سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(17) میلاد النبی کے سلسلے میں ایک علمی اور تحقیقی بحث

  • 3799
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1835

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 آج کل جا بجا ذکر ولادت نبوی، کے سلسلے میں مجالس منعقد ہو رہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہی ں کہ ذکر حبیب کم نہیں وصل حبیب سے لیکن جس طریقہ سے یہ مجلس منعقد ہوتی ہیں اور جو حالات و واقعات ان میں بیان کئے جاتے ہیں معلوم نہیں جناب اس کے متعلق کیا فرمائیں گے لیکن ہم انگریزی خوانوں کی جماعت اس قسم کی داستانوں کو کسی طرح نہیں قبول کرسکتی اور نہ کوئی صاحب عقل سلیم ان کو صحیح تسلی کرسکتا ہے آپ ہمیشہ ہ انگریزی خوانوں کو الحاد و تفریح اور مذہبی غفلت کا الزام دیا کرتے ہیں اگرچہ جس موثر انداز اور صلحانہ طریق پر آپ سمجھا یا کرتے ہیں اس سے ہم کو ذرا بھر ملال نہیں ہوتا بلکہ آپ کے ارشادات کو اپنے لئے موجب سعادت سمجھا کرتے ہیں لیکن خدا کے لئے اس بارے میں تو ہماری تشفی فرمایئے کہ آیا یہ واقعات صحیح ہیں اور مستند کتابوں میں ان کا ثبوت ملتا ہے اور ان میں شک کرنا نیچریت اور لامذہبیت تو نہیں مثلا یہ کہ(۱) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے دن آتش کدہ ایران ٹھنڈا ہوگیا قصر نوشیرواں کے کنگرے گر گئے خانہ کعبہ کے بت اوندھے ہوگئے(۲)جب حضرت کی ولادت کا وقت قریب آیا تو ایک مرغ سفید نمودار ہوا اور حضرت آمنہ کے پاس آیا نیز اس شب کو تمام جانوروں اور پرندوں نے گفتگو کی (۳) حضرت مریم اور حضرت آسیہ کا ولادت سے پہلے حضرت آمنہ کے پاس آنا اور بشارت دینا (۴) ولادت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر کے لیے غائب ہوگئے اور پھر کسی نے بہشتی کپڑوں میں لاکر رکھ دیا (۵) آپ کی ولادت کے دن سورج کی روشنی بہت تیز ہوگی اور کئی قسم کی روشنیاں فضائے آسمان میں نمودار ہوگئیں اور مختلف آوازیں سنائی دیں اور اس پر بھی اگر آپ روشنی ڈالیں کہ ان مجالس کی تاریخی حتیت کیا ہے اور علماء سلف کی اس کے متعلق کیا رائے ہے تو بڑی عنایت ہوگی۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کا جوش ایمانی اور جذبہ تلاش حقیقت اور فکر اصلاح میرے نزدیک نہایت قابل قدر ہے آپ اس کو نیچریت اور امذہبیت سے تعبیر کریں یا اسلام کی سادہ اور صحیح تعلی کی تلاش جنجو کی مبارک سعی سے تعمیر کریں میرے نزدیک بلا شبہ آپ کی یہ مساعی ستحق تحسین اور لائق تشکرہیں اس میں شک نہیں کہ آپ نے ایک نہایت اہم اور ضروری بحث چھیڑدی ہے ان تمام ضعاف اور موضوع روایات کی تحقیق و تدقیق اور علماء سلف کے اقوال کے لئے تو ایک بسبط کتاب کی ضرورت ہے اور اس کی گنجائش جہاں کم ہے لیکن تاہم کوشش کروں گا ضروری معلومات پیش کروں گا۔ (وھوالی التوفیق)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی آپ کے اخلاق حسنہ کا ذکر اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینا یقیناًایسا فعل ہے کہ اس سے بڑھ کر مسلمانوں کے لیے سعادت دارین کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہوسکتا لیکن افسوس ہماری قومی بدبختی یہی نہیں ہے کہ دینی اشغال بظاہر قائم نہیں رہے اور مذہبی اعمال کا خاتمہ ہوگیا ہے بلکہ ہمارے تنزل اور ادبار کے معنی ہیں کہ حقیقت غائب ہوگئی ہے اور روح اسلام مفقود ہوگئی ہے مجھے یہ شکوہ نہیں کہ مسجدیں اجرگئی ہیں کیونکہ کتنے جھاڑو اور فانوس ہیں جن سے مسجدیں بقعہ نور بنائی جاتی ہیں لیکن رونا یہ ہے کہ نماز کی حقیقت اور عبادت کی روح مفقود ہوگئی ہے افسوس حقیقت تو مفقود ہے اور محض رسمی تفریب کے مناظر ہر جگہ آپ کو نظر آئیں گے امراء نے اس کو اپنی نمائش اور ریاء دولت کا ایک ذریعہ بنالیا ہے اور مسجد کے اماموں و اعظوں اور قصہ خوانوں نے اپنی معاش کا ایک وسیلہ بنالیا ہے۔ اور عوام اپنی بے بضاعتی اور جہالت کی وجہ سے ان کے دام میں مبتلا ہوگئے (انا للہ وانا الیه راجعون)

ضعیف روایات اور اصول نقد و حرج

جن روایات یا حکایات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آپ نے استسفار کیا ہے اس کے متعلق تو بعد میں عرض کروں گا۔ لیکن ان روایات کے قبول و عدم قبول کے متعلق جن خیالات کا آپ نے ضمناً اظہار کیا ہے اس کو پہلے لیتا ہوں اور افسوس کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ مجھے اس سے قطعاً اتفاق نہیں میں اس کو ایک خطرناک اصولی غلطی سمجھتا ہوں جس میں آج کل کے مدعیان تحقیق اور رہروان جادہ تطبیق عقل و نقل میں مبتلاء ہیں آپ فرماتے ہیں کہ ہم انگریزی خوانوں کی جماعت اس کو کسی طرح نہیں قبول کرسکتی اور نہ کوئی صاحب عقل سلیم ان روایات کو قبول کرسکتا ہے مجھے اجازت دیجیئے کہ جو اباگزارش کروں کہ روایات تو یقیناًصحیح نہیں ہیں لیکن یہ اصول بھی کب صحیح ہے کہ جو بات آپ کی عقل میں نہ آئے وہ لکیر غلط اور باطل ہے آپ کو بے شک یہ حق حاصل ہے اور آپ پوچھ سکتے ہیں کہ یہ روایات اصول نقد و جرح کے ماتحت کہاں تک صحیح اور قابل قبول ہیں اور میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ صرف اتنا پوچھ لینا ہی آپ کے حصول مقصد کے لیے کافی ہے لیکن یہ کہاں کا اصول تحقیق اور معیار حق و باطل ہے کہ کسی واقعہ کی صحت کے لیے پہلی شرط آپ کی عقل کی تصدیق ہے میں اس لیے آپ سے مگر عرض کررہا ہوں کہ آج کل بے تکلف اسی قسم کے جملے مدعیان تطبین عقل و نقل کہہ دیا کرتے ہیں مگر وہ یہ نہیں سمجھتے کہ کس قدر خطرناک راستہ کی طرف وہ اقدام کرتے ہیں آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہی وہ سرحد ہے جہاں سے جاعت اہل حدیث کو آج کل کے مصلحین اور مدعیان تطبیق عقل و نقل سے الگ ہو جانا پڑتا ہے ان لوگوں کا تو یہ حال ہے کہ جس حدیث اور روایت کو اپنے خود ساختہ معیار عقلی سے ذرا بھی الگ پاتے ہیں معاً اس سے انکار کردینے کے لیے بے چین ہو جاتے ہیں اور پھر اس انکارمحض کو تطبیق معقول و منقول کے مرعوب کن الفاظ سے تعمیر کرتے ہیں (فیا اسفا علی ما فطنا فی جنب اللہ)

قصص واحکایات کتب میلاد

آپ نے روایات کے متعلق استسفار کیا ہے ان میں سے ایک بھی واقعہ ایسا نہیں جو اصل حدیث یا فن روایت کی بنا پر صحیح تسلیم کیا جاسکے یا جس کو کتب معتبرہ محدثین میں روایت کیاگیا ہو صحاح ستہ ان قعص و حکایات سے بالکل خالی ہے عام مسانید اور مصنفات مشہورہ میں بھی کوئی قابل استد لال روایت نہیں حافظ سیوطی نے جمع الجوامع میں جمع آحادیث کا پورا پورا التزام کیا ہے لیکن ان روایات میں اس کا کہیں پتہ نہیں چلتا کنز العمال میں آپ کی ولادت کے متعلق ایک مستقل باب موجود ہے مگر وہ نہایت مختصر ہے اور ان روایات کا کہیں ذکر نہیں کنز اللعمال کے باب الفضائل من قسم الافعال میں دلائل و اعلام نبوت کے عنوان کے تحت دو تین طویل رواتیں ابن عساکر و غیرہ سے لے کر درج کی گئی ہیں جویکسر ضعیف و موضوع ہیں اور مجہول راویوں سے مروی ہیں تاہم ان میں بھی ان واقعات ولادت کا کہیں پتہ نہیں پس دراصل ان قصص کا سرچشمہ وہ تین طویل حدیتیں ہیں جن کو حافظ ابو نعیم اصفہانی نے دلاہل میں عمروبن قیتبتہ ابن عباس اور خود حضرت عباس کی نسبت سے روایت کیاہے اور یہی وہ روایات ہیں جن کے آگے چل کر قصہ خوانوں اور مجلس آراداعظوں نے اپنی گرمی مجلس کے لیے استقیال کیا اور پھر آہستہ آہستہ تمام قصص و حکایات و کتب سیر متاخرین میں داخل ہوگئیں شیخ جلال الدین سیوطی نے خصائص کبری کی پہلی روایت میں ان تینوں روایات کا ذکر کیاہے ہر روایت ایک پورے صفحے کی ہے اور ہ انہیں نقل نہیں کرسکتے لیکن ان کے ابتدائی جملے نقد و جرح کے سلسلہ میں آجائیں گے بہر حال یہ تینوں رواتیں قطعاً بے اصل ہیں بوجوہ ذیل۔

(۱) حافظ ابو نعیم اصحفہانی پانچویں صدی کے بزرگ ہیں ان کی منزلت اور جلالت مرتبت سے انکار نہیں لیکن اس کو کیا کیجئے کہ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کی نسبت مسلم ہے کہ فضائل و معجزات میں رطب یا بس اور ضعیف و موضوع ہر طرح کی حدیثیں درج کردیا کرتے ہیں اور ایس لیے امام ابن تمیہ کو قاعدہ جلیلہ میں ان کی تصنیفات کے متعلق لکھنا پڑا (وفیھا احادیث کثیرة قویہ صحیحة وحسنة وموضوعة وکذالك مایرویه فی فضائل الخلفاء فی کتاب مفرداول حلیة للاولیاء)

ترجمعہ: اس میں بہت سی حدیثیں ہیں جو قوی و صحیح اور حسن ہیں اور بہت سی موضوع ہیں یہی حال ان احادیث کا ہے جو ابونعیم نے خلفاء کے فضائل میں بصورت ایک کتاب مستقل کے روایت کی ہیں حلیہ لااولیاء کے ابتداء ہیں۔ حافظ ابو نعیم کے اس تساہل موضوعات پر سکوت اور جمع روایات میں عام بے احتیاطی کی شکایت صرف علامہ موصوف ہی کو نہیں بلکہ اسی قسم کی رائے حافظ ذہبی نے میزان میں ظاہر کی ہے حافظ ابو نعیم اور ان کے معاصرابن مندہ کے باہمی طعن و قدح کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

(لااقبل قول کل منھا فی الاخروھما عندی مقبولا ن لا اعلمه ذنبا اکبر من روایتھما الموضوعات ساکتین علیہا)

ترجمہ: میں ان دونوں میں سے کسی کے طعن کو دوسرے کے حق میں قبول نہیں کرتا میرے نزدیک دونوں مقبول ہیں مجھے تو ان دونوں کا گناہ اس سے بڑھ کر اور کچھ نہیں معلوم کہ وہ موضوع روایات نقل کرتے ہیں اس کے متعلق خاموشی اختیار کرلیتے ہیں ۔

۲۔ اب ان روایت پر نظر ڈالے ان میں سب سے پہلی روایت عمروبن قیتبہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سنا اور وہ بہت بڑے عالم تھے ان کے والد بڑے عالمم سہی لیکن یہ نہیں معلوم کہ انہوں نے یہ واقعات کیونکہ معلوم کئے اور کس کے واسطے سے یہ نقل کردیئے ہیں کیونکہ یہ خود تو تبع تابعین کے ملنے والوں میں سے ہیں اور با صلاح حافظ ابن حجردسویں طبقہ کے راویوں میں سے ہیں نہ صرف یہ بلکہ ذکر ولادت کی اکثر روائتیں منقطع ہیں یعنی واقعہ تک راوی کا سلسلہ نہیں پہنچتا لیکن یہ روایت منقطع روایات میں بھی بدترین منقطع ہے دوسری روایت کے راوی اول حضرت ابن عباس ہیں لیکن اس کے بعد اس روایت میں سلسلہ روات کا کچھ پتہ نہیں کہ کون کون ہیں جن کے واسطے سے ابن عباس سے روایت کی گئی ہے تیسری روایت میں خود تصریح کردی ہے و اخرج ابو نعیم بسند ضعیف لیکن ضعیف روایت پر ہی قناعت نہیں کی جاسکتی کیونکہ یہ روایت سرے سے موضوع ہے خود حضرت ابن عباس ہیں اور شروع حدیث میں بطور جملہ معترضہ فرماتے ہیں

لماولداحی عبداللہ وھوا صغرنا۔

میرا بھائی عبداللہ پیدا ہوا اور وہ تمام بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا یہی جملہ اس روایت کے کذب و موضوع ہونے پر اندرونی شہادت ہے کیونکہ یہ مسلمات میں سے ہے کہ حضرت عبداللہ والد بزرگوار نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عباس بڑے تھے نہ کہ چھوٹے : حضرت ابن عبدالبرا ستیعاب میں فرماتے ہیں (وکان العباس اسن من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بسنتین و قیل بثلاث سنتین) (ج ۲ ص ۴۹۷)

جب خود حضرت عباس کی عمر آنخصرت سے صرف دو تین برس زیادہ تھی تو آپ کے والد عبداللہ سے کیونکہ بڑے ہوسکتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ جس احمق نے یہ روایت گھڑ کر حضرت عباس کی طرف منسوب کی ہے وہ اتنا بھی نہیں جانتا تھا کہ عباس بڑے ہیں یا عبداللہ اور یا جانتا ہوگا لیکن روایت کو معتبر بنانے کے لیے قصداً یہ ٹکڑا داخل کردیا کہ معلوم ہو کہ حضرت عباس کے سامنے یہ واقعہ ولادت پیش آیا اور اس وقت وہ اچھے خاصے جوان تھے(۳) لیکن ان سب سے بڑھ کر ایک قطعی شہادات جو ان روایات کے موضوع ہونے کا آخری فیصلہ کردیتی ہے یہ ہے کہ خود حافظ سیوطی خصائص کبری میں تینوں روایات نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔(ھذالاثروالا ثران قبله فیما نکارة شدیدة ولم اوردنی کتابی هذا اشد نکارة منہا ولم تکن نفسی تطیب بایرادھالکنی تبعت الحافظ ابانعیمم فی ذالك رجلد)

ترجمہ: یہ روایت اور اس سے قبل کی جو دو روائتیں ہیں ان میں سخت انکار قباحت ہے اور اس سے زیادہ منکر روائتیں میں نے اپنی کتاب میں نقل نہیں کیں اور میرا دل ان کے نقل کرنے میں خوش تو نہ تھا لیکن میں نے محض حافظ ابو نعیم کی متالبعت کرتے ہوئے ایسا کردیا ہے حافظ سیوطی ہر طرح کی رطب اور یابس اور ضعیف اور موضوع روایات کے جمع کرنے میں مشہور ہیں لیکن ان روایات کی لغویت کا یہ حال ہے کہ وہ بھی بین سہہ تساہل چپ نہ رہ سکے اور بے اختیار ہو کر انکار شدید ظاہر کیا اور روایات کے درج کرنے کی معذرت کی لیکن حافظ سیوطی کا یہ اقرار دلچسپ ضرور ہے کہ میں ہر طرح کی داہی اور منکر روائتیں لوگوں کے ابتاع کے خیال سے درج کردیتا ہوں جو لوگ مناقب و فضائل کے بیان کرنے میں اس قسم کے مصنفین پر اعتماد کرلیا کرتے ہیں ان کے لیے حافظ سیوطی کی اس عبارت یں بہت بڑا درس عبرت موجود ہے کاش کے وہ اس سے سبق حاصل کرسکیں چوتھی روایت:

ان روایات کی بحث میں اکثر سوالات کا جواب آگیا ہے لیکن ابھی ایک اور روایت باقی ہے اس سے چوتھی روایت میں آتشکدہ ایران کے بجھ جانے قصر نو شیرواں کے کنگوروں کے کرنے اور کاہنو ں کے پراسرار عجائب و اظہارات کا ذکر ہے یہ روایت پورے دو صفحہ کی ہے سیوطی نے خعائص یں اور حافظ ابو نعیم نے دلائل میں اس کو درج کیاہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آنخصرت کی ولادت کی رات کسریٰ کے ایوان میں زلزلہ محسوس ہوا اور اس کے چودہ کنگورے کر گئے ایران کی وہ آگ جو ہزار سال سے نہیں بجھی تھی اوراس روز بجھ گئی بحیرہ سادہ خشک ہو گیا نو شیرواں نے وزراء اور مصاحبوں سے وجہ دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ ہم نے بھی خواب میں دیکھا ہے معلوم ہوتا ہے کہ عرب میں کوئی انقلاب ہوگا وغیرہ وغیرہ لیکن یہ روایت بھی قطعاً ناقابل اعتبار ہے اس کو روایت کرنے کے بعد حافظ سیوطی لکھتے ہیں (قال ابن عساکر حدیث غریب لانعرفه الامن حدیث ابن مخزوم عن ابیه تفردبه ابوایوب)(البجلی جلد ۱ ص ۵۱)

ترجمہ:ابن عسا کرنے اس کی نسبت کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے جس کو سوائے ابن مخرموم کے اور کسی نے روایت نہیں کیا ہے غرض اس قسم کی جس قدر روایات ہیں وہ موضع منکر منقطع اور غریب ہیں اور یہی روایات بلغیر قلیل و بحذن و اضافہ فصائل اور مناقسب کی کتابوں میں ملتی ہیں جن کی بنیاد انہی روایات پرہے افسوس کہ حافظ ابو نعیم اور سیوطی اور ان جیسے دوسرے بزرگوں کی بے اعتنائی تساہل بے احتیاطی اور جمع روایات کی خواہش نے آج اسلام کو شرمندہ نحیار اور ہدف طعنہ مخالفین بنا دیا اور خود مسلمانوں کی نو تعلیم یافتہ جاعت کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کا سامان مہیا کردیا فقط

اخبار الاعتصام جلد نمبر۱۶

مطابق ۲۱، اگست ۱۹۶۲ء:نمبر۳ بحوالہ اخبار توحید امرتسر ۳۶/۳۵

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 66-73

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ