سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(42) ان لوگوں کے بارے میں کیا حکم ہے جو اشتراکیت اور سوشلزم..الخ

  • 3824
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 2227

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک پاکستانی بھائی نے ایک سوال کا جواب طلب کیا ہے اس سوال کا خلاصہ یہ ہے:

(۱) آئین شریعت کی رو سے ان لوگوں کے بارے میں کیا حکم ہے جو اشتراکیت اور سوشلزم کے بہادیات (محض اقتصادی نظام) کو بطور نظام نافذ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور قانون اسلامی کو نظر انداز کرتے ہیں۔

(۲) ان لوگوں کے بارے میں شریعت مطہرۃ کیا فیصلہ دیتی ہے جو اس مطالبہ میں ان کی حمائت، اعانت کرتے ہیں۔ اور اگر دوسرے لوگ اسلامی قانون کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ لوگ ان پر طعن و تشنیع کرتے ہیں۔ اور افتراء بازی بھی کرتے ہیں۔

(۳) بتایا جائے کہ جو لوگ اشتراکیت اور سوشلزم کے حامی ہیں، کیا انہیں مسلمانوں کی مساجد میں امام و خطیب مقرر کیا جا سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 الحمد لِلّٰہِ وَالصَّلوٰة و عَلٰی رسول اللّٰہ وَعَلیٰ اٰله وصحابته اھتدٰی بھداہ یہ بات ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ مسلم ائمہ اور قائدین کا یہ فرض ہے کہ وہ زندگی کے تمام امور و معاملات میں شریعت اسلامیہ کو اپنا حکم اور راہنما تسلیم کریں اور جو نظام بھی اس کے مخالف ہوں ان کو رد کر دیں، اور ان کے خلاف برسرپیکار ہو جائیں۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر تمام علماء اسلام متفق ہیں اور ان میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں۔ کیونکہ اس فیصلہ کے بارے میں تمام اہل علم کے پاس بہت سے دلائل موجود ہیں جو قرآن و سنت پر مبنی ہیں۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔

(۱) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ‎﴿٦٥﴾‏ النساء

’’آپ کے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت کت صاحب ایمان نہیں ہوں گے جب تک یہ آپس کے جھگڑوں کے فیصلے آپ سے نہ کروا لیں اور ان فیصلوں پر اپنے دلوں میں کسی قسم کی تنگی یا ہچکچاہٹ نہ محسوس کریں اور ان فیصلوں کو بسر و چشم تسلیم کرا لیں۔‘‘

(۲) ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ‎﴿٥٩﴾‏ النساء

’’اے ایمان والو! تم اللہ احکم الحاکمین، ان کے بھیجے جانے والے رسول برحق اور جو لوگ صاحب امر ہوں ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرو۔ اور اگر تم میں کوئی تنازعہ پیدا ہو یا کوئی الجھن پیش آئے تو اللہ اور اس کے رسول برحق کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔ اور ان ہی سے فیصلہ طلب کرو۔ اگر تم واقعی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور یہی طرز عمل تمہارے لیے بہتر ہے اور اسی میں تمہاری کامیابی ہے۔‘‘

(۳) ﴿وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْهِ مِنْ شَیْءٍ فَحُکْمُه اِلَی اللّٰہِ﴾(پ۲۵۔ آیت ۱۰)

’’اور جن امور میں تم اہل حق سے اختلاف رکھتے ہو تو سن لو کہ اس کا فیصلہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔‘‘

(۴) ﴿أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ ‎﴿٥٠﴾ (پ ۶۔ آیت ۵۰)

’’تو کیا یہ لوگ پھر سے زمانہ جاہلیت چاہتے ہیں، بتاؤ تو ذرا کہ اللہ سے بڑھ کر اچھا اور بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہو گا، مگر اس قوم کے نزدیک جو اللہ پر یقین کام رکھتے ہیں۔‘‘

(۵) ﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ‎﴿٤٥﴾‏ (پ ۶، آیت ۴۵)

’’اور جو بدبخت اللہ احکم الحاکمین کے نازل فرمودہ احکامات کے مطابق حکم نہ کرے تو اس سے بڑھ کر ستم ڈھانے والا اور کون ہو گا۔‘‘

(۶) ﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ‎﴿٤٧﴾ (پ ۶، آیت ۴۷)

’’اور جو شخص خدا تعالیٰ کے احکامات جو اس نے نازل فرمائے ان کے مطابق حکم نہیں کرتا تو یہ یقیناًفاسقوں میں سے ہے۔‘‘

اس مفہوم کی حامل آیات قرآن حکیم میں کئی ہیں اور اس بنا پر علمائے حق اس بات پر متفق ہیں کہ جو شخص بھی لا دینی نظام کو دینی نظام سے بہتر خیال کرتا ہے اور رسول برحق کی سیرت و راہنما کی سے کسی اور شخصیت کی سیرت اور راہنمائی کو اچھا تصور کرتا ہے۔ تو (ان پر کافر) وہ کافر ہے اور گمراہ ہے اور علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ کسی بات میں یا کسی ایک مسئلہ میں شریعت محمدیہ کے علاوہ کسی اور قانون یا نظام کو تسلیم کرنا درست ہے تو وہ بھی ((فھو کافر ضال)) کافر ہے اور گمراہ ہے۔

ہماری پیش کردہ قرآنی آیات اور اہل علم کے اجتماع سے سائل اور دوسرے لوگوں پر یہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ جو لوگ اشتراکیت یا سوشلزم یا کسی دوسرے باطل نظام کی طرف بلاتے ہیں جو نظام قوانین اسلامیہ کا رد کرتا ہے اور اس کی ممانعت کرتا ہو تو ایسے لوگ کافر ہیں اور بدترین گمراہ ہیں اور یہ لوگ یہود نصاریٰ کے کفر سے بھی بڑھ کر کفر میں ہیں اس لیے کہ یہ ملحد ہیں اور خدا و ویوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور ہر گز جائز نہیں ہے کہ ان لوگوں کو مسلمانوں کی مساجد میں خطیب یا امام مقرر کیا جائے اور ان کی امامت و اقتداء میں نماز بھی جائز اور درست نہیں۔

اور وہ لوگ جو ان ملحدوں اور کافروں کی مدد تائید کرتے ہیں اور ان کے نظام باطل اور فکر غلط کو صحیح تسلیم کرتے ہیں اور اسلام کی طرف بلائے جانے والوں کی مذمت و اعانت کے مرتکب ہوتے ہیں تو وہ بھی ان ہی جیسے ملحد و کافر ہین۔ جن کے وہ ہمرکاب اور سوئید و مونس ہیں۔ علماء اسلام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جو بھی کافروں اور ملحدوں کی کسی قسم کو بھی تائید و نصرت کرتا ہے وہ بھی کافر ہے جیسے کہ خداوند قدوس نے اپنی کتاب مجید میں فرمایا ہے۔

(۱) ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ‎﴿٥١﴾ (پ۶ آیت ۵۱)

’’اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست مت بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو کوئی بھی اس میں سے کسی کو اپنا دوست بنائے گا تو وہ بھی ان ہی میں شمار ہو گا، یقیناًاللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا جو ظلم کرتے ہیں۔‘‘

(۲) ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ‎﴿٢٣﴾(آیت ۲۴ پ ۱۰)

’’اے ایمان والو! اپنے باپ اور بھائیوں کو اپنا رفیق مت بناؤ، اگر وہ ایمان کے بجائے کفر کو پسند کریں اور اگر تم سے کوئی ان کا رفیق اور مونس ہو گا تو وہ بھی ان ہی میں شمار کیا جائے گا اور ایسے لوگ یقیناًظالموں میں سے ہیں۔‘‘

میرے خیال میں جو دلائل میں نے پیش کر دئیے ہیں، وہ ایک طالب حق سائل کے لیے کافی واقعی ہیں۔

فاللّٰہ یقول الحق وھو یھدی السبیل ہم اللہ عزوجل کے حضور دعا گو ہیں کہ وہ مسلمانوں کی اصلاح فرمائے اور انہیں راہ ہدایت نصیت فرمائے اور انہیں حق و ہدایت پر جمع فرمائے، اسلام کے دشمنوں اور بدخواہوں کو نیست و نابود کر دے۔ انکی اجتماعیت اور وحدت کو پارہ پارہ کر دے اور امت مسلمہ کو ان کے شر سے محفوظ رکھے۔ وہ ہر بات پر قادر ہے۔ وصلی اللّیہ عَلَیہ وسَلم عَلیٰ عبدہ ورسولہٖ نبینا محمد واٰلِہٖ واَصْحَابِہ (دستخط و مہر دارالافتاء عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز نائب رئیس الجامعۃ الاسلامیہ مدینہ المنورہ)

اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا نظام نافذ کیا گیا تو یہ خدا اور رسول سے غداری ہو گی

دیار عرب کے مقتدر علماء کا فتویٰ بالکل صحیح اور درست ہے!

جامعۃ محمد الخامس کے شیخ الاستاذ تقی الدین بن عبد القادر الہلالی کا تائیدی بیان سوشلزم اور اشتراکیت کے خلاف فتویٰ کفر کی تائید میں مراکش کی معروف دینی اور سیاسی شخصیت شیخ الاستاذ تقوی الدین بن عبد القادر الہلالی جو جامعۃ محمد الخامس مراکش کے ممتاز پروفیسر ہیں اور کچھ عرصہ کے لیے الجامعۃ الاسلامیہ کی دعوت پر وہاں تشریف لائے ہوئے ہیں نے فرمایا کہ

الجمامعۃ الاسلامیہ کے نائب رئیس شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز نے اشتراکیت اور سوشلزم کے بارے میں جو فتویٰ دیا ہے اسے میں نے پڑھا ہے، میرے نزدیک مکمل سیر حاصل اور مقاصلہ مطلب کے لحاظ سے کافی و وافی ہے اس پر مزید کچھ لکھنے کی گنجائش ہی نہیں رہی۔ البتہ مجھ ایک اور بات کہنا ہے چونکہ میں بھی (متحدہ) ہندوستان کے مسلمانوں اور تقسیم کے بعد حالات سے واقف ہوں مجھے متذکرہ بالا مسئلہ پر قرآن و سنت سے دلائل پیش نہیں کرنے ہیں وہ تو اس فتویٰ میں اچھی طرح آ گئے ہیں۔

مجھے پاکستان کے بارے میں اور اصطلاح کی رو سے اس ملک کے قیام کے بارے میں مرحوم چوہدری رحمت علی کے اس بیان کی روشنی میں جو انہوں نے مجھ سے فرمایا تھا، کچھ کہنا ہے، لغوی طور پر پاکستان کے معنی ایسی پاج جگہ جہاں دستور الٰہی نافذ ہو اور اس جگہ کوئی دوسرا نجس اور باطل نظام نافذ نہ ہو سکے۔ اس بنا پر جو شخص اس خطۂ پاک پر غیر اسلامی نظام کی بنیاد رکھتا ہے تو گویا وہ مملکت پاکستان کو بنچ و بن سے اکھاڑ پھینکنا چاہتا ہے اور اسے ایک چٹیل میدان میں تبدیل کرنا چاہتا ہے، اور ایسا کرنا پاکستان کے قایم کے بنیادی اصطلاحی طور پر اس نام کی ترکیب میں ان علاقوں کی وضاحت پائی جاتی ہے اور جن کے مجموعہ کا نام پاکستان ہے اور ان علاقوں کے باشندے مسلمان ہیں علاقوں کی نشان دہی اس نام (پاکستان) میں یوں ہے:

پ:پنجاب، س: سندھ اور سرحد، ک:کشمیر، تا: بلوچستان، ق:بنگال

(استاد موصوف نے پاکستان کی اصطلاحی تشریح اسی طرح ہی کی ہے) ان علاقوں کو (جنہیں ہم صوبے کہتے ہیں) متحدہ ہند سے الگ کر کے ایک مستقل ریاست بنانے کا مقصد وحید یہی تھا کہ اسے اسلامی ریاست بنایا جائے گا، چنانچہ جو گروہ بھی یہاں دستور اسلامی کے علاوہ کسی اور نظام کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے وہ تمام اہل علم اور پاکستان کے مفکروں اور بانیوں سے غداری اور ان کے عزائم و مقاصد سے انخراف کرتا ہے اور یہ نہ صرف اہل پاکستان بلکہ اسلام سے غداری ہے لہٰذا جو لوگ اس ملک کو اشتراکیت کی آماجگاہ بنانا چاہتے ہیں خواہ جاہ اشتراکیت برطانیہ کی صاحب اقتدار پارٹی کہ ڈیمو کریٹک اشتراکیت ہو یا ہٹلر و مولینی کی وطنی اشتراکیت ہو یا اتحادی اوس کا سوشلزم ایسے لوگ خدا اور اس کے رسول برحق کی امانت میں خیانت کے بدترین مجرم اور مرتکب ہیں اور ان تمام اہل علم اور وطن عزیز کے ممتاز مفکروں اور مفسدین کی امانت کے خالق بھی جن کے بعد پاکستان ان کے ہاتھ آیا۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ( ڈاکٹر محمد تقی الدین بن عبد القادر کہلانی) (اخبار الاعتصام جلد نمبر۲۱ شمارہ نمبر ۴۹،۵۰)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 130-134

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ