سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(58) عذاب قبر ایک خیالی اور موہومی چیز معلوم ہوتی ہے..الخ

  • 3840
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 937

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عذاب قبر ایک خیالی اور موہومی چیز معلوم ہوتی ہے جس کا خارج میں کوئی وجود نہیں۔ کیونکہ جس میت کو ہم قبر میں رکھتے ہیں، تو وہ جوں کی توں قبر میں ملتی ہے اور اس کے جسم پر عذاب و ثواب کا کوئی اثر نہیں پاتے۔ اس پر کوئی عقلی دلیل قائم کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قبر کا معاملہ چونکہ برزخی ہے اللہ نے اس پر پردہ ڈالا ہے اس سے ہمیں اس کا مشاہدہ نہیں ہوتا۔ اگر مشاہدہ ہو تو ایمان بالغیب نہ رہے، ہمیں کسی شے کا مشاہدہ نہ ہ وتو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی حقیقت ہی نہ ہو۔

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم قبرستان سے گزرے، تو آپ کی خچر بدکنے لگی، فرمایا کہ:

((یہود تعذب فی قبورھا))

’’یعنی یہود اپنی قبروں میں عذاب دئیے جا رہے ہیں۔ ‘‘

نیز اس حدیث میں ہے کہ میں دعا کروں تو عذاب قبر تمہیں دکھا دیا جائے لیکن پھر تم اپنے مردوں کو دفن نہیں کرو گے اور وحشیوں کی طرح جنگلوں میں نکل جاؤ گے۔

رہی یہ بات کہ یہ کس طرح ہوتا ہے کہ ایک شے ہو اور ہمیں اس کا مشاہدہ نہ ہو یا ایک شے جوں کی توں نظر آئے اور درحقیقت کچھ اور ہو اس کو یوں سمجھئے، جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿یُخَیَّلُ اِلَیْهِ مِنْ سِحْرِھمْ اَنَّھَا تَسْعٰی﴾

’’کہ رسیاں سوٹیاں ان کے جادو سے (موسیٰ علیہ السلام کو ) ایسی معلوم ہوتی تھیں کہ دوڑتی ہیں۔‘‘

حالانکہ درحقیقت وہ رسیاں سوٹیاں سانپ نہیں بنی تھیں۔ مگر موسیٰ علیہ السلام اور باقی لوگوں کو دوڑتے ہوئے سانپ معلوم ہوتی تھیں، ٹھیک اس طرح مردہ اگرچہ ہمیں جوں کا توں معلوم ہوتا ہے، مگر حقیقت میں وہ جزا اور سزا میں ہے۔

اس کے علاوہ وحی کی حالت اسی کی نظیر ہے۔ رسول اللہﷺ کے پاس جبریل علیہ السلام آتے ہیں، اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہﷺ کے پاس ہی ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو سلام کہتے ہیں۔ مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو پتہ نہیں لگتا۔ رسول اللہﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو سلام پہنچاتے ہیں۔ تو حضرت عائشہ فرماتی ہیں:

((تریٰ ما لا نرہٰ او کما قال))

’’یعنی آپ وہ شے دیکھتے ہیں کہ ہم نہیں دیکھتے۔‘‘

اسی طرح جنگ بدر میں فرشتے اترے۔ ابلیس نے دیکھے اور کہا:

﴿مِّنكُمْ إِنِّي أَرَىٰ مَا لَا تَرَوْنَ﴾

’’یعنی میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے۔‘‘

اسی طرح جس کو آسیب ہوتا ہے۔ اس کو جن نظر آتے اور ڈراتے ہیں، مگر اس کے پاس والوں کو کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ یہ تو غیر خلقی باتیں ہیں صنعتی علوم میں دیکھئے، ٹیلی فون میں دو شخص باتیں کرتے ہیں، پاس والا خالی ہے اس قسم کے بیسیوں نظائر ہیں۔ آپ کی شان سے تو یہ سوال بعید تھا۔ خدا جانے آپ کو کیوں ضرورت ہوئی۔ ((زَادَکَ اللّٰہُ عِلْمًا))

(اخبار تنظیم اہل حدیث جلد نمبر ۲ شمارہ نمبر ۱۱)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 146

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ