سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(08) کیا درخت میں الله تعالیٰ نے حلول فرما کر موسی علیہ السلام کو یہ آواز دی؟

  • 3790
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 2348

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

قرآن کریم میں موسیٰ علیہ و علی نبینا الصلوٰۃ و السلام کے ذکر میں یہ ارشاد ہے:۔

﴿فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِيَ مِن شَاطِئِ الْوَادِ الْأَيْمَنِ فِي الْبُقْعَةِ الْمُبَارَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ أَن يَا مُوسَىٰ إِنِّي أَنَا اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ‎﴿٣٠﴾‏ القصص

اس آیت کریمہ میں حل طلب یہ مسئلہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو وادی یمن کے داہنی طرف سے درخت میں سے یہ آواز آئی۔

﴿يَا مُوسَىٰ إِنِّي أَنَا اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ‎﴿٣٠﴾‏ القصص

اے موسیٰ ! میں رب العالمین ہوں۔

کیا درخت میں ذات باری تعالیٰ نے حلول فرما کر موسی علیہ السلام کو یہ آواز دی۔ اگر یہ معنی ہے تو ذات باری تعالیٰ کا ایک ادنیٰ اور حدود چیز میں حلول کرنا اس کی شان کبریائی کے خلاف ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ ذات باری تعالیٰ نے درخت میں حلول نہیں فرمایا بلکہ درخت کو حکم فرمایا اور اس وجہ سے درخت میں قوت گویانی پیدا ہوئی اور یہ اللہ تعالیٰ کی شان علی کل شی قدیر۔ کے عین مطابق ہے لیکن اس میں درخت کا یہ کہنا (انا اللہ رب العالمین) صحیح نہیں ہوگا علاوہ ازیں ظاہری اور حقیقی معنی کو چھوڑنا اور تاویل کرنا بھی کچھ مناسب نہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن مجید کے تمام مقامات کی آئتیں اس قصہ میں یوں شہادت دیتی ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کوہ طور کی غربی جانب مقدس وادی کے بابرکت کنارہ میں یوں آواز آئی ﴿إِنِّي أَنَا اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ‎﴿٣٠﴾ آواز دینے والا مناجات کے لئے قریب کرنے والا رب العالمین تھا۔ لاغیر، پس اس مقام پر نہ حلول کا کچھ ذکر ہے اور نہ درخت کے ندا کرنے کا اور نہ اس میں آواز پیدا کرنے کا کچھ تذکرہ ہے پس تردد کس بات سے ہے۔ اللہ تعالیٰ وتقدس بعض بندوں کی طرف قرب فرماتا ہے بعض از منہ میں ان کو اپنے دلو سے سرفرازی بخشتا ہے۔

کد نوعشیة عرفة الی اھل عرفات قربه الی الساجدین والی الداعین وکقربه الی موسی اذقربہ نجیا ولا یستلزم من ذلك ان تخلوذاته من فوق العرش بل یکون فوق العرش بذاته ویقرب من خلقه کیف یشاء ویکون قربه عزوجل ایضاذاتیاولیس ذلك من الممتنعات

مثلاً یوم عرفہ کی شام کو اہل عرفات سے قرب الہٰی سجدہ اور دعا کے اوقات میں ساجد اور داعی سے قرب الٰہی حضرت موسی علیہ السلام سے ہم کلامی کے وقت قرب تاہم یہ قرب عرش سے اس کی ذات مقدس سے خالی ہونے کو مستلزم نہیں کیونکہ اس کا عرش کے اوپر مستوی ہونا اور اپنی مخلوق کے قریب ہونا دونوں بلا کیف ہیں بنا بریں یہ قرب ذاتی ہے کیوں کہ اس کے امتناع پر کوئی دلیل نہیں۔ ہم رب العزت کی ادنیٰ ادنیٰ مخلوق کو مثلاً روح کو دیکھتے ہیں کہ چند منٹ میں بلاو بعیدہ بلکہ آسمانوں کا سیر کرآتی ہے۔ (مع انھا تکون فی الابد ان) (باوجود یکہ روح ہمارے جسم میں ہوتی)ہمارے ابدان کے واسطے یہ سیر سریع اتنی اندک مدت میں ممتنعات وقطعی محالات سے ہے۔

اس سے صاف طور پر ثابت ہوگیا کہ ہر ایک کے واسطے جداگانہ صفات ہوتی ہیں۔ اور بعض مخلوقات میں ایسے صفات بھی ہیں جو وہ دوسروں کی نسبت ممتنعات میں سے ہیں۔

(والرب عزوجل فوق هذا کله واجل من هذا کله له صفات فوق الصفات کما ان له ذات فوق الذوات لان الصفات تابعة للذات ولالمثل الاعلى فی السموت والارض وھوا لعزیز الحکیم)۔

پھر اللہ تعالیٰ کا تو معاملہ ارفعع اور اعلیٰ ہے جیسے اس کی ذات سب مخلوقات کی ذوات سے اعلیٰ و اجل ہے۔ یہی حال اس کی صفات مقدسہ کاہے ۔ ان کو مخلوقات کی صفات پر قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ صفات تو ذات ہی کے تابع ہوتی ہیں۔

﴿وَلَهُ الْمَثَلُ الْأَعْلَىٰ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ‎﴿٢٧﴾‏ الروم

چراغ کی روشنی سے تمام ؟؟؟ جاتا ہے۔ اور آفتاب ماہتاب کے نور سے تمام زمین باوجود اس کے نہ چراغ کی روشنی اپنی جگہ سے منتقل ہوئی اور نہ قمرین کا نور۔ پس اگر ہم رب العالمین کے بارہ میں صدر اول صحابہ کرام ،تابعین، تبع تابعین عظام برگزیدہ لوگوں کی طرح یوں اعتقاد رکھ لیں کہ علوحق تعالیٰ کے لئے ایک ایسی لازمی صفت ہے کہ وہ قرب ولو کے وقت بھی اعلیٰ و برتر ہوتا ہے ،نہ اسفل، تو اس میں کیا تردد ہے اور کیا نقص لازم آئے گا چنانچہ ،طور کی جانب غربی مقدس وادی کے کنارہ میں حق تعالیٰ نے تجلی فرمائی اور وہ بذات بابرکات خود عرش معلیٰ پر تمام مخلوق سے اععلیٰ و برتر تھا۔ باوجود نزول اس کے آسمان دینا پر اور اس کا ذاتی قرب موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ یقعۂ مبارکہ میں اور اس کا ذاتی دلوداعین و ذاکرین سے عرش معلےٰ پر بھی ہے۔ اور باوجود اس کے عرش معلی پر ہونے کے مکان خاص میں موسیٰ علیہ السلام سے قریب ہوا۔ اور ذاکرین داعین سے قریب ہوتا ہے اور آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے ۔ وہوالعلی الا علے استوی، اور علوکی صفت اس کی ذات کو لازم ہے۔ کسی وقت میں اس سے زائل نہیں ہوتی اور اسفل سے متصف نہیں ہوتا ہے۔ ایک ہی وقت میں عرش پر بھی ہے اور آسمان دنیا پر بھی ہے اور ایک ہی وقت پر عرش پر بھی ہے اور بقعہ مبارکہ میں موسیٰ ععلیہ السلام کے ساتھ بھی ہے اور ایک ہی وقت میں عرش پر بھی ہے اور دعا مانگنے والوں اور ذکر کرنے والوں کے ساتھ بھی ہے۔ (حضرت الامام)عبدالجبار غزنوی رحمۃ اللہ علیہ: الاعتصام جلد نمبر۹ شمارہ نمبر۴۴۰

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 50-52

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ