سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(39) تعویذات میں لفظ بدوح لکھا ہوتا ہے اس لفظ کا کیا مطلب ہے؟

  • 3821
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 5688

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سوال (۱):۔۔۔ بعض تعویذات میں لفظ بدوح لکھا ہوتا ہے اس لفظ کا کیا مطلب ہے؟ تشریح کریں؟

(۲) اکثر تعویذات حروف تہجی سے لکھے ہوتے ہیں، یعنی ابجد، ہو ز وغیرہ کے نمبر لکھ کر نمبر کو جمع کر کے تعویذات بناتے ہیں، جیسا کہ (بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) کی جگہ پر ۷۸۶ لکھ دیتے ہیں، اسی طرح کسی سورت کی جگہ پر ان کے نمبر لکھ دیتے ہیں اس پر روشنی ڈالیے؟

(۳) ہمارے ہاں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنے آپ کو پیر، فقیر، کے نام سے بولا کرتے ہیں، اور لوگ ان کو تعظیم کی خاطر اپنا سر جھکا دیتے ہیں، کیا تعظیم کی خاطر کسی کے لیے جھکنا صحیح ہے، کیا یہ کام شرک میں داخل ہے یا نہیں؟

(۴) بعض تعویذات میں اللہ کے سوا دوسروں کو پکارا جاتا ہے، مثلاً یا علی رضی اللہ عنہ وغیرہ اور لوگ ان تعویذات کو خرید کر اپنے گلے میں ڈال دیتے ہیں، کیا ان کا گناہ تعویذات کے بیچنے والے پر ہے یا خریدنے والے عوام پر ہے، کیونکہ عوام تو ان پڑھ جاہل لوگ ہیں، بالکل کچھ نہیں جانتے، اس مسئلہ پر آیات اور احادیث کے حوالے تحریر فرما لیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جواب (۱):۔۔۔ لفظہ یا بدوح کا مطلب کوئی نہیں ہے اس میں حروف ابجد کے حروف جفت ہیں سے چار حروف جمع کیے گئے ہیں۔

ب (۲) د (۴) و (۶) ح (۸) یعنی یہ کلمہ ۲،۴،۶،۸ پر دلالت کرتا ہے اور بس یہ کسی کا نام نہیں ہے لہٰذا’’یا‘‘ کے ساتھ پکارنا جائز ہے،

(۲)آیات قرآنی کا ابجد ، ہوز کے نمبر پر لکھنے کا شرعی ثبوت نہیں ہے، دراصل کئی احتمال رکھتے ہیں مثلاً حرف ب جو ہے اس کا نمبر ۲ ہے یہ احتمال رکھتا ہے کہ ب فلظ خبیث کا و اور مبین کا ہو لہٰذا اس کی تعیین لکھنے والے کی نیت کے مطابق ہو سکتا ہے کہ اسی کی نیت کے مطابق تاثیر بھی ہو ۔ ہر حال میں اس کا شرعی ثبوت قطعاً نہیں ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ لکھنے والے کی کچھ بھی نیت نہ ہو۔

(۳) قرآن و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی امت میں ایک مدت تک اس کی گنجائز تھی مگر بعد میں تعظیماً جھکنا اور سجدہ کرنا حرام کر دیا گا ہے۔

(۴) اس طرح کے تعویذ لکھنا، باندھنا، وغیرہ حرام ہے لکھنے والا بھی مجرم ہو گا اور باندھنے والوں کو بھی یہی حکم ہے کہ وہ تحقیق کے بغیر باندھے گا تو وہ بھی مجرم ہو گا اور تحقیق کے بعد بالاولی ناجائز ہے۔ (مولانا ابو البرکات جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ اہل حدیث لاہور ، ۴ جون ۱۹۷۲)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 128

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ