سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(85) حدیث میں ہے، عورت کی نماز مسجد کی بجائے گھر میں افضل ہے

  • 3778
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 8205

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

حدیث میں ہے، عورت کی نماز مسجد کی بجائے گھر میں افضل ہے، بیت اللہ، مسجد نبوی اور بیت المقدس۔ ان تین مساجد میں نماز پڑھنے کی فضیلت احادیث میں بہت بیان ہوئی ہے، اس لیے ہم اہل اسلام دور دراز سے سفر کر کے ان مساجد میں نمازیں پڑھ کر ثواب حاصل کرتے ہیں سوال یہ ہے کہ یہ فضیلت مردوں کے لیے خاص ہے یا عورتیں بھی اس کو حاصل کر سکتی ہیں یعنی جب عورتیں مکہ معظمہ جائیں تو ان کے لیے بیت اللہ میں نماز پڑھنا بہتر ہے یا اپنی قیام گاہ میں ثواب کس جگہ زیادہ ہوگا، اسی طرح عورتیں مدینہ منورہ جائیں تو ان کی نماز مسجد نبوی میں افضل ہے یا اپنی قیام گاہ میں کتاب وسنت کی روشنی میں اس مسئلہ کی وضاحت فرمائی جائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

الحمد للہ رب العالمین والصلوٰة والسلام علی سید المرسلین اما بعد فاقول وباللہ التوفیق۔

خاص طور پر اس صورت مسئولہ کی وضاحت کسی دلیل شرعی میں موجود نہیں ہے، اس لیے اصل مسئلہ (عورت کو مسجد میں نماز پڑھنا افضل ہے یا گھر میں) واضح کرنے سے یہ مسئلہ ظاہر ہو جائے گا، پہلے یہ جاننا چاہیے کہ نفس مسئلہ میں عورت کو مسجد میں نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں، یہ اختلاف مابین العلماء ہے، بعض مطلقاً جائز رکھتے ہیں اور بعض نے جوان عورتوں کو منع کیا ہے اور عجائز یعنی بوڑھی عورتوں کو جائز رکھا ہے اور بعض نے مطلقاً منع کیا ہے، اور وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ زمانہ فتنہ فساد کا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتوں کو دین سیکھنے کے لیے جانے کی ضرورت تھی، اب وہ ضرورت نہیں رہی، اس لیے منع ہے، جب یہ مسئلہ مختلف فیہ ہوا تو اس میں حق معلوم کرنا ضروری ہے کہ مسائل مختلفہ میں حق ایک ہی بات ہوتری ہے کیونکہ حق میں تعدد نہیں ہے، قرآن ناطق ہے: فماذا ابعد الحق الا الضلال پس حق بات یہ ہے کہ عورتوں کو مسجد میں عشاء اور فجر کے وقت نماز پڑھنے کے لیے جانا جائز ہے، منتقی میں یہ حدیث وارد ہے، عن ابی هریرة ان النبی صلی اللہ علیه وسلم قال لا تمنعوا اماء اللہ مساجد اللہ ولیخرجن تفلات۔ (رواہ احمد وابوداؤد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! تم اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے منع نہ کرو۔ لیکن جب وہ نماز کے لیے مسجد کی طرف نکلیں تو خوشبو لگائے ہوئے نہ ہوں۔ دوسری حدیث منتقی میں یہ ہے: عن ابن عمرؓعن النبی صلی اللہ علیه وسلم قال اذا استاذنکم نساوکم باللیل الی المسجد فاذنوا لہن، (رواہ الجماعة الا ابن ماجة) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جب تمہاری عورتیں رات کو مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے اجازت طلب کریں تو تم ان کو اجازت دے دو۔‘‘ یہ حکم علی الاطلاق جوان بوڑھی ہر عورت کو شامل ہے کہ وہ خاوند سے اذن لے کر مسجد میں نماز پڑھنے جا سکتی ہے، تعامل عہد نبوی اور صحابہ میں یہی تھا کہ عشاء اور فجر میں عورتیں مسجد نبیؐ میں نماز پڑھنے کے لیے جاتی تھیں۔ بخاری میں ہے کہ ایک مرتبہ سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز میں تاخیر فرمائی حتیٰ کہ حضرت عمرؓ نے آپ کو آواز دے کر کہا نام النساء والصبیان کہ عورتوں اور بچوں کو نیند آرہی ہے، جلدی تشریف لائیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور نماز پڑھائی۔ اسی طرح بخاری میں یہ حدیث ہے کہ عورتیں سلام پھیرتے ہی چلی جاتی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر لوگ جب تک خدا چاہتا بیٹھے رہتے، پھر جب آپؐ کھڑے ہوتے تو سب لوگ بھی کھڑے ہو جاتے تھے۔ اور مسند احمد میں حدیث ہے: لا خیر فی جماعة النساء الا فی المسجد۔ یعنی مسجد کے علاوہ عورتوں کے لیے جمع ہونا ٹھیک نہیں ہے، حدیث میں ہے حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اپنے بیٹے بلالؓ کو کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: لا تمنعوا النساء حظوظهن من المساجد اذا استاذنکم۔ کہ عورتوں کو مسجدوں میں ثواب کا حصہ حاصل کرنے سے مت روکو، جب وہ اذن طلب کریں تو منع نہ کرو، بلالؓ نے کہا قسم بخدا! ہم تو ان کو روکیں گے، نہ جانے دیں گے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اس کی طرف متوجہ ہوئے، اس کو سخت برا بھلا کہا اور سینہ میں مارا اور کہا میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سناتا ہوں کہ عورتوں کو مسجد سے نہ روکو اور تو کہتا ہے ہم روکیں گے۔ راوی بیان کرتا ہے کہ اس کے بعد حضرت عبداللہؓ نے اپنے بیٹے سے آخر دم تک کلام نہ کی، اللہ اکبر صحابہ کرامؓ میںا تباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جذبہ کتنا بلند تھا اور ان کی دینی غیرت کا یہ عالم تھا کہ جب اپنے بیٹے نے حدیث نبویؐ کا اپنی رائے سے مقابلہ کیا تو فوراً اس کا قطعی بائیکاٹ کر دیا، ان احادیث سے ثابت ہوا کہ عورتوں کو خاوند کے اذن سے زینت اور خوشبو لگائے بغیر مسجد میں جانا جائز ہے، باقی رہا زمانہ ساز لوگوں کا یہ کہنا کہ اب فتنہ کا دور ہے، اس لیے عورتوں کو مسجد میں جانا منع ہے تو یہ خیال بھی سراسر باطل ہے، عہد نبویؐ میں بھی ایسا فساد ہوا تب بھی آپؐ نے عورتوں کو مسجد میں جانا منع نہ فرمایا چنانچہ حدیث میں ہے: ان امراۃ خرجت علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ترید الصلوۃ فتلقہا رجل فتجللہا فقضی حاجتہ منہا الحدیث۔ یعنی عہد نبویؐ میں ایک عورت اپنے گھر سے مسجد میں نماز پڑھنے کو نکلی راستے میں ایک شخص نے اسے پکڑ کر زنا بالجبر کیا اور بھاگ گیا۔ مفصل واقعہ ترمذی میں ہے اس واقعہ کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو مسجد میں جانے سے منع نہیں فرمایا۔ تو اب مقلدین اور اہل الرائے حضرات کا حیلے بہانوں سے عورتوں کو مسجدوں میں جانے سے روکنا باطل ہوا۔ اب رہا یہ مسئلہ کہ عورتوں کو مسجد میں نماز پڑھنا افضل ہے یا گھر میں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ عورتوں کو اپنے گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے، چنانچہ حدیث میں ہے: عن ابن عمرؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لا تمنعوا نساء کم المساجد بیوتهن خیرلهن۔ (رواہ ابوداود) یعنی ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنی عورتوں کو مسجدوں میں نماز پڑھنے سے نہ روکو، لیکن ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں۔‘‘ (مشکوٰۃ) دوسری حدیث منتقی میں: عن ام سلمة ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال خیر مساجد النساء قعر بیوتهن۔ (احمد) یعنی ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتوں کی بہترین مسجدیں گھروں کا اندرونی حصہ ہے۔‘‘

یہ دونوں حدیثیں اس مسئلہ پر بعبارۃ النص دلالت کرتی ہیں کہ بہ نسبت مسجد کے عورتوں کو اپنے گھروں میں نماز پڑھنا بہتر اور افضل ہے، مشکوٰۃ میں بروایت ابوداؤد یہ حدیث ابن مسعودؓ سے آتی ہے:

((قال النبی صلی اللہ علیه وسلم صلوة المراة فی بیتها افضل من صلوتها فی حرجتها وصلوٰتها فی مخدعها افضل من صلوٰتها فی بیهتا)) (رواہ احمد)

یعنی ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت کی نماز اپنی کوٹھڑی میں افضل ہے اس کے گھر سے اور اندر کی چور کوٹھری میں پڑھنی بہتر ہے، اس کے گھر سے۔‘‘

ان احادیث میں خیر اور افضل کا لفظ صاف ناطق ہے کہ عورت کو گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے اور گھر میں بھی جس قدر اندر کی کوٹھڑیوں میں نماز پڑھی جائے گی، جس سے ستر اور اخفاء بڑھے گا، نماز میں فضیلت پائی جائے گی، یہ حکم عام ہے، خواہ مسجد حرام ہو یا بیت اللہ، مسجد نبوی ہو یا مسجد اقصیٰ، چنانچہ نیل الاوطار جلد ثالث ص ۱۳۲ میں یہ حدیث وارد ہے:

((اخرج احمد والطبرانی من حدیث ام حمید الساعدیة انہا جائت الی رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فقالت یا رسول اللہ انی احب الصلوٰة معك فقال صلی اللہ علیه وسلم قد علمت وصلوتك فی بیتك خیرلك من صلوٰتك فی حجرتك وصلوٰتك فی دارك خیرلك من صلوٰتك فی مسجد قومك وصلوٰتك فی مسجد قومك خیرلك فی من صلوٰتك فی مسجد الجماعة قال الحافظ واسنادہ حسن))

یعنی ’’امام احمد اور طبرانی رحمہما اللہ نے ام حمید ساعدیہؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ حضورؐ میںچاہتی ہوں کہ آپ کے ساتھ نماز پڑھا کروں۔ آپ نے فرمایا: تو جانتی ہے کہ تیری نماز کوٹھڑی میں بہتر ہے، تیری اس نماز سے جو تو حجرے میں پڑھے اور حجرہ کی نماز بہتر ہے اس نماز سے جو گھر کے آنگن میں ادا کی جائے اور تیری آنگن کی نماز بہتر ہے اس نماز سے جو محلہ کی مسجد میں پڑھے اور محلہ کی مسجد میں تیری نماز بہتر ہے اس نماز سے جو جامع مسجد میں ہے۔‘‘

حافظ ابن عبدالبر نے استیعاب جلد ۷ ص ۷۹۱ میں یہ روایت ذکر کی ہے اور اس کے آخیر میں یہ الفاظ زیادہ ہیں:

((وصلوتك فی مسجد قومك خیر لك من صلوتك فی مسجدی قال فامرت فبنی لها مسجدا فی اقصی شئی من بیتہا اظلمة فکانت تصلی فی فیه حتی لقیت اللہ عزوجل))

یعنی ’’تیری وہ نماز جو محلہ کی مسجد میں پڑھی جاتی ہے، اس نماز سے بہتر ہے جو میری مسجد میں پڑھی جائے۔‘‘

راوی نے بیان کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سن کر ام حمید ساعدیہؓ نے حکم دیا کہ اس کے لیے گھر کے انتہائی اندرونی گوشہ میں (جہاں بہت اندھیرا تھا) مسجد بنائی جائے، چنانچہ اسی مسجد میں وہ آخری دم تک نماز پڑھتی رہی، حتیٰ کہ وہ فوت ہو کر اللہ عزوجل سے ملاتی ہوئی۔ امام شوکانیؒ اس مسئلہ پر بحث کے بعد فرماتے ہیں: صلوتہن علی کل حال فی بیوتہن افضل من صلوتہن فی المساجد۔ یعنی ان نصوص سے ثابت ہوا کہ ہر حال میں عورتوں کی وہ نماز جو گھروں میں پڑھی جاتی ہے اس نماز سے افضل ہے جو مسجدوں میں پڑھی جاتی ہے۔

اب اس وضاحت کے بعد سائل کی صورت مسئولہ کا حکم بھی خوب ظاہر ہوگیا کہ مسجد حرام، مسجد نبوی، مسجد اقصیٰ، مسجد جامع، مسجد محلہ جن میں مردوں کے لیے (بہ نسبت گھروں میں نماز پڑھنے کے کئی درجے فضیلت ہے) عورتوں کے لیے گھر میں نماز پڑھنا ان تمام مسجدوں میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور اس کی علت یہ ہے کہ عورت کے لیے ستر اور مردوں سے اخفاء ضروری ہے، وہ جس قدر بھی پایا جائے گا نماز میں فضیلت پائی جائے گی۔

باقی رہا، حج بیت اللہ اور زیارت مسجد نبویؐ کا وقتی مسئلہ سو اس میں یہ سمجھنا چاہیے کہ حج وعمرہ میں طواف کرنا ضروری ہے تو لامحالہ بیت اللہ اور حرم میں جانا پڑے گا، تو حج اور عمرہ کرنے والی عورت مسجد میں جانا چاہیے اسی طرح جو عورت مسجد نبویؐ میں گئی اور اس کا ارادہ روضہ نبویؐ کی زیارت کا بھی ہے تو وہاں پہنچنے پر اس کو مسجد نبویؐ میں نماز پڑھنے کا درجہ حاصل کرنا چاہیے، یہ ایک وقتی بات ہے، ہاں جب مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ میں مقیم ہو جائے تو اس کی قیام گاہ ان شہروں میں کسی جگہ مقرر ہوگئی، پھر اس کو اپنی پردہ دار قیام گاہ ہی میں نماز پڑھنا افضل ہے، ہاں کسی وقت ان مسجدوں کا ثواب لینے کے لیے جائے تو یہ جائز ہے مگر افضل اپنے گھر اور قیام گاہ ہی میں ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اما حمید ساعدیہؓ کو اپنے ساتھ جماعت مسجد نبویؐ میں نماز پڑھنے سے افضل اس نماز کو بتایا جو گھر کے کسی گوشہ میں پڑھی جاتی ہے، جس پر ام حمیدؓ نے عمل کیا اور مسجد نبویؐ میں نماز پڑھنی ترک کر دی۔

یہ میری تحقیق ہے باقی اگر کوئی عالم اس کے خلاف مسلک رکھ کر کوئی ثبوت پیش کردے گا تو بندہ رجوع کر لے گا، ورنہ مسلک یہی صحیح ہے۔ ہذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب (عبدالقادر عارف حصاری، اخبار تنظیم اہلحدیث جلد ۱۷ ش ۲۲ ص ۲۶ ۱۹۶۵ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 08 ص 102-106

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ