سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(14) آنحضرت ﷺ کو عالم برزخ میں امت کے تمام حالات کی اطلاع ہوتی رہتی ہے؟

  • 3796
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1428

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

اس طرح کا عقیدہ رکھنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم برزخ میں امت کے تمام حالات کی اطلاع ہوتی رہتی ہے، خواہ کسی طرح بھی ہو صحیح ہے یا نہیں۔ اگر صحیح نہیں ہے تو ایسا عقیدہ رکھنا کفر ہے یا فسق جو بھی آپ کے نزدیک درست ہو تحریر فرمادیں


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس طرح کا عقیدہ رکھنا کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔

بلکہ بدعت اور گمراہی ہے۔ کیونکہ عقیدہ کوئی قطعی دلیل ہونی چاہئے اور ایسی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ جیسا کہ مولانا عبدالعلی لکھنوی نیابن ہمام کی تحریر الاصول کی شرح میں لکھا ہے اور پھر یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ اس عقیدہ کے بر خلاف صحیح بخاری مسلم اور دیگر صحاح کی کتابوں میں بہت سے کبائر صحابہ سے متعددں

(الحوض حتی عرضتھم اختلجوادونی فاقول اصحابی فیقول انك لا تدری ما احد ثوابعدك۔ لحدیث عن ابی ہریرةَ فاقول یا رب اصحابی فیقول انك لا علم لٹ ہما احدث؟؟ بعدك۔ الحدیث و عن حنیفة وسھل بن سعد وابن عباس و عبداللہ بن عباس و عبداللہ بن مسعود عن النبی صلی اللہ علیه وسلم هکذا)

اکنون ایں حدیث باسانید صحیحہ ازہرصحابی کہ مروی است مرنوعاجدا جدا زیر قلم می آید کہ صحت و شہرت ایں حدیث بر ہر خاص و عام ظاہر شودوازان اعتقاد ہر کس کہ باشد بازآید ورصحیح بخاری درپارہ بست وہت مرقوم است

حدثنا مسلم بن ابراہی قال حدیثنا وھیب قال حدیث عبدالعزیز عن انسؓ عن النبی صلی اللہ علیه وسلم قال لیردن علی ناس من اصحابی الحوض حتیٰ عرضتھم اختلجو ادونی فاقول اصحابی فیقول لا تدری ما احدثوابعدك وعن سھل بن سعید قال قال النبی صلی اللہ علیه وسلم انانر طھم علی الحوض من مرعلی شرب ومن شرب لم یظما ابدا لیرون علی اقوام اعرضھم ویعرنوتی ثم یحال بینی وبینھم ناقول انھم منی۔ فیقال انك لا تدری ما احدثوا بعدك فاقول سحقا سحقالمن غیر بعدی عن سعید بن المسیب عن ابی ھریرة ان کان یحدث ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال یرد علی یوم القیامة رھط من اصحابی فیحلون۔ ای یطروون۔ عن الحوض فاقول یارب اصحابی فیقول انك لاعلم لك بما احدثو ابعدك الی اخرالحدیث۔ عن ابن المسیب انه کان یحدث عن اصحاب النبی صلی اللہ علیه وسلم قال یرد علی الحوض رجال من اصحابی فیحلؤاعنه فاقول یارب اصحابی فیقول انك لا علم لك بما احدثو ابعدك الی اخرالحدیث۔ عن عطاء بن یارعن ابی ھریرة عن النبی صلی اللہ علیه وسلم قال بینا انا قائم اذازمرة حتی ادا عرضتھم خرج رجال من بینی وینھم فقال لھم ھلم فقلت این قال الی النار واللہ قلت واشاتھم قال انھم ارتدوابعدك علی ادبارھم القھقری ثم ادازمرة حتی اذاعر ضتھم رجل خرج من بینی وبینھم فقال ھلم قلت این قال الی النار واللہ قلت واشاتھم قال انھم ارتد واعلى اوبارھم القھقری الحدیث عن ابن ابی ملیکة عن اسماء بنت ابی بکوقالت قال النبی صلی اللہ علیه وسلم انی علے الحوض حتی انظرمن یردعلی منکم وسیؤ خذناس دونی فاقول یارب منی ومن امتی فیقال ھل شعرت ماعلموابعدك واللہ مابرحوایرجعون علے الصقابھم الحدیث انتہی ما فی الجزء السابع والعشرین من صحیح البخاری۔

(ترجمہ) کبئر صحابہ سے متعدد سندوں سے ایک مرفوع حدیث آئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حوض کوثر پر میرے صحابہ میں سے کچھ لوگ میرے پاس آئیں گے۔ میں ان کو پہنچان لوں گا، تو ان کو ہانک کر دور لے جایا جائے گا۔ میں کہوں گا، یہ تو میرے صحابی ہیں، تو جواب ملے گا تم کو معلوم نہیں کہ ان لوگوں نے تمہارے بعد کیا کچھ کیا۔۱۲

عن سعید بن جبیر عن ابن عباسؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم تحثرون حفاة عراة غرلا۔ ثم قرا کمابدانا اول خلق نعیدہ وعدا علینا اناکنافاعلین ۔ یوخذ برجال من اصحابی ذات الیمین و ذات الشمال فاقول اصحابی فیقال انھم لم یزالوا مرتدین علی اعقابھم منذنارقتھم فاقول کماقال العبد الصالح عیسےٰ بن مریم۔ وکنت علیھم وکنت علیھم شھیدا مادمت فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیت علیھم وانت علی کل شیء شھید الحدیث انتہی مافی الجزء الثالث عشر من صحیح البخاری

دورصحیح مسلم مذکور است ۔ عن ابی حازم عن ابی ھریرة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم تردعلی امتی الحوض واناازودعه الناس کمایزد والرجال ابل الرجل عن ابله قالوا یا نبی اللہ اتعرفنا قال نعم لکم سیمالیست لا حو غیر کم تردون علی غرا مجمملین من اثارا لوضوء ولیصدن عنی طائفة منکم فلا یصلون فاقول یا رب ھولاء اصحابی فیجیبنی ملك فیقول وھل تدری احد ثوا بعدك۔ انتھی مافی صحیح مسلم۔ قال النودی شارح المسلم اختلف العلاء فی المرا دعلی اقوال احد ھا انالمرادیه المنافقون والمرتدون فیجوزان یحشر رابالغرة والتجحیل فینادی ھم النبی صلی اللہ علیه وسلم للسیماء التی علیم فیقال ھولاء ممن وعدت لھم ان ھولاء بدلوابعدك ای لم یموتو اعلی ماظھرمن اسلامھم والثانی ان المردبه من کان فی زمن النبی صلی اللہ عليه وسلم وارتد و ا بعدہ فیناء یہم وان لم یکن علیھم سیماء الوضوء لماکان یعرنه صلی اللہ علیه وسلم فی حیاته من اسلامھم فیقال ارتدوا الثالث ان المراد اصحاب المعاصی الکب ئرالذین ماتوا علی التوحید و اصحاب البدع الذین لم یخرجوا بیدعتھم عن الاسلا انتہی مافی شرح مسلم مختصراً

(ترجمہ) یہ حدیث حصرت انسؓ ابوہریرہؓ و سہل بن سعدؓ ابن عباسؓ۔ ابن عمر اور عبداللہ ابن مسعود سے روی ہے کسی روائیت میں تفصیل ہے کسی میں اجمال ہے۔

وبرماہران اسانید پوشیدہ نیست۔ کہ این حدیث مذکور بطریق خمسہ و ستہ منقول است پس بلا ریب بدرجہ شہرت رسید۔ لان الحدیث المشھور عندالمحدثین مالہ طریق محصورۃ باکثرمن اثنین کذانی ننحبۃ الفکر و غیرہ من کتب الا مرل حاصل کلام ایں کہ ازیں روایات صحیحہ مذکورہ مقبولہ عندجمہور العلماء والمحدثین صاف ہویداگردید۔ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم راور عالم برزخ ازاحوال ایشاں اطلاع شدے۔ پس این چنین، چرامے فرمودند اصحابی اصحابی باوجود یکہ ایں جاعت مذکورین صحبت بابرک۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم رادر یافتند وبعد انتقال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مرتد شدندیادردین احداث بدعت قبیحہ نمووند۔ ودرحقوق واجبہ تقصیر نمودندبازآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم براحوال ایشاں ازروز وفات تاروز قیامت اصلامطلع نشدندوبنابر، ہمیں عدم اطلاع دراں روز خواہند فرمود (کنت علیھم شھید امادمت فیھم الا یۃ) وازیں صاف ہویداگردید۔ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم درعالم برزخ ازاحوال امت اطلاع نہ دارندپس دریں صورت چگو نہ اعتقاد کردہ شود۔ کہ آنحصرت صلی اللہ علیہ وسلم رابراحوال ات در عالم برزخ اطلاع می دہند (ھل ہذا الا الاختلاق) بالفرض اگر کے ازاہل سیروایتے ضعیف بلا سند صحیح بریں معنی نقل کنددرجنب روایات صحیح بخاری و مسلم مبقول نخواہدبود، بلکہ مردود شور عندالعلماء المحققین الممنصفین کا لا یخفی علی ماھرفن الحدیث والفقہ واللہ اعلم بالصواب۔ حررہ السید محمد نزیر حسین عفی عنہ۔ فتاویٰ نذیریہ جلد اول ص ۲۹/۲۸

(ترجمہ) اور ماہرین اسانیدپر پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ حدیث پانچ چھ سندوں سے منقول ہے، پس یقیناًیہ حدیث شہرت کے درجہ پر پہنچ چکیہے۔ کیونکہ محدثین کے نزدیک حدیث مشہور وہ ہے جو دو سے زیادہ سندوں سے مروی ہو جیسا کہ ننحۃ الفکروغیرہ کتب اصول میں مذکور ہے۔ حاصل کلام یہ کہ ان روایات صحیحہ سے صاف ظاہر ہے کہ انخصرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم برزخ میں امت کے احوال کی خبر نہیں ہوتی ورنہ آپ قیامت کے روز ایسا نہ فراتے، جیسا کہ اسی حدیث کے ایک طریق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ ہیں، کہ اے اللہ میں جب تک ان میں وجود رہا ان کی نگرانی کرتا رہا، اور جب تو نے مجھ کو اٹھالیا، تو پھر تو ہی نگران تھا الایۃ پھر ایسی صورت میں کیوں کر یہ عقیدہ رکھا جاسکتاہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم برزخ میں امت کے حالات کی خبر نہ ہوتی ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 59-64

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ