا للّٰہ جل جلاله وعزاسمه لان اللّٰہ کبیر المتعال ذا العظمة والجلال موجد ومعطی للعباد وھم الاخذون منه والمحتاجون الیه فی الدنیا والاٰخرة۔ کتبه محمد ابراهیم الدھلوی))

(یقال لہ ابراہیم) قادر علی عفی عنہ

اولاً معلوم کرنا چاہیے کہ قرآن فرقان و کلام رحمن جو نازل اشرف المخلوقین پر ہوا، تو محض اسی عقیدہ کی درستی کے لیے نازل ہوا ہے، مشرکین کے عقاید بد تھے یعنی اللہ تعالیٰ و رسول کے نزدیک درنہ فی زہمہم الباطل اپنے آپ کو تابعین ابراہیم کہلاتے تھے، اور حج بیت اللہ اور طواف و صوم وغیرہ عبادات کرتے تھے، ولیکن عقائد ان کے بد تھے، کہ انبیاء و اولیاء کی تصویریں او رمورتیں بنا کر ان کی تعظیم و نذر نیاز کرتے تھے۔

((کما اخبر اللّٰہ سبحانه عنھم فی عدة مواضع ولیست لمخفیة غلی من له ادنی مس من القرآن والحدیث))

جس طرح کہ آج کل کے مسلمان تمام عبادات صوم و صلوۃ و حج وغیرہ بجا لاتے ہیں اور انبیاء و اولیاء کے حق میں ایسے عقائد رکھتے ہیں، جیسا کہ سائل نے بیان کیا، اور مجیب نے استعملہ اللہ لما یجب ویرضی جواب دیا، تو حقیقت میں یہ لوگ مشرک باللہ ہیں۔

((وان صلوا وصأموا وزعموا انھم مسلمون))

’’اگرچہ وہ نمازیں پڑھیں، اور روزے بھی رکھیں، اور اپنے آپ کو مسلمان بھی کہیں۔ ۱۲‘‘

جس طرح سے اللہ سبحانہ نے مشرکین مکہ کی عبادت قبول نہیں فرمائی، اور عقیدہ کی درستی کا ارشاد فرمایا، ویسے ہی جب تک آج کل کے مسلمان عقیدے ٹھیک موافق فرمان خدا اور رسول کے نہ کریں گے، کوئی عبادت قبول نہ ہو گی، واللہ اعلم حررہ العاجز محمد عبد الوہاب الفنجابی۔ (خادم شریعت رسول الادب ابو محمد عبد الوہاب)

ایسا اعتقاد رکھنے والا سرے سے اسلام میں داخل نہیں، چار مذہب کا کیا ذکر ہے۔ کریم الدین عظیم آبادی۔

ایسا عقیدہ صریح کفر اور شرک ہے، عبد الکریم بنگالی، الجواب صحیح۔ عبد الحمید عفی عنہ عظیم آبادی۔

واقعی جواب دونوں مجلیبوں کا صحیح ہے۔ رد شرک اور نداء غیر اللہ میں اور جھکنے کی طرف غیر اللہ کے شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے جھک کر سلام علیک کرنے کو یا جواب دینے کو حسبنا اللہ بس حفیظ اللہ۔ صحیح۔ محمد زین ساکن شہر بد ایون حنفی المذہب۔ جواب بہت صحیح ہے۔ولی محمد فیض آبادی

جوشخص ایسا عقیدہ رکھے یا رواج دے، باریب وہ مشرک ہے۔ مصطفی خان سوتری۔ (غلام حسین)۔ (غلام حسین، ضلع مونگیر)

ہذا الجواب صحیح۔ محمد دبیر الرحمن بنگالی۔ (ابو عبد الرحمن محمد وبیر الرحمن) (ابو محمد تائب علی)

اس طرح کا عقیدہ رکھنے والا، فتویٰ دینے والا چاروں مذہب میں کافر اور مشرک ہے، لا ریب ولا شک فیہ۔ ابو اسمٰعیل یوسف حسین خان پوری، پنجابی۔

جواب صحیح ہے۔ محمد عبد الحکیم عفی عنہ۔

چاروں امام علیہم الرحمۃ کے نزدیک بے شک ایسا عقیدہ شرک اور کفر ہے۔ محمد عبد الغفور امر تسری

(سید محمد عبد السلام غفرلہ) (سید محمد ابو الحسن) (محمد عبد الحمید) جلیسری

ایسا اعتقاد رکھنا سرا سر شرک اور کفر ہے، اس کے معتقد کو ہر گز اسلام میں کچھ حصہ ونصیب نہیں ہے۔ رحیم اللہ پنجابی۔

اس عقیدہ والا آدمی جیسا کہ سائل نے لکھا ہے بے شک کافر اور مشرک ہے، چاروں مذاہب سے خارجل ہونا تو برکنار ہے۔ (نور محمد)

جس شخص کا یہ عقیدہ ہو، وہ شخص بلاشبہ مشرک ہے، کما ثبت، رحمت اللہ دنیا پوری۔ المجیب مصیب ، نمقہ علی احمد بن مولوی سامروردی عفی عنہ الصمد۔

جس شخص کا یہ اعتقاد ہے، بلاشک سب اماموں اور صحابہ کے نزدیک کافر ہے، مسکین فضل الٰہی۔

الجواب صحیح والرائے بخیح ، محمد حمایت اللہ عفی عنہ جلیسری ۔ فتاویٰ نذیرہ جلد اول ص ۱۱۲۔ ۱۱۳

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 157-164

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ