سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(66) کیا عورت پر فرضیت حج کے لیے اس کے ساتھ محرم کا ہونا بھی شرط ہے

  • 3759
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1133

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

کیا عورت پر فرضیت حج کے لیے اس کے ساتھ محرم کا ہونا بھی شرط ہے، جیسے زاد دراحلہ یعنی اگر اس کے ساتھ جانے والا شوہر یا محرم موجود نہ ہو تو عورت پر حج فرض ہوگا یا نہیں؟

۲۔ اگر عورت بغیر محرم کے حج کرآئے تو کیا فرضیت حج ساقط ہو جائے گی یعنی پھر اگر کبھی محرم اس کے ساتھ جانے والا ہو اور زاد دراحلہ بھی ہو تو اس پر حج فرض تو نہ ہوگا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 ۱۔ امام احمد اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک عورت پر فرضیت حج کے لیے شوہر یا محرم کا موجود ہونا زاددراحلہ کی طرح شرط ہے بغیر شوہر یا محرم کے وجود کے عورت پر حج فرض نہیں ہوگا لیکن اگر وہ بغیر محرم یا شوہر کے حج کو چلی جائے تو امام احمد کے نزدیک یہ حج اس کو کفایت کر جائے گا۔

ان دونوں اماموں کے نزدیک عورت کے حق میں استطاعت مشروط فی القرآن سے مراد زاد ودراحلہ اور محرم کا مجموعہ ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((لا تحج امراة الا ومعها محرم فقال رجل یا نبی اللہ انی کتتبت فی غزوة کذا وکذا الحدیث اخرجه البزار عن ابن عباس قال الحافظ فی الدرایة واخرجه الدارقطنی بنحوہ واسنادہ صحیح وهو فی الصحیحین من هذا الوجه بلفظ لا تسافر انتہی، وقال فی الفتح صحح حدیث الدارقطنی ابو عوانة))

علامہ شوکانی کا میلان اسی قول کی طرف ہے کما لا یخفی علی من طالع النیل،  امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کے نزدیک عورت کے لیے زاد دراحلہ کے ساتھ محرم یا شوہر کی ضرورت تو ہے لیکن جس عورت کا خاوند یا محرم موجود نہ ہو یا ہو لیکن ساتھ جانے سے انکار کر دے یا جانے سے عاجز ومعذور ہو تو ایسی عورت دیندار ثقہ عورتوں کی جماعت کے ساتھ جو اپنے اپنے شوہروں یا محرموں کے ساتھ حج کو جا رہی ہوں چلی جائے۔

ان دونوں اماموں کے نزدیک ثقہ دیندار عورت کی جماعت شوہر یا محرم کے قائم مقام ہو جائے گی، یعنی جس عورت کو زاد دراحلہ پر قدرت ہو اور محرم یا شوہر موجود نہ ہو لیکن مومن ثقہ عورتوں کی جماعت عازم حج موجود ہے تو اس پر حج فرض ہو جائے گا، غرض کہ ان کے نزدیک عورت پر فرضیت حج کے لیے محرم یا شوہر شرط نہیں ہے۔ کما صرح ابن راشد والنووی وابن قدامة والبغوی والد رد یرو البر سوقی وعیاض وغیرهم والیه ذهب ابن حزم، اس دوسرے مذہب پر نو دلیلیں پیش کی جاتی ہیں من شاء الوقوف علیها فلیراجع المحلی ص ۵۰ ج۷ لابن حزم والنیل للشوکانی والمغنی لابن قدامة والفتح للحافظ وقد اجاب عن بعضها اصحاب القول الاول واغمضوا عن بعضہا لکونها عقیمة عن الجواب۔

میرے نزدیک دوسرا مذہب راجح ہے، یعنی وہ عورت جو زاد دراحلہ پر قدرت رکھتی ہے تو لیکن اس کا محرم یا خاوند موجود نہ ہو، وہ دیندار متقی عورتوں کے ساتھ جو اپنے شوہروں یا محرموں کی معیت میں حج کو جا رہی ہوں، چلی جائے لوقوع اجماع الصحابہ فی عہد عمرؓ علی جواز سفر المرأۃ للحج من غیر زوج او محرم رہ گئی، حضرت ابن عباسؓ کی مرفوع حدیث لا تحج امراة الا ومعها محرم تو اولاً یہ حدیث صحاح میں بجائے، اس لفظ کے لا تسافر امراۃ کے لفظ کے ساتھ مروی ہے، صرف بزار اور دارقطنی کی روایت میں لاتحج کا لفظ وارد ہے اور اس سند بقول حافظ اگر یہ صحیح ہے لیکن صحت سند صحت متن کو مستلزم نہیں ہے اور ثانیاً اگر یہ لفظ لا تحج محفوظ ہو تو اس کو نفلی حج پر محمول کریں گے لتجتمع الروایات (محدث دہلی ج ۱۰ ش ۱)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 08 ص 79

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ