سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(29) نیکی اور بدی کا خالق کون ہے؟

  • 3811
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 1640

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سوال (۱) نیکی اور بدی کا خالق کون ہے؟ قرآن مجید میں ہے: خدا کے حکم کے بغیر ایک ذرہ بھی نہیں ہلتا، تو بدی کرنے میں گرفت کیسی؟

(۲) خدا ہر جگہ حاضر ناضر ہے اور ﴿نَحْنُ اَتُوْبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْد﴾ بھی ہے تو وحی کہاں سے اترتی تھی؟

(۳) روح پاک چیز ہے یا پلید؟ اگر پاک ہے تو کافروں کو نجس کیوں کہا گیا۔ کیونکہ ان میں بھی روح ہے۔ اگر پلید ہے تو پاک کوئی بھی نہیں۔

(۴) ہر چیز کی خواہش کرنے والا نفس ہے۔ اور نفس ہی کو موت ہے، تو بہشت و دوزخ کس کے لیے ہے:﴿کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ﴾

(۵) رسول کریم صلی الله علیہ وسلم بندہ تھے یا خدا۔ قرآن میں ہے: ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن﴾ اور رسول کا نام محمدﷺ ہے، جو مفعول کا صیغہ یعنی حمد کیا گیا تو خدا ہے۔ معلوم ہوا کہ محمدﷺ خدا تھا۔؟

(۶) اللہ تعالیٰ جس چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کن کہتا ہے۔ کیا دنیا کو ہدایت کرنے کا ارادہ کیا تھا یا نہیں؟

(۷) ابلیس فرشتوں میں سے تھا یا کہ پہلے ہی الگ تھا؟

(۸) کیا خالق غالب ہے یا مخلوق؟

(۹) قرآن کریم میں ہے: ﴿یُسَبِّحُ لِلّٰہِ ما فِی السَّمٰوٰاتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ﴾ ’’ہر چیز زمین آسمان اللہ کی تسبیح کرتی ہے۔‘‘

تو کافر کون ہوا، کیونکہ وہ بھی زمین کی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿اَنْبَتَکُمْ مِنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا﴾


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن مجید میں ایسی کوئی آیت نہیں جس کا یہ معنیٰ ہو کہ خدا کے حکم کے بغیر ایک ذرہ بھی نہیں ہلتا۔ ہاں کفار سے قرآن مجید نے یہ حکایت کی ہے:

﴿لَوْ شَاءَ اللّٰہِ مَا اَشْرَکْنَا وَلَا اٰبَاءُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَیْءٍ﴾ (پ۸)

’’اگر خدا چاہتا تو ہم نہ شرک کرتے نہ کسی شے کو حرام کرتے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا:

﴿کَذٰلک کَذَّبَ الَّذِیْنَ من قَبْلِھِمُ حتّی ذَاقُوْا بَأَسَنَا قُلِ ھَلْ عِنْدَ کُمْ مِن عِلْم فَتُخْرِجُوْہُ لَناَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِن اَنْتُمْ اِلّا تَخْرُصُوْنَ﴾(پ۸)

’’پہلے لوگوں نے بھی اسی طرح تکذیب کی یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزا چکھا۔ اے محمد!(ﷺ) کہہ دے کیا تمہارے پاس اس بات پر کوئی دلیل ہے، اگر ہے تو اس کو ہمارے سامنے پیش کرو۔ تم محض گمان کی تابعداری کرتے ہو اور محض اٹکل کے پیچھے جاتے ہو۔‘‘

اس آیت میں خدا نے کتنے زور سے تردید کی ہے کہ جو تم کرتے ہو، خدا نہیں کرواتا بلکہ یہ محض تمہارا خیال اور محض تمہاری اٹکل ہے اس پر تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں۔ لیکن خالق ہونا اور شئے ہے اور کاسب (کمانے والا) ہونا اور شے ہے۔ خدا خلاق ہے بندہ کاسب (کمانے والا) ہے۔

ان دونوں میں کچھ فرق ہے۔ اس کو ہم تنظیم اہل حدیث کی جلد ۲ نمبر ۲۰ مورخہ ۲۶ شعبان ۱۳۵۲ھ مطابق ۱۵ دسمبر ۱۹۳۳ء میں واضح کر چکے ہیں۔ یہاں وہیں سے نقل کیے دیتے ہیں، ملاحظہ ہو۔

خلق نیست سے ہست کرنا اور عدم سے وجود میں لانا اور کسب بندہ کی طرف سے کسی امر کا قصد اور ارادہ ہونا اور اس کے قصد اور ارادہ کے مطابق خدا کی طرف سے اس کے اعضاء میں حرکت پیدا ہونا، کسب میں کچھ احتیاج کا شائبہ بھی ہے۔ یعنی اپنی کمی اور ضرورت پوری کرنے کے لیے قصد و ارادہ ہوتا ہے اس لیے بھی اس کی نسبت بندے کی طرف وہتی ہے خدا کی طرف نہٰں ہوتی۔

(۲) اللہ تعالیٰ علم و قدرت کے ساتھ ہر جگہ ہے۔ بذاتہ عرش پر ہے اور آیۂ کریمہ: ﴿نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ﴾ میں علم مراد ہے، یا فرشتے جیسے کہتے ہیں فلاں بادشاہ، فلاں بادشاہ سے لڑ رہا ہے۔ حالانکہ لڑنے والی فوج ہوتی ہے۔ آگے فرشتوں کو بھی ذکر ہے جو اعمال لکھتے ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہے:

﴿اِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیَانِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ﴾

’’یعنی ہم اس وقت شاہ رگ سے زیادہ قریب ہوتے ہیں جب دو لینے والے بیٹھے ہو لیتے ہیں۔‘‘

(۳) حدیث میں ہے:

((کل مولود یولد علی الفطرة فابواہ یہودانه او ینصرانه او یمجان))

’’ہر بچہ اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی بناتے ہیں یا نضرانی یا مجوسی‘‘

قرآن مجید میں بھی اس کا ارشاد موجود ہے:

﴿فِطْرَۃِ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاس عَلَیھا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلَقِ اللّٰہِ﴾

’’خدا کی فطرت (توحید) کو لازم پکڑو، جس پر لوگوں کو پیدا کیا اس کو نہ بدلو۔‘‘

اس آیت و حدیث سے معلوم ہوا کہ پیدائش کے وقت روح پاک ہوتی ہے، پھر شرک سے نجس ہو جاتی ہے۔

(۴) موت کے چکھنے سے مراد یہ ہے کہ بدن سے جان قبض کی جاتی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے:

﴿اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا﴾ (پ۲۴)

’’اللہ موت کے وقت جانوں کو قبض کرتا ہے۔‘‘

نیز جب بہشت دوزخ میں داخل ہونے کا وقت ہو گا۔ روحیں بدنوں میں لوٹائی جائیں گی، قرآن مجید میں ہے:

﴿وَاَذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ﴾ (پ ۳۰)

’’جب جانیں (بدنوں سے) ملائی جائیں۔‘‘

نیز خدا خالق ہے، وہ نیست سے ہست کر سکتا ہے تو پھر بہشت دوزخ کس کے لیے کہنے کا کیا مطلب!

(۵) محمد صلی الله علیہ وسلم کو جن کمالات کی بنا پر محمد کہا گیا ہے، وہ خدا کے دیے ہوئے ہیں۔ اس لیے محمد کی حمد عارضی ہے اور حقیقۃ حمد خدا کے لیے ہے۔ پس محمد خدا نہ ہوا کیونکہ اس کے لیے حقیقی حمد نہیں۔ قرآن مجید میں ہے:

﴿عَسیٰ اَنْ یَبْعَثَکَ رَبَّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا﴾ (۹/۵)

امید ہے خدا تجھے مقام محمود میں اٹھائے، اس آیت میں مقام کو محمود کہا ہے تو کیا وہ بھی خدا ہے۔

اگر اس کو منطقی سرایہ میں ادا کریں تو مخالف کا دعویٰ یوں ہو گا:

((مُحَمَّدٌ مَحْمُوْدٌ وَکُلُّ مَحْمُوْدٍ اللّٰہِ فَمُحَمِّدٌ اَللّٰہُ))

جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا وسط مکر نہیں۔ کیونکہ صغریٰ میں محمود سے مراد ہے جس کے لیے عارضی حمد ہو۔ اور کبریٰ میں مراد ہے جس کے لیے حقیقی حمد ہو اور اگر کبریٰ میں بھی عارضی حمد ہو تو پھر کبریٰ کاذب ہے۔

اس کے علاوہ یوں بھی کہہ سکتے ہیں: (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ) کا حاصل اللہ محمود ہے، اس صورت میں محمد محمود کو اس کے ساتھ ملا لیں تو شکل ثانی بنے گی۔ اور شکل ثانی میں اختلاف فی الکیف شرف ہے جو یہاں مفقود ہے پس منتج نہیں ہو گی وفیہ نَظْرٌ (؂۱)

(؂۱) فیه اشارہ الی ان معنی الحمد للّٰہ رب العالمین ان کل عمد اللّٰہ ومختص به فحصل انکل محمود اللّٰہ فتامل۔ ۱۲

اس کا ارادہ اللہ کرتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

﴿یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنُ لَکُمْ وَیَھْدِ یَکُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ﴾ (پ۵)

’’خدا ارادہ کرتا ہے کہ تمہارے لیے بیان کرے، اور تمہیں پہلے لوگوں کے طریقوں کی ہدایت کرے۔‘‘

اس آیت سے معلوم ہوا کہ خدا بندوں کی ہدایت کا ارادہ کرتا ہے اور وہ ہو بھی جاتی ہے۔ یعنی بندہ کو حق ناحق کا بتلانے سے پتہ لگ جاتا ہے۔ آگے خواہ قبول کرے یا نہ۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے:

﴿اَنَّا ھَدَیْنَاہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَاِمَّا کَفُوْرًا﴾(۲۹/۲۸)

ہم نے انسان کو ہدایت کی، آگے وہ شکر کرنے والا ہے یا کفر کرنے والا ہے، یہ ایک طرح کی ہدایت ہوئی۔

دوم: الدلالۃ الموصلۃ: یعنی حق کو پہنچا دینا اور بندہ کے اختیار کے بغیر دل میں اس کو جگہ دینا‘‘ اس کا اللہ ارادہ نہیں کرتا۔ کیونکہ پھر بندہ فعل مختار نہیں رہتا۔ قرآن مجید میں ہے:

﴿فَلَوْ شَاءَ لَھَدَاکُمْ اَجْمَعَیْنَ﴾ (۸/۵)

’’خدا چاہتا تو تمہیں سب کو ہدایت کر دیتا۔‘‘

یعنی تمہارے اختیار کے بغیر محض قدرت کے تصرف سے تمہیں ہدایت والے بنانا چاہتا، جیسے فرشتوں کو ایسے ہی کیا ہے، تو تم سب ہدایت والے ہو جاتے۔ لیکن وہ اس طرح نہیں کرتا بلکہ تمہیں اپنے اختیار میں پر چھوڑا ہے تاکہ اپنے اختیار سے نیکی بدی کر کے بدلے کے مستحق بنو۔ اگر جبراً ہدایت کر دیتا تو بندہ کے اختیار کو دخل نہ ہوتا تو پھر اس میں بندہ کا کیا کمال تھا اور وہ انعام کا مستحق کس طرح ہو سکتا۔ پس ضروری بات ہے کہ اللہ اس طرح کا ارادہ نہ کرے۔

(۷) قرآن مجید میں ہے: (کَانَ مِنَ الْجِنِّ) ’’یعنی ابلیس جنوں میں سے تھا۔‘‘: (۵/۱۸) اس میں دو قول ہیں۔ بعض کہتے ہیں۔ فرشتوں کی ایک جماعت ہے، ان کو جن کہتے ہیں، ابلیس ان سے تھا۔ بعض کہتے ہیں زمینی جنوں سے تھا۔ پہلے قول کی بنا پر فرشتوں سے تھا۔ دوسرے قول کی بنا پر کثرت عبادت کی وجہ سے فرشتوں سے ملا دیا۔

(۸) خالق غالب ہے، اگر وہ محض اپنی قدرت کا تصرف کرے تو نہ ابلیس کچھ کر سکتا ہے نہ کوئی اور، ہاں اگر وہ فعل مختار بنا دے تو پھر دوسرے کے اختیار کا بھی دخل ہو جاتا ہے خواہ نیکی کرے یا بدی، جیسے اوپر نمبر ۶ میں بیان ہو چکا ہے۔

(۹) تسبیح دو طرح ہے ایک زبان قال سے ، ایک حال سے، ثانی الذکر تو سب کرتے ہیں، اول الذکر بعض کرتے ہیں، بعض نہیں کرتے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے:

﴿اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَسْجُدُلَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ النُّجُوْمُ وَ الْجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَالدَّ وَآبُّ وَ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ وَ کَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْہِ الْعَذَابُ ﴾

’’آسمان و زمین والے سورج، چاند، ستارے، درخت اور بہت لوگ یہ سب اللہ کو سجدہ کرتے ہیں، اور بہت لوگ پر (سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے) عذاب الٰہی ثابت ہو گیا ہے۔‘‘(عبید اللہ امر تسری روپڑی رحمۃ اللہ علیہ)(تنظیم اہل حدیث لاہور جلد نمبر ۱۷ شمارہ نمبر ۱۰)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 116-120

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ