سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(07) رسول ﷺ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نور سے پیدا کیا ہے؟

  • 3789
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 10524

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

بعض مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نور سے پیدا کیا ہے اور اس لحاظ سے آپﷺ بشر نہیں ہوسکتے اوریہ لوگ ایک حدیث حضرت جابرؓ کی پیش کرتے ہیں کہ حضور نے فرمایا :

«إنَّ الله خلَق قبل الأشياء نورَ نبيك من نوره»

کیا یہ حدیث صحیح ہے ؟ اور اس کا مفہوم یہی ہے کہ ہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ عزو جیل کے ذاتی نور سے پیدا ہوئے ہیں: اور اسی لیے آپﷺ کو بشر کہنا کفر یا گناہ ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نور علیٰ نور بلکہ منبع انوار و برکات ہیں دنیا کفر و شرک کی ظلمتوں اور جہالت کی تاریکیوں میں مبتلا تھی لیکن رحمۃ للعالمین اور خاتم النبیین کی ضیا، پاشیوں سے ایک عالم منور ہوا۔ خود قرآن کریم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وصف کو اس طرح پیش فرمایا:

﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ‎﴿٤٥﴾‏ وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا ‎﴿٤٦﴾‏... سورة الأحزاب

اے نبی! ہم نے تجھ کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔اس شان کا رسول کہ قیات میں اپنی امت کے شاہد اس دنیا میں اہل صلاح و تقویٰ کو بشارت دینے والے غافلوں اور سرکشوں کو ڈرانے والے اللہ کی طرف اس کے حکم سے دعوت دینے والے اور روشن چراغ، آپ کا وصف سراجا منیرا غالباً اس معنی میں ہے جو سورۃ نوح میں فرمایا:

﴿وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا ‎﴿١٦﴾‏ نوح

یعنی اللہ نے چاند کو نور اور سورج کو چراغ بنایا کہ اس سے دوسرے نورانی کرسے روشنی حاصل کرتے ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم آفتاب نبوت ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رشد وہدایت کی روشنی سب حاصل کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آفتاب نبوت کے طلوع کے بعد کسی دوسری روشنی کی ضرورت نہیں رہتی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ادعیہ مبارکہ میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز سے فارغ ہو کر صبح کی نماز کے لئے تشریف لے جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے:

(قلبی نورا وفی بصری نورا وفی سمعی نورا وعن یمینی نورا وعن شمالی نورا وخلفی نور واجعل لی نورا) (صحیحین)

یا اللہ، میرے دل کو سراپا نور کر میری آنکھوں میرے کانوں کو نورانی کر میرے دائیں بائیں اور پیچھے نور ہو اور مجھے نور عظیم عطا فرما۔

بعض روایات میں اس دعا کے آخری حصہ میں واجعلنی نورا (یا اللہ مجھے سراپا نور کردے) کے الفاظ بھی مروی ہیں۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے مستفیض ہونے والوں کے لیے بھی قرآن کریم میں نور کی بشارت ہے فرمایا:

﴿أَوَمَن كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَن مَّثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا...﴾ الانعام

کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا۔ پھر ہم نے اسے زندگی بخش اور اسے نور عطا کیا جس کی برکت سے وہ (مخالف) لوگوں میں چلتا پھرتا ہے (اور وہ ہر قسم کی گمراہی سے محفوظ رہتاہے) کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے، جو (ضلالت) اور گمراہی، کی تاریکیوں میں گھرا ہوا ہو اور ان سے نکلنے ہی نہیں پاتا۔

اور دوسری جگہ فرمایا:

﴿أَفَمَن شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ...﴾ الزمر

بھلا جس شخص کا سینہ اللہ نے اسلام کے لئے کھول دیاہو۔ اور وہ اپنے پروردگار کے نور پر ہے(کیا وہ سخت دل کافر کی طرح ہوسکتا ہے)

تو یہ دنیا میں ان کا حال ہے۔ آخرت میں بھی اہل ایمان کو نمایاں نور حاصل ہوگا جیسا کہ فرمایا:

﴿يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ نُورُهُمْ يَسْعَىٰ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ‎﴿٨﴾‏ التحريم

یعنی نبی کا تو کہنا ہی کیاہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ ان کے ساتھیوں کو بھی ذلیل نہیں کرے گا۔ بلکہ ان کا نور ان کے آگے اور داہنی طرف روشنی کرتا ہوا چل رہا ہوگا اور وہ خدا سے یہ دعا کریں گے کہ اے ہمارے رب ہمارا نور ہمارے لئے پورا کر کہ اس کی روشنی آخر تک رہے۔

معلوم ہوا کہ نور سے مراد رشد و ہدایت اور ایمان (معرفت ہے) جیسا کہ آیہ کریمہ

﴿أَفَمَن شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ اور ﴿وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَن مَّثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ﴾

سے معلوم ہوتا ہے اور اس لحاظ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آفتاب رشد و ہدایت ہیں۔ تمام عالم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور نبوت سے مستیز ہو رہاہے۔ آپ ء نور ایمان و معرفت کے منبع اور سرچشمہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر کسی بار گاہ سے نور ایمان حاصل نہیں ہوسکتا۔ سب رستے مسدود اور سب دروازے بند ہوچکے ہیں۔ صرف ایک باب محمدی کھلا ہے جس میں داخل ہو کر نور ایمان حاصل ہوسکتا ہے یا ایک نورانی کیفیت جو مومن کے ایمان صادق حسن نیت اور اخلاص کی برکت سے حاصل ہوتی ہے۔ اس صورت میں قلب منور سے نورانی شعاعین پھوٹ پھوٹ کر ظاہر کو روشن کرتی ہیں۔ جیسا کہ اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے شہروں کو دیکھ کر شام کے عیسائی راہبوں نے کہا کہ ان کے چہرے تو حضرت عیسیٰ ؑ کے حواریوں جیسے نورانی ہیں جس کی طرف اشارہ قرآن کریم میں بھی ہے۔ فرمایا:

﴿سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ...﴾ الفتح

یعنی ان کی ایانی کیفیتوں کے انوار ان کے چہروں سے مشاہدہ کئے جاتے ہیں۔

اور یہی کیفیت اولیاء اللہ اور بزرگان دین کی علی حسب مراتب ہوتی ہے کہ ان کے باطنی نور کے آثار ان کے چہروں پر نمایاں نظر آتے ہیں یہ تو اصحاب کرام اور ان کے ابتاع کا حال ہے۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نورانی کیفیتوں کا کیا کہنا ہے ہماری زبان اس کے بیان سے گنگ اور قلم عاجز و قاصر ہے صلی اللہ علیہ وسلم( کما یحب وبرضی لم)

لیکن یہ کہنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سجا نہ و تعالیٰ کے ذاتی نور سے پیدا ہوئے نہ صرف یہ کہ جہالت ہے۔ بلکہ صریح کفر ہے اس لئے کہ:۔

۱۔ اس کا معنی یہ ہوگا کہ ذات الٰہی کا نور مادہ ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذات الٰہی جزو بیں

(العیاذ باللہ ثم العیاذباللہ )اوریہ عقلاً و شرعاً غلط ہے۔ کیونکہ ذات الٰہی کا نور مادی نہیں ہوسکتا اور مجرومن المادہ کے لئے مادیات کا مادہ ہونا ممکن نہیں۔ علاوہ ازیں اس باطل عقیدہ کی بنا پر ماننا پڑے گا۔ کہ اللہ تعالیٰ کے ذاتی نور کے اجزاء میں اور جو چیز مرکب اجزاء سے ہوگی وہ اپنے وجود کے قیام میں اجزاء کی محتاج ہوگی اور احتیاج حق سجانہ و تعالیٰ کی شان سے بعید ہے۔ نی اگر اللہ سبحانہ تعالیٰ و تقدس نے اپنے ذاتی نور کا ایک حصہ الگ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کو تیار کیا۔ تو معاذاللہ! معاذاللہ!اللہ جل شانہ کے ذاتی نور کا ایک جزو کم ہوگیا۔ اور کوئی مسلمان بلکہ کوئی بھی انسان جو خدا کو کامل صفات کا مالک سمجھتا ہے ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔

کاش ان لوگوں میں کچھ بھی بصیرت ہوتی اور علم دین کا کچھ بھی حصہ انہیں حاصل ہوتا تو یوں شان باری تعالیٰ میں ایسی گستاخی نہ کرتے۔ انہیں کیا معلوم کہ ذات الٰہی کے نور سے متعلق قرآن کریم اور احادیث میں کیا ارشادات ہیں۔ دیکھیے صحیح مسلم میں حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے:

(قام فینا رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم بخمس کلمات و فیھا حجابه النور لو کشفه لا حرقت سبحات و جھه ما انتھي الیه بصرہ مزخلق)

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسل ہم میں خطاب ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے اور پانچ مساہل بیان فرمائے۔ ان میں ایک مسئلہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا حجاب نور ہے۔ اگر ہو اس حجاب کو اوٹھا دے۔ تو اس کے انوار جلال ذاتی تمام مخلوق کو جہاں تک اللہ جل شانہ کی نگاہ پہنچے سب کو جلا دے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر تمام مخلوق کو محیط ہے تو حاصل یہ ہوا کہ تمام مخلوق اس کے نور ذات سے جل کر تباہ ہو جائے۔ اور کنز العمال میں بروایت طبرانی کبیریوں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کی ذات پر عظمت و جلال کو دیکھا ہے تو جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ میرے اور ذات حق سبحانہ و تعالیٰ کے درمیان ستر حجاب ہیں اور پھر فرمایا:

(ما تسمع نفس من جس تلك الحجب الازھفت)

کوئی جان ایسی نہیں جو ان حجابوں کی سرسراہٹ سن لے اور فوراً نہ نکل جائے ۔

موسیٰ علیہ السلام نے جب اشتیاق دیدار کا اظہار کیا تو جواب ملا؟ چالیس دن کی میعاد پوری ہوچکنے کے بعد حق سبحانہ وتعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب شرف مکالمہ بخشا تو اس وقت موسیٰ علیہ السلام بلا واسطہ کلام حق جل مجدہ سننے سے کچھ اس طرح لذت گیر ہوئے کہ کمال اشتیاق سے دیدار الٰہی کی آرزو کرنے لگے اور بے ساختہ درخواست پیش کردی جس کا ذکر اس آیت میں ہے:

﴿وَلَمَّا جَاءَ مُوسَىٰ لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَن تَرَانِي وَلَٰكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَىٰ صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ ‎﴿١٤٣﴾‏ الأعراف

یعنی جب موسیٰ علیہ السلام (اس واقعہ مذکورہ میں)ہمارے مقررہ وقت پر آئے تھے اور ان کے رب نے ان سے کلام کیا تھا (تو شدت انباط سے دیدار کا اشتیاق ہوا) اور عرض کیا اے میرے پروردگار مجھے اپنا دیدار کرا دیجئے کہ ایک نظر آپ کو دیکھ لوں۔ بارگاہ حق جل مجدہ سے ارشاد ہوا کہ تم مجھے ہر گز نہیں دیکھ سکتے (کیونکہ یہ آنکھیں تاب جمال الٰہی نہیں لاسکتیں) لیکن تمہاری تشفی کے لیے یہ تجویز کرتے ہیں کہ تم اس پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو ۔ ہم اپنے جمال کی ایک ذراسی تجلی جھلک اس پر ڈالتے ہیں۔ اگر پہاڑ اس کو برداشت کرسکا، اور اپنی جگہ پر برقرار رہا تو تم بھی دیکھ سکو گے پس اس کے رب نے جب تجلی فرمائی تو تجلی انوار نے اس پہاڑ کو ریزہ ریزہ کردیا اور موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو کر گر پڑے پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کیا۔ بے شک آپ کی ذات پاک ہے(کہ یہ آنکھیں اس کے دیکھنے کی تاب لاسکیں) میں نے رویت جمال الٰہی کی طلب جو بلا اجازت کردی تھی۔ اس سے توبہ کرتا ہوں اور (انک لزترانی) کا جو ارشاد ہے سب سے پہلے اس پر یقین کرتا ہوں، کیونکہ عین الیقین سے مجھے معلوم ہوگیا۔ کہ حق سبحانہ و تعالیٰ کے جمال ذاتی کا مشاہدہ اس دنیا میں مادی آنکھوں سے نہیں ہوسکتا۔

نص قرآنی سے معلوم ہوا کہ اس دنیا میں مادی آنکھوں سے انوار ذات الٰہی کا کوئی شخص وہ عظیم المرتبت نبی اللہ بھی کیوں نہ ہو مشاہدہ نہیں کرسکتا۔ پھر یہ کہنا کہ ۔ انوار ذات الٰہی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔ کیسی نادانی کی بات ہے اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ انوار و برکات کے حامل ہیں۔ وہ فرماتے ہیں (نورا انی اراہ) وہ ایک نور ہے۔ میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں۔

یہ حضرت ابوذرؓ کی روایت مسند امام احمد اور صحیح مسلم یں مروی ہے۔ عبداللہ بن شفیق کہتے ہیں۔ میں نے حضرت ابوذرؓ سے عرض کیا۔ اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مستفیض ہوتا تو ایک سوال کرتا۔ حضرت ابوذرؓ نے کہا، تم کیا سوال کرتے تو اس نے کہا۔ (کنت اسالہ ھل رای ربہ عزوجل) میں یہ سوال کرتا کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا ہے۔

حضرت ابوذرؓ نے کہا۔ بھائی میں نے یہ سوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا۔ میرے سوال کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، وہ ایک نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں۔

اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اس قدر فرمادیتے کہ نہیں میں نے نہیں دیکھا۔ تو سوال کا جواب کافی تھا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا۔ وہ ایک نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں یعنی ہرگز نہیں دیکھا اور نہ دیکھ سکتا ہوں۔ اور مبالغہ سے انکار کی وجہ وہی ہے جو صحیح مسلم میں بروایت ابو موسیٰ اشعری مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حجاب نور ہے۔ اگر وہ اس حجاب کو اٹھاوے تو اس کے انوار جلال ذاتی تمام مخلوق کو جہاں تک حق سبحانہ و تعالیٰ کی نگاہ پہنچے، سب کو جلا دے۔

اور امام مالک کے الفاظ ہیں:(اغالم یرسبحان افی الدنیا لانه باق و الباقی لا یری بالفانی فاذا کان فی الاخرة رزقوا ابصارا باقیة راو الباقی بالباقی) (فتح الباری ص ۳۴۷ ج ۲۰)

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو دنیا میں اس لئے نہیں دیکھا جاسکتا کہ ذات پاک باقی رہنے والی ہے اور فانی چی باقی کو نہیں دیکھ سکتی۔ آخرت میں اہل ایمان کو باقی رہنے والی آنکھیں عطاہوں گی تب باقی رہنے والی آنکھ باقی رہنے والی ذات کو دیکھ سکے گی۔

حضرت عائشہؓ کی حدیث صحیحین میں مروی ہے کہ مسروق نے حضرت عائشہؓ سے سوال کیا کہ کیا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رویت جمال ذات الٰہی حاصل ہوئی! اس کے جواب میں حضرت عائشہؓ نے فرمایا:

لقد تکلمت بشئی قف له شعری مماقلت این انت من ثلاث من حد ثك فقد کذب من حدثك ان محمد ارای ربه فقد کذب، ثم قرات، لاندرکه الا بصار وھویدرك الابصار وھواللطیف الخبیروماکان لبشرانه یکلمہ اللہ الاوحیا اومن وراء حجاب، و من خدثك الم یعلم مافی غدفقد کذب ثم قرات وماتدری نفس ماذاتکسب غداومن حدثك انه کتم شیاء وقد کذب، ثم قرات یاایھاالرسول بلح ما انزل الیک من ربك ولكنه رای جبریل فی صورته مرتین

تو نے ایسی بات کہہ دی ہے کہ اس سے میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوگئے ہیں ۔سن لو یہ تین باتیں ہیں، جو کوئی تجھ سے یہ کہے تو سمجھ لو کہ اس نے جھوٹ کہا۔ پہلی بات یہ ہے، جو کوئی تجھ سے یہ کہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے اس نے جھوٹ کہا۔ پھر یہ آیت پڑھی جس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی کی آنکھ میں یہ قوت نہیں کہ اس کا ادراک کرسکے اور وہ سب نگاہوں۔ کا ادراک کرسکتا ہے وہ لطیف و خبردار ہے۔ دوسری آیت کا مفہوم یہ ہے کہ کسی۔ بشر کا یہ مقام نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے کلام کرے مگر اس صورت میں کہ اس کے قلب پر القاء کرے یا پردے کے پیچھے سے یا کوئی فرشتہ بھیج دے دوسری بات یہ ہے کہ تم سے اگر کوئی یہ کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کل کی بات جانتے ہیں تو سمجھ لو کہ اس نے جھوٹ کہا۔ اور آیت پڑھی جس کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کو کیا کام کرے گا۔ اور تیسری بات یہ کہ تم سے جو شخص یہ کہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی الٰہی میں سے کچھ باتیں چھپالی ہیں تو وہ جھوٹ کہتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے رسول جو وحی آپ کے پاس پہنچی ہے اسے پہنچا دے۔ لیکن تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو اپنی اصلی شکل میں دو بار دیکھا ہے۔

یہ صحیح ہے کہ صحابہ کرام میں سے بعض صحابہ مثلاً ابن عباسؓ اور کعب احبارؓسے مروی ہے کہ وہ یہی رائے رکھتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی رویت کا شرف حاصل ہے لیکن وہ بھی ان آنکھوں سے دیکھنے کے قائل نہ تھے جیسا کہ صحیح مسلم میں ان کے شاگرد عطار سے مروی ہے۔

(عن ابن عبا س قال راہ بقلبہ (ص ۶۸ ج ۱) یعنی ابن عباسؓ فرماتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی رویت بصری نہیں بلکہ رویت قلبی حاصل ہوئی تھی۔

حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں ابن مرودیہ کی روایت ان ہی الفاظ میں نقل کی ہے۔ (عن ابن عباس قال لم یرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعینہ انماراہ بقلبہ) یعنی ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آنکھوں سے ذات الٰہی کو نہیں دیکھا ہے۔ بلکہ جو رویت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھی وہ رویت قلبی تھی۔ جامع ترمذی میں حضرت ابن عباسؓ کے شاگرد عکرمہؓ کا ایک مکالمہ حضرت ابن عباسؓ سے مقول ہے۔ اس یس حضرت عباسؓ کے فتوے کی حقیقت اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔

(عن عکرمة عن ابن عباس قال رای محمد ربه قلت الیس اللہ یقول لاتدرکه الابصار وھو یدركه الابصار قالویحك ذاك اذا تجلے بنورہ الذی ھونورہ وقد رای ربه مرتین) یعنی حضرت ابن عباسؓ نے یہ مسئلہ بیان فرمایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو عکرمہ کہتے ہیں میں نے سوال کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ کا ارشاد نہیں

﴿لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ﴾

تو حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا یہ تو اس صورت میں ہے جب کہ اللہ تعالیٰ اپنے نور ذاتی سے تجلی فرمائے۔ اس سے حضرت ابن عباسؓ کا بھی منشاء یہی معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نور ذاتی کا مشاہدہ نہیں ہوا اور جو مشاہدہ ہواہے وہ مشاہدہ قلبی ہوا ہے اور وہ دو دفعہ ہوا ہے جیسا کہ صحیح مسلم بروایت ابو العایۃ ہے۔

(قال راہ بفوادہ مرتین ) (ص ۹۸ ج ۱)

حضرت عباسؓ نے فرمایا کہ مشاہدہ قلبی ہوا اور دو دفعہ ہوا اور نسائی میں حضرت ابوذرؓ سے بھی اسی مضمون کی روایت ہے۔

(عن ابی ذر قال رای رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ربه بقلبه ولم یرہ ببصرہ)

اس روایت کو پیش نظر رکھتے ہوئے حافظ ابن حجرؓ نے اس مسئلہ میں صحابہ کرام کے اختلاف کے بارے میں جو تطبیق بیان کی ہے وہ درست نظر آتی ہے۔

(فیمکن الجمع بین اثبات ابن عباس و نفی عائشه بان یحمل نفیھا علی رؤیة واثباته علی رؤیة القلب)(فتح الباری ص ۳۴۷ ج ۲۰)

یعنی حضرت عائشہؓ بصری کی قابل نہیں اور حضرت ابن عباسؓرؤیت قلبی کے قابل ہیں اس لحاظ سے کوئی اختلاف نہیں۔ بہر حال صحابہ کرام اس بارے میں متفق ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جمال ذات الٰہی کی رویت بصری حاصل نہیں ہوئی اور وجہ اس کی وہی ہے جو احادیث میں بیان کی گئی ہے ایک تو حدیث نورانی راہ اور دوسری حدیث (حجابه النور لوکشفه لا حرقت سبحات وجھه ما انتھی الیه بصرہ)

جمال ذات الٰہی کے مشاہدہ بصری کا ذکر ضمناً آگیا ورنہ اصل مسئلہ یہ تھا کہ یہ عقیدہ رکھنا کہ نور محمدی کو اللہ نے اپنے ذاتی نور میں سے پیدا کیا ایک ایسی جہالت ہے جو ذات الٰہی کے تقدس و تنزیہہ کے خلاف بلکہ اسلام کے اصل اصول توحید کے خلاف اور نصاریٰ کے عقیدہ تثیت کے قریب ہے۔ نصاریٰ بھی یہی کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام اس لحاظ سے کہ حضرت مریم کے پیٹ سے پیدا ہوئے۔ بشر تھے اور بشری اوصاف کے حامل تھے لیکن اس لحاظ سے کہ وہ روح اللہ ہیں وہ خداوندی صفات کے مالک ہیں۔ مردوں کو زندہ کرتے اندھوں کو بینائی بخشتے کوڑہیوں اور برص کے ریضوں کو صحت بخشتے وغیرہ وغیرہ اور اس طرح لاہوت رناسوت کے مجموعہ ہیں اسی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا (لاتنظرونی کماانظرت النصاریٰ عیسى بن ریم انما انا عبدفقولواعبداللہ و رسوله)

میرے حق میں اس طرح غلونہ کرنا جس طرح نصاریٰ نے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے بارے میں کیا۔ میں صرف بندہ ہوں پس میرے حق میں یہ کہو کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے نصاریٰ کے اس عقیدہ کے خلاف کس قدر زور دار اور بلیغ پیرایہ میں فرمایا۔

﴿لَّقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا ‎﴿٨٩﴾‏ تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا ‎﴿٩٠﴾‏ أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَٰنِ وَلَدًا ‎﴿٩١﴾‏ وَمَا يَنبَغِي لِلرَّحْمَٰنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا ‎﴿٩٢﴾‏ إِن كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَٰنِ عَبْدًا ‎﴿٩٣﴾‏ لَّقَدْ أَحْصَاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا ‎﴿٩٤﴾‏ وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا ‎﴿٩٥﴾‏... سورة مريم

یعنی تم ایسی بڑی بات زبان پر لائے ہو کہ اس کی وجہ سے کچھ بعید نہیں کہ آسمان پھٹ پڑیں اور زمین کے ٹکڑے اڑجائیں اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گرپڑیں کہ انہوں نے خدا کے لئے بیٹا تجویز کیا اور خدا کے یہ شایان شان نہیں کہ کسی کو بیٹا بنائے کیونکہ جتنے بھی آسمانوں اور زمینوں میں ہیں سب خدا کے روبرو محکوم ہو کر حاضر ہوتے ہیں اللہ نے سب کو اپنے احاطہ قدرت میں رکھا ہے اور اپنے علم سے سب کا شمار کررکھا ہے(یہ صورت حال تو دنیا میں ہے) اور قیامت کے دن سب کے سب اللہ کے سامنے تنہا تنہا حاضر ہوں گے۔ یعنی اللہ کے صفات میں حاکمیت اعلیٰ، عموم قدرت اور عموم علم، اور تمام مخلوقات کی صفات سمیت انبیاء کرام کے انقیاد فرمانبرداری احتیاج محکومیت اور بندگی ہے۔ پھر کسی شخص میں بشریت اور الویت کے دونوں صفات کیسے جمع ہوسکتے ہیں۔ یہ تو اجتماع ضدین ہوگا اور اجتماع ضدین محال ہے۔

سوال میں جس حدیث کا ذکر کیاگیاہے۔ یہ حدیث کا ایک فقرہ ہے، پوری حدیث قسطانیؒ ؒ ؒ ؒ نے کتاب المواہب اللہ نیتہ میں ذکر کی ہے قسطانی نے ذکر کی ہے نہ حضرت شارح زوقانی نے اس ی سندبیان کی ہے۔ اس لئے اصول محدثین کے مطابق جب تک اس کی سند معلوم نہ ہواس کی صحت کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا اور جب تک حدیث صحیح سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو اس پر کوئی عقیدہ مبنی نہیں ہوسکتا اب رہا اس حدیث کا متن اسے دیکھنا چاہیے کہ وہ کس حد تک دوسری صحیح احادیث سے مطابقت رکھتا ہے رکھتا ہے نیز سوال میں اس حدیث سے جو استدلال کیاگیاہے یا اس حدیث کی بنا پر جو عقیدہ قائم کیاگیاہے وہ کس حد تک صحیح ہے ۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں۔

عن جابر بن عبداللہ قال قلت یا رسول اللہ یابی انت وای اخبرنی عن اول شئی حلقه اللہ قبل الاشیاء۔ قال یا جابران اللہؓ قد خلق قبل الاشیاء نورنبیك من نورہ فجعل ذلك النوریدوربالقدرة حیث شاء اللہ ولم یکن فی ذلك الوقت لوح ولاقلم و لاجنة ولا نارولا ملك ولاسماء و الارض ولا شمس ولا قمرولا جن ولا انس فلما اراداللہ ان یخلق الخلق قسم ذلك النور اربعة اجزاء فحق عن جزء الاول القلم ومن الثانی اللوح و من الثالث العرش ثم قسم ذلك الجزء الرابع اربعة اجزاء فخلق من الاول حملة العرش ومن الثالث الجنة والنار ثم قسم الرابع اربعة اجزاء فخلق الاول نورابصدرالمومنین ومن الثانے نور قلوبہم وھی المعرفة باللہ ومن الثالث نور انفسھم وھوالتوحید لااله الااللہ محمد رسول اللہ

یعنی حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ یہ فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات میں سب سے پہلے کس چیز کو پیدا کیا۔ آپ نے فرمایا۔ اے جابر !تمام اشیاء سے پہلے تمہارے نبی کے نور کو اللہ نے اپنے نور سے پیدا کیا۔ پھر یہ نور اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ماتحت جہاں اللہ کو منظور ہوا سیر کرتا رہا اس وقت تک نہ لوح تھی نہ قلم تھا اور نہ بہشت تھی اور نہ دوزخ نہ کوئی فرشتہ نہ آسمان نہ زمین نہ سورج، نہ چاند نہ جن نہ انسان تھا اس کے بعد جب اللہ نے مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو اس نور (محمدی) کے چار حصے کردیئے پہلے حصہ سے قلم پیدا کیا دوسرے حصہ سے لوح محفوظ تیسرے حصہ سے عرش اس کے بعد چوتھے حصہ نور کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا۔ پہلے حصہ سے ملائکہ حاملین عرش پیدا کیئے گئے دوسرے حصہ سے کرسی، تیسرے حصہ سے باقی فرشتہ اس کے بعد اس کے چوتھے حصہ نور کو پھر مزید تقسیم کیا۔ اس تقسیم کے مطابق پہلے حصہ سے آسمان کو پیدا کیا دوسرے حصہ سے زمین کو تیسرے حصہ سے جنت دوزخ کو اس تقسیم کے چوتھے حصہ کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا۔ اب پہلے حصہ سے اہل ایمان کی آنکھوں کا نور پیدا کیا دوسرے حصہ سے ان کے دلوں کا نور پیدا کیا اور وہ ہے معرفت الٰہی تیسرے حصہ سے ان کے نفوس کا نور پیدا کیا یعنی نور توحید اور وہ ہے

(لااله الا اللہ محمد رسول اللہ)

اس روایت کی سند معلوم نہیں۔ اس کا متن اپنے مفہوم کے لحاظ سے صحیح روایت کے خلاف ہے۔ حضرت ابن عباسؓ مرفوعاً بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

اول شئی خلق اللہ جل ثناؤہ القلم و امرہ فکتب کل شئی یکون(بیہقی ص ۳ ج ۹)

یعنی سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا اور اسے حکم دیا کہ جو کچھ ہونے والا ہے سب لکھ دے چنانچہ اس نے سب لکھ دیا۔ اس مضمون کی حدیث جامع ترمذی ابوداؤد اور مسند امام احمد میں حضرت عبادہؓ بن صامت سے مروی ہے:

اول ما خلق اللہ القلم قال له اکتب قال رب وما اکتب قال اکتب مقادیر کل شئی حتی تقوم الاعة

سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم پیدا کیا اسے حکم دیا کہ لکھ اس نے عرض کیا کیا لکھوں فرمایا قیامت تک ہونے والی ہر چیز لکھو۔ تمام ہونے والے امور میں بعثت انبیاء پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور آپ ء کا خاتم الانبیاء ہونا بھی شامل ہے۔ اس لئے ان احادث کی بنا پر یہی کہا جائے گا کہ زمین و آسمان اور تمام جن و انس کے پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم پیدا کیا۔ جس کی تائید عبداللہ بن عمرو کی روایت سے بھی ہوتی ہے جسے مسلم نے روایت کیا ہے:

ان اللہ قدرمقادیر الخلق قبل ان یخلق السموت والارض نجمسین الف سنة وکان عرشه علی الماء

یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال قبل تمام مخلوقات کی تقدیر لکھ دی۔ اس وقت اللہ کا عرض پانی پر تھا۔

جب زمین و آسمان اور اس میں بسنے مخلوقات کی پیدائش سے پچاس ہزار سال قبل سب کی تقدیر لکھی گئی تو ظاہر ہے کہ سب سے پہلے قلم کو اللہ عز وجل نے پیدا کیا۔

اس لئے حدیث جابرؓجس کا سوال میں ذکر کیاگیا ہے، نہ صرف یہ کہ مجہول السند ہے بلکہ مذکورہ بالا صحیح احادیث کے خلاف ہے اور اس حدیث کے بھی خلاف ہے جسے امام بخاریؒ نے صحیح میں عمران بن حصین سے روایت کیا کہ کچھ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے عرض کیا ہم اس لیے حاضر ہوئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تفقہ فی الدین حاصل کریں اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کس چیز کو پیدا کیا۔ آپ نے فرمایا:

کال اللہ ولم یکن شئي قبله وکان عرشه علی الماء ثم خلق السموت الارض و کتب فی الذکر کل شئی۔۔۔ (مشکوٰة باب بدالخلق)

یعنی اللہ عزوجل ازل سے موجود ہے اور کوئی چیز اللہ سے پہلے موجود نہ تھی۔ زمین و آسمان سے پہلے اللہ تعالیٰ نے پانی پیدا کیا او آنیدہ اشیاء کا مادہ حیات بننے والا تھا۔(وجعلنا من الماء کل شئی حی) اس وقت عرش خدا وندی اس کے اوپر تھا اس کے بعد زمین آسمان پیدا کیئے اور ہر چیز کو لوح محفوظ میں لکھ دیا۔ (اس حدیث میں خلق السموت والارض کا ذکر لفظ ’’ثم‘‘ کے ساتھ کیاہے جو ترتیب زمانی کو چاہتاہے اور مقادیر کا ذکر حرف و کے ساتھ کیا ہے جو ترتیب کے لئے نہیں ہوتا۔ اس لئے پہلی روایات کے خلاف نہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زمین و آسمان کی پیدائش سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم پیدا کیا۔ یہاں مقصد خلق عرش کے بعد کی پیدائش کا ذکر بلاترتیب ہے)

عرض جس قدر صحیح روایات اول خلق کے متعلق ہیں۔ کسی میں اس کا ذکر نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اپنے نور سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نور پیدا کیا۔ اس لئے یہ حدیث تمام صحیح احادیث کے خلاف ہے۔

ایک حدیث جو واعظوں اور قصہ خوانوں نے مشہور کررکھی ہے: ’’اول ماخلق اللہ نوری‘‘ یہ محدثین کے نزدیک بالکل بے اصل بلکہ موضوع ہے۔

حدیث جابر اپنے مفہوم کے لحاظ سے ایک عجیب و غریب چیز بلکہ افسانہ ہے اب آپ حدیث جابرؓ کے مفہوم کو دیکھئے ۔ اس حدیث کے الفاظ اور اس کا ترجمہ ذکر کردیا گیا ہے اس حدیث کے مفہوم کے مطابق یہ معلوم ہوتا ہے کہ۔

۱۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نور میں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نور پیدا کیا۔

۲۔ جب اللہ عزو جل کو یہ منظور ہوا کہ مخلوق کو پیدا کرے تو اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کے چار حصے کردیئے تین حصوں سے قلم لوح محفوظ اور عرش پیدا کئے۔ یہ تقسیم اول ہوئی۔ نور محمدی کے چوتھے حصہ کو پھر تقسیم کردیاگیا۔

۳۔ تقسیم اول کے چوتھے حصہ کو پھر چار حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ اس تقسیم کے تین حصوں سے ملائکہ حاملین عرش کرسی اور باقی ملائکہ کو پیدا کیا۔ یہ تقسیم ثانوی ہوئی تقسیم ثانوی کے چوتھے حصے کو بھی تقسیم کردیاگیا۔

۴۔ تقسیم ثانوی کے چوتھے حصے کو پھر چار حصوں میں تقسیم کیاگیا۔ اس تقسیم کے تین حصوں سے آسمان زمین اور جنت و دوزخ پیدا کئے گئے یہ تیسری تقسیم ہوئی اس تقسیم کے چوتھے حصہ کو بھی تقسیم کیاگیا۔

۵۔ تیسری تقسیم کے چوتھے حصہ کو پھر چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ۔ اس تقسیم کے تین حصوں سے اہل ایمان کی آنکھوں کا نور ان کے قلوب کا نور اور ان کے نفوس کا نور پیدا کیا۔ یہ چوتھی تقسیم ہوئی۔

۶۔ اس چوتھی تقسیم کے چوتھے حصے کا ذکر نہیں کہ یہ کہاں گیا اور اس سے کیا پیدا کیا گیا۔ نہ تو صاحب مواہب لدنیہ یعنی مصنف نے اس کا ذکر کیا اور نہ شارح نے اس کا ذکر کیا۔ شارح نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اخری تقسیم کے چوتھے حصے کا ذکر نہیں اس پر کیا گزری اور اس نور سے پیدا ہوا۔ صرف اتنا کہا کہ یہ روایت سند عبدالرزاق کی ہے اس کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔

اس کے بعد شارح فرماتے ہیں کہ بیہقی نے بدالخلق (ابتداء آفرینش کا ذکر) کی حدیث ذکر کی ہے لیکن وہ اس کے خلاف ہے۔ ہم نے بیہقی کی طرف رجوع کیا تو اس میں نور محمدی کی تقسیم کا کہیں ذکر نہیں۔ بلکہ جس قدر روایت بدالخلق کے ذیل میں لکھی ہیں ان میں یہ ثابت کیاگیاہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا۔یا اس مضمون کی روایت ہیں۔ کہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے نور سے پیدا کیا اور انسان کو مٹی سے اور جنوں کو آگ سے پیدا کیا۔

اس روایت میں جس طرح خلق عالم کا ذکر کیاگیاہے۔ یہ نہ تو کتاب و سنت کے نصوص کے مطابق ہے۔ نہ علماء اسلام اور منکلمین کی تصریحات سے کوئی مناسبت رکھتا ہے۔ فلاسفایوناں کے اس عقیدہ کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے کہ میدء اول سے صرف عقل اول کا صدور ہوا اور عقل اول اس قدر کمالات سے بھرہ در ہوا اور اس سے فلک اعظم یا فلک محیط کا صدور ہوا اس سے دوسرے عقول اور افلاک پیدا ہوئے منکلمین اسلام نے اس کی تردید کی اور انہی کے دلائل سے ثابت کیا کہ ان کا یہ قائدہ (الواحدہ بصدرعنہ الا الواحد) (ایک سے ایک ہی سارا ہوسکتا ہے) جس کی بنا پر یہ عقیدہ وضع کیا گیا کہ مبدء اول سے صرف عقل اول ہی کا صدور ہوسکتا ہے۔ باطل ہے۔ اس روایت کا بھی منشاء یہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نور سے پہلے تو نور محمدی پیدا کیا پھر نور محمدی سے تمام کائنات پیدا کی۔ یہ عقیدہ اس قدر لعو اور باطل ہے کہ کسی دلیل کے پیش کرنے کی ضرورت نہیں لیکن سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان اس درجہ ضلالت و گمراہی میں مبتلا ہو رہے ہیں کہ وہ اس قسم کا عقیدہ رکھتے ہیں۔

علاوہ ازیں اہل سنت و الجماعت کی علم کلام یا عقائد کی کتب سب ہمارے سامنے ہیں۔ کیا کسی ایک کتاب میں بھی یہ عقیدہ مذکور ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سبحانہ و تعالیٰ کے نور ذاتی سے پیدا ہوئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے تمام عالم پیدا کیا۔ کیونکہ اس سے بالصراحت لازم آتا ہے کہ العیاذ باللہ اللہ تعالیٰ کے اجزاء ہیں بعض اجراء سے فرشتے بعض اجراء سے عرش و کرسی، آسمان ،زمین ، اور دیگر مخلوقات پیدا ہوئی اور یہ نہ صرف اہل سنت بلکہ تمام مسلمانوں کے عقیدے کے خلاف ہے۔ اس کی شان یہ ہے۔

ولا متبعض ولا متجزای ذی البعاض واجزاء ولا یترکب منھا ای من الا بعاض والا جزاء معافی ذالك ای التیعیض والتجزی والترکیب من الا حتیاج الی الاجاء المنافی للوجوب(شرح عقائد نسفی)

یعنی اللہ تعالیٰ کے نہ (ابعاض) اجزاء مرکبہ ہیں نہ اجزاء مفردہ ہیں اور نہ ان ابعاض و اجزاء سے مرکب ہے اس لئے کہ ان صورتوں میں اجزاء کی طرف احتیاج ثابت ہوتاہے اور احتیاج شان باری تعالیٰ کے منافی ہے اور اگر عیاذ ابا اللہ یہ تسلیم کرلیا جائے۔ جیسا کہ مذکورہ سوال روایت کا تقاضا ہے۔ کہ اللہ کے ذاتی نور سے نور محمدی پیدا کیاگیا اور اسی نور سے پھر کائنات کو پیدا کیاگیا تو ایک نور خدا مشترک یا جنس مشترک بن جائے گا اور جنس کے امتیاز کے لئے فصل بلکہ فصول کی ضرورت ہوگی جس سے امتیاز ہوسکے نور اللہ میں اور نور محمدی نور ملائکہ نور ارض و سماوات وغیرہ میں اور یہ بھی شان حق جل و علا کے خلاف ہے اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے۔

(ولایوصف بالمائیة ای الجانسة للاشیاء والمجانسه توجب التمایزعن المتجانسات بفصول مقومة فیلنم الترکیب (شرح عقائد)

یعنی اللہ تعالیٰ اتحاد فی الجنس کے ساتھ متصف نہیں ہوسکتا۔ ا س لئے کہ جنس کے لئے فصل؂۱ کاہونا ضروری ہے۔ اس صورت میں جنس کے لحاظ سے فصل کا محتاج ہوگا اور یہ دونوں چیزیں شان خداوندی کے خلاف اور بالکل بعید ہیں۔

۱؂ جنس، فصل اور قادنی لجنس اور نص مقوم یہ سب منطقی اصطلاحات ہیں اہل علم سمجھتے ہیں

عرض کسی لحاظ سے یہ عقیدہ صحیح نہیں ہوسکتا بلکہ روایت اور روایت دونوں لحاظ سے یہ غلط ہے۔ جیسا کہ اس سے پہلے حضرت ابن عباسؓ عبادہ بن صامتؓ عبداللہ عمر والعاصؓ اور عمران بن حصینؓ کی روایات کا ذکر کرچکا ہوں۔ امام بیہقی نے اپنی کتاب ’’السماء والصفات‘‘ میں بڑی تفصیل سے اس مسئلہ کا ذکر کیا ہے اور کئی ایک صحابہ کرام سے روایت بیان کی ہیں مزید استشہاد کے لیے دو چار روائتوں کا ذکرکرتا ہوں، پہلی روایت متعدد صحابہ کرام سے نقل کرتے ہیں:۔

۱۔ عن عبداللہ بن عباسؓ و عبداللہ بن مسعود وعن ناس من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فی قولہ عزوجل ھوالذی خلق لکم مافی الارض جمیعاً ثم استوٰی الے السماء فسوھن سبع سموت قال ان اللہ تبارك و تعالى کان عرشه علی الماء ولم یخلق شیئا قبل الماء فلما ارادان یخلق الخلق اخرج من الماء دخانافار تفح فوق السماء فسما علیه فسماء سماء(الحدیث ص ۲۷۲)

یعنی حضرت عبداللہ بن عباسؓ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور متعدد اصحابہ کرام سے آئیہ کریم ﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ﴾

کی تفسیر میں یہ مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا اور پانی سے پہلے کوئی چیز پیدا نہیں کی۔ جب مشیت ایزدی کا تقاضا یہ ہوا کہ مخلوقات کو پیدا کیا جائے تو پانی سے دھواں سا نکالا۔ یہ دھواں بلند ہوا۔ اس سے آسمان بنا اور اس کا نام سماء بھی اسی لئے ہوا۔ اس کے بعد زمین پہاڑ اور دوسری مخلوقات کی پیدائش کا ذکر ہے۔ دوسری روایت حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے:

۲۔ عن ابی ھریرة قال قلت یا رسول اللہ انبانی عن کل شئی قال صلی اللہ علیه وسلم کل شئی خلق من الماء (وذکر الحدیث ص ۲۷۳)

یعنی ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہر چیز کی پیدائش کے متعلق کچھ ارشاد فرمایئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر چیز پانی سے پیدا کی گئی ہے قرآن کریم کی آیت بھی اس کی تصدیق کرتی ہے۔ سورہ نور میں فرمایا:

(واللہ خلق کل دابة من ماء)(۲۵/۴۲)

اور اللہ ہی نے ہر جاندار چیز کو پانی سے پیدا کیا۔

امام بیہقی عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی روایت جسے ہم اس سے پہلے ذکر کرچکے ہیں نقل کرنے کے بعد اس کی تشریح یوں کرتے ہیں:۔

وقوله کان اللہ عزوجل ولم یکن شئی غیرہ بدل علی انه لم یکن شئی غیرہ لا الماء ولا العرش ولا غیر ھما فجمیح ذالك غیر اللہ تعالیٰ وقوله وکان عرشه علی الماء

یعنی ثم خلق الماء و خلق العرش علی الماء ثم کتب فی الذکر کل شئی و ذالك بین فی حدیث ابی رزین العقیلی ص ۲۷۰

یعنی اس حدیث کے پہلے فقرے کا معنی یہ ہے خلق عالم سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی چیز موجود نہ تھی نہ پانی نہ عرش نہ کوئی اور چیز اور حدیث کے دوسرے فقرے وکان عرشہ علی الماء کا معنی یہ ہے کہ حق سبحانہ و تعالیٰ و تقدس نے پہلے پانی پیدا کیا پھر عرش کو پانی پر پیدا کیا۔ پھر ہر چیز لوح محفوظ میں لکھ دی گئی ۔ امام بیہقی فرماتے ہیں کہ یہ مضمون ابورزین العقیلی کی حدیث میں واضح طور پر آگیاہے وہ حدیث یہ ہے۔

ِ۳۔ عن ابی رزین قلت یا رسول اللہ این کان ربنا قبل ان یخلق السموت والارض قال صلی اللہ علیه وسلم کان عماء مافوقه ھواء وماتحته ھواء ثم خلق العرش على الماء. ص ۲۷۰)

ابورزین کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ زمین و آسمان کی پیدائش سے پہلے اللہ رب العزت کہاں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلیم نے فرمایا ایک خلاتھا یا حفیف سا بادل تھا۔ اوپر بھی ہوا نیچے بھی ہوا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے عرش کو پانی پر پیدا کیا۔

لفظ عماء کی تشریع کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

فان کان فی الاصل ممدودانمعناہ سحاب رقیق ویرید بقوله فی عماء ای فوق سحاب مدبراله وعالیا علیه

یعنی اگر عماء ممدود ہے تو اس کا معنی ہلکا بادل اور فی بمعنی علی ہوگا جیسا کہ آیات

﴿ءامنتم من فی السماء ﴾یعنی ﴿من فوق اسماء﴾اور﴿لاصلینکم فی جذوع النخل میں (علی جذوع النخل)ہے

تو معنی حدیث کا یہ ہوا۔ کہ اللہ تعالیٰ ہواؤں اور بادلوں کے اوپر تھا۔ اور اگر لفظ عما بغیر مد کے یعنی مقصور ہو تو اس کا معنی ہوتا ہے۔ لاشئی اب معنی حدیث کا یہ ہوگا کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ موجود تھے اور کوئی دوسری چیز موجود نہ تھی۔ پھر اس کے بعد فرمایا ’’مافوقہ ھوا وماتحۃ ہوا‘‘ اس صورت میں ماًنفی کے لئے ہو گا یعنی جب کوئی چیز نہ تھی تو نہ اوپر ہوا تھی نہ نیچے ہوا تھی یعنی کچھ نہ تھا حق جل و علاکی ذات پاک تھی اور کوئی مخلوق نہ تھی جب اللہ نے مخلوق پیدا کرنی چاہی تو پہلے پانی کو پھر عرش کو پیداکیا اور اللہ جل شانہ کا عرش پانی پر تھا۔

ان روایات کے ساتھ اگر اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں کہ محدثین کرام نے بدء خلق کے باب یا عنوان کے ذیل میں جہاں یہ احادیث نقل کی ہیں جو سور بالا میں بیان کی گئی ہیں وہاں اس مضمون کی روایات بھی بیان کی کہ انسان کی پیدائش مٹی سے ہے یہ روایات حضرت ابو موسیٰ اشعری، حضرت ابن عباسؓ اور حضرت عائشہ سے مروی ہے۔ صحیح مسلم میں ہے :

عن عائشِة رضی اللہ عنھا قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم خلقت الملئکة من نور و خلق الجان من مارج من ناروخلق ادم علیه السلام مماوصف لکم

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، فرشتے نور سے پیدا کئے گئے ہیں اور جنات آگ سے اور آد علیہ السلام جیسا کہ تمہیں بنایاگیا ہے یعنی قرآن کریم میں کہ مٹی سے پیدا کئے گئے قرآن کریم میں انسان کا مٹی سے پیدا کیا جانا متعدد مقامات پر مذکور ہے۔ یہاں سورہ الحجر کی آیت لکھی جاتی ہے۔

﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ ‎﴿٢٦﴾‏ وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ مِن نَّارِ السَّمُومِ ‎﴿٢٧﴾‏ الحجر

یعنی ہم نے انسان کو کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا(یعنی پہلے تو گارے کا خوب خمیر کیا کہ اس میں بو آنے لگی۔ پھر وہ خشک ہوگیا۔ اس قدر خشک کہ اس سے کھنکھنانے کی آواز آنے لگی۔ پھر اس خشک گارے سے انسان کا پتلا تیار کیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت کی دلیل ہے) اور جنوں کو اس سے بھی پہلے بے دھوئیں کی آگ سے (دوسری آیت میں فرمایا)

﴿وَخَلَقَ الْجَانَّ مِن مَّارِجٍ مِّن نَّارٍ ‎﴿١٥﴾ الرحمان

(اور جنوں کو آگ کے شعلے سے)یعنی بغایت لطیف آگ سے کہ وہ اجزآء وخانیہ سے پاک تھی پیدا کیا۔

اس کے بعد فرمایا کہ فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ جب میں ایک انان کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے پورا بنا لوں اور اس میں اپنی طرف سے جان ڈال دوں تو تم سب اسے سجدہ تعظم بجا لانا چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے بنالیا تو تمام فرشتوں نے اسے سجدہ کیا مگر ابلیس نے ازراہ تکبر سجدہ نہ کیا اور یہ کہا کہ میں ایسا نہیں ہوں کہ انسان جس کو تونے کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا سجدہ کروں۔ ارشاد ہوا کہ مٹی سے جس انسان کو میں نے پیدا کیا ہے۔ اگر تمام ملائکہ کے سجدہ کے بعد بھی تو اس کی عظمت کا قائل نہیں ہوا تو آسمان سے نکل جا اور تو آج سے رائدہ درگاہ ہے اور قیامت تک تجھ پر لعنت برستی رہے گی۔

غرض حضرت عائشہؓ کی حدیث اور قرآن کریم کی آیات سے یہ واضح ہوتاہے کہ زمین و آسمان کی پیدائش کے بعد انسان کی تخلیق ہوئی اور انسان کی پیدائش مٹی سے ہوئی اور آپ نے بروایت ترمذی یہ ارشاد فرمادیا۔

الناس کلھم بنو ادم وادم من تراب

تمام لوگ حضرت آدم کی اولاد ہیں اور حضرت آدمؑ کی پیدائش مٹی سے ہوئی۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے جہاں اور بہت سے کلمات حکمت بیان فرمائے یہ بھی فرمایا:

ایھاالناس ان ربکم واحد وان اباکم واحد، کلکم لا دم وادم من تراب، اکرمکم عنداللہ اتقکم ولیس لعربی علی عجمی فضل الابالتقوی

اے لوگو! تم سب کا رب ایک ہے اور تم سب کا باپ بھی ایک ہے، تم سب اولاد آدم ہو اور آدم کی پیدائش مٹی سے ہے تم میں سے زیادہ معزز وہ شخص ہے جو تم سب میں سے زیادہ متقی و پرہیز گار ہے کسی کو عربی ہونے کی وجہ سے کسی عجمی پر فضیلت نہیں۔ اگر فضیلت ہے تو صرف تقویٰ اور اعلیٰ کردار کی۔

پس صحیح عقیدہ جو تمام اہل حدیث کا ہے یہ ہے کہ تمام انسان وہ عوام ہوں یا انبیاء و رسل سب کے سب اولاد آدم ہیں اور آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا ہوئے ہیں جیسا کہ قرآن کریم اور صحیح احادیث سے واضح ہوچکا ہے اس لئے سید نا ونبینا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاکی ہیں۔ اور اسی لحاظ سے قرآن کریم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلان کرایا گیا کہ

(قل انما انا بشر مثلکم)

کہہ دیجئے کہ میں بشریت میں تم جیسا ہی ہوں۔

لیکن اس کے ساتھ مجھے یہ سرداری اور فضیلت بخشی گئی ہے میں اللہ کا رسول ہوں اس کی وحی میرے پاس آتی ہے اور میں اس کا امین و مبلغ ہوں۔

خاکی ہوتے ہوئے روحاجی مدارج کی جو ترقیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوئیں۔ یہ عزوشرف اور عظمت کا وہ مقام ہے جس میں کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شریک و سہیم نہیں۔

بلغ العلی بکماله کشف الدجی بجماله

حسنت جمیع خصالیه صلو اعلیہ واله

العبدالمذنب الراجی الرحمۃ ربہ الودود۔ محمد داؤد عزنوی

الا عتصام جلد نبر۹ شمارہ نمبر۲۸، نمبر۲۹، نمبر۳۱

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 29-50

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ