سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(58) حج بدل پر علمی تبصرہ

  • 3751
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 1475

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

کیا حج بدل وہی شخص کر سکتا ہے جو پہلے اپنا حج کر چکا ہو؟ اور کیا حج بدل غیر مستطیع کر سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسوله الکریم، امابعد! حج کی فرضیت میں کوئی اختلاف نہیں لیکن استطاعت دو طرح پر ہے (۱)استطاعت مالی (۲)استطاعت بدنی جس کو دونوں حاصل ہوں، اس کو بنفسہ حج کرنا فرض ہے اور جو مستطیع بالمال ہو اور مستطیع بالنفس نہ ہو، جو کئی عذر کی بنا پر ہوتا ہے، اس پر فرض ہے کہ حج بدل کرائے، حج بدل کرانے سے معذور کی طرف سے حج اسلام ادا ہو جاتا ہے، لیکن عذر صحیح ہو، مرض مانع سفر جو مایوس الصحت ہو، بڑھاپا جس کے باعث سواری وغیرہ پر بیٹھنا محال ہو۔

یہ مسئلہ کتب حدیث میں واضح طور پر موجود ہے، جس کے یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں، کلام اس امر میں ہے، کہ جس شخص کو حج بدل کے لیے بھیجا جاتا ہے، اس پر فرض ہے کہ اس نے اپنا حج ادا کیا ہو یا نہیں؟ اس کے متعلق ایک حدیث پیش کی جاتی ہے، جو ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔

((قال ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم سمع رجلا یقول لبیك عن شبرمة، قال من شبرمة قال اخ لی او قریب لی قال احججت عن نفسك قال لا قال حج عن نفسك ثم حج عن شبرمة)) (رواہ الشافعی وابوداود وابن ماجة)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو شبرمہ کی طرف سے لبیک پکارتے ہوئے سنا، فرمایا: شبرمہ کون ہے؟ کہا، میرا بھائی ہے، یا کہا، میرا قریبی ہے، فرمایا: کیا تو نے اپنی طرف سے حج کیا ہے؟ کہا نہیں، فرمایا: پہلے اپنی طرف سے حج کر پھر شبرمہ کی طرف سے کر۔‘‘

بلا شبہ اس حدیث سے نکلتا ہے کہ حج بدل کرنے والے کو لازم ہے کہ پہلے اپنا حج کرے۔ پھر دوسرے کی نیابت کرے، اکثر اہل علم کے نزدیک اسی طرح ہے:

((قال صاحب السبل وهذا قول اکثر الامة انه لا یصح ان یحج عن غیرہ من لاحج عن نفسه مطلقا مستطیعا کان اولا، لان ترك الاستفصال والتفریق فی حکایة الاحوال دال علی العموم ولان الحج واجب فی اول سنة من سنی الامکان فاذا مکنه فعله عن نفسه لم یجز ان یفعله عن غیرہ لان الاول فرض والثانی نفل کمن غلبه دین وهو مطالب به ومعه دراهم بقدرہ لم یکن له ان یصرفہا الا الی دینه وکذلك کلما احتاج ان یصرف الی واجب عنه فلا یصرفه الی غیرہ))

’’اکثر امت کا مذہب یہی ہے کہ جس نے اپنا حج نہ کیا ہو، اس کا دوسرے کی طف سے حج صحیح نہیں خواہ یہ کرنے والا اپنے حج کے لیے خرچ کی طاقت رکھے یا نہ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترک استفصال کیا۔ یعنی اس شخص سے دریافت نہیں فرمایا کہ تو اپنے خرچ سے حج کی طاقت رکھتا ہے، یا نہیں؟ اور ایسے حالات میں دریافت نہ کرنا، یہ اس بات کی دیل ہے کہ مسند عام ہے، خواہ طاقت رکھے یا نہ دونوں صورتوں میں اس کا حج دوسرے کی طرف سے صحیح نہیں۔ نیز حج استطاعت کے اول السنہ میں واجب ہے، یعنی جب انسان کو حج کی ادائیگی کا موقع ملے تو اسی سال حج اس پر لازم ہے تو ایسے حال میں وہ دوسرے کی طرف سے کیوں کر سکتا ہے؟ کیونکہ اپنی طرف سے حج فرض ہے اور دوسرے کی طرف سے نفل ہے، جیسے ایک شخص مقروض ہو اور قرض خواہ مطالبہ کرتا ہو اور اس کے پاس اتنے پیسے بھی ہوں کہ اس کا قرض ادا ہو جائے تو اس کو جائز نہیں کہ یہ پیسے کسی اور کے قرض میں دے دے۔ اسی طرح جو شئے اپنے واجب کی ادائیگی میں اس کو خرچ کرنی چاہیے، وہ دوسری جگہ خرچ نہیں کر سکتا۔‘‘

مگر بندہ کے نزدیک اس طرح نہیں بلکہ حج بدل کرنے والا اگر مستطیع بالنفس ہونے کے ساتھ مستطیع بالدینار والدرہم بھی ہے تو اس پر فرض ہے، پہلے اپنا حج کرے، پھر دوسرے کا۔ اگر غریب ہے تو وہ حج کر سکتا ہے کیونکہ اس کو اپنا حج دریں غربت و فقر ممکن ہی نہیں۔ جب تک دوسرا اس کو خرچ نہ دے اور وہ دوسرا اس کو اپنے حج کے لیے دیتا ہے، نہ کہ اس کے لیے۔ گویا رقم اس کے پاس حج کے حق میں امانت ہے، اس کو اپنے حج کے لیے خرچ کرنا کسی طرح جائز نہیں۔ نیز اس پر اپنا فرض ہی نہیں۔ اس کی توضیح کے لیے چند ایک حدیثیں عرض کرتا ہوں تاکہ فہم مرام میں کوئی دقت نہ ہو:

((عن ابن ابن عباسؓ قال اتی رجل النبی صلی اللہ علیه وسلم لو کان علیہا دین اکنت قاضیه قال نعم قال فاقض دین اللہ فهوا حق بالقضاء)) (متفق علیه)

’’ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا، میری بہن نے حج کرنے کی نذر مانی تھی اور وہ نذر پوری کیے بغیر فوت ہوگئی ہے، کیا میں اس کی نذر پوری کروں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر وہ مقروض ہوتی تو تو اس کا قرض ادا کرتا؟ کہا: ہاں۔ فرمایا: پس قرض اللہ کا ادا کر، کیونکہ وہ ادائیگی کا زیادہ مستحق ہے۔‘‘

اسی طرح مسلم جلد اول ص ۳۶۲ میں ایک حدیث نذر کے روزوں کے متعلق آئی ہے:

((عن ابن عباسؓ قال جاء ت امرأة الی رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فقالت یا رسول اللہ ان امی ماتت وعلیها صوم نذر افا صوم عنہا قال ارایت لو کان علی امك دین فقضیة اکان یودی ذالك عنہا قالت نعم قال فصومی عن امك)) ۱؎

’’ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میری ماں فوت ہوگئی اور اس پر نذر کا روزہ تھا، کیا میں اس کی طرف سے روزہ رکھوں؟ فرمایا: اگر تیری ماں پر قرض ہوتا اور تو ادا کرتی تو کیا اس سے اس کا قرض ادا ہو جاتا؟ کہا: ہاں، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی طرف سے روزہ رکھ۔‘‘

۱؎ اس حدیث میں بھی ترک استفصال ہے جیسا کہ حدیث ابن عباسؓ میں شبرمہ کے واقعہ میں ہے۔

اسی طرح اور بھی کئی واقعات میں ہیں، پہلی حدیث میں سائل کی ہمشیرہ پر نذر حج ہے، جو اس پر فرض تھی، دوسری حدیث میں سائلہ کی ماں پر نذر کا روزہ ہے، جو اس نے از خود فرض کر لیا تھا، مجھے اب بھی خطرہ ہے کہ کہیں قارئین حضرات کو غلط فہمی نہ ہو جائے۔ لہٰذا یوں سمجھئے کہ ان دونوں حدیثوں میں سائل اور میت کا حج اسلام یا روزہ رمضان وغیرہ کا جھگڑا نہیں بلکہ یوں جانئے کہ حج اسلام یا صوم رمضان سے سائل اور میت دونوں فارغ ہیں اور دونوں سائل پر اپنی نذر حج یا اپنی نذر روزہ یا کفارہ وغیرہ کا ہرگز نہیں۔ بلکہ وہ اس وقت ان دونوں رکنوں سے ہر طرح آزاد ہیں۔ دریں صورت یہ حج اور روزہ میت نے از خود اپنے نفس پر نذر مان کر فرض کر لیے تھے اگر اس صورت میں حج بدل کرنے والے کو یا روزہ بدل کرنے والے کو کوئی کہے کہ پہلے اپنا حج کر یا روزہ رکھ تو کیا بجا ہے؟ ہرگز نہیں میرے گمان میں کوئی ہوش مند انسان ایسا نہیں کہہ سکتا۔ پس غیر مستطیع بالدراہم کی بعینہٖ یہی صورت ہے اور اس کو کہنا بھی ایسا ہی ہے کیونکہ اس پر حج فرض ہی نہیں ہوا، لہٰذا حدیث شبرمہ کی عمومیت صحیح نہیں۔

مسئلہ مذکور پر صرفیوں کے اصول پر تبصرہ

صرفیوں کے ہاں تین حروف ہیں، واؤ، الف اور یا  حروفِ علت ہیں، بمنزلہ معذور آدمیوں کے ہیں ان پر جب کوئی حرکت آجاتی ہے، جس کے بار کی وہ طاقت نہیں رکھتے تو صرفی اس حرکت کو نقل کر کے صحیح حرف کو جو بمنزلہ تندرست انسان کے ہے، دے دیتے ہیں، لیکن اس کی دو صورتیں ہیں یا تو وہ حرف صحیح متحرک ہوتا ہے یا ساکن۔ جب وہ متحرک ہوتا ہے تو اس کی حرکت دور کیے بغیر حرف علت کی حرکت اس کو نہیں دیتے چنانچہ قیل ماضی مجہول میں کہتے ہیں۔

قیل دراص قول هود کسر بر واؤ ثقیل هود نقل کردہ بما قبل دادند بعد سلب حرکت ما قبل بعدہ واؤ ساکن هود ما قبل او مکسور آں۔ واؤ را بیا بدل کردند قیل شد۔

جس پر اپنا حج بوجہ استطاعت نفس اور مال کے فرض ہو وہ بمنزلہ قاف قیل کے ہے، یعنی قاف کی طرح ایک ایسی چیز کا  حامل ہے، جس کے ادا کیے بغیر دوسرے کے بار کا متحمل نہیں ہو سکتا، لہٰذا اپنا حج کیے بغیر حج بدل نہیں کر سکتا۔

دوسری صورت میں جب کہ حرف صحیح ساکن ہو تو اس حرف علت کی حرکت بغیر کسی تکلیف کے دے دیتے ہیں، جیسے یقول میں کہتے ہیں، یَقُوْلُ دراصل یُقْوُلُ بود ضمہ بر واؤ ثقیل بود نقل کردہ بما قبل واو ند یَقُوْلُ شد۔

جس پر اپنا حج بوجہ غربت و فقر فرض نہیں۔ وہ قاف یقول کی طرح فریضہ حج سے خالی ہے، لہٰذا دوسرے کا حج بدل کر سکتا ہے۔

اعتراض:

ایک غنی آدمی اپنے سفر میں اپنی خدمت کے لیے ایک خادم کو لے جاتا ہے، مکہ پہنچ کر خادم بھی حج کرتا ہے، علما کا فتویٰ ہے کہ اس کا حج اسلام ادا ہوگیا حالانکہ وہ اپنے روپے سے نہیں پہنچا، اسی طرح حج بدل کرنے والا بھی اگرچہ اپنے روپے سے نہیں پہنچا، لیکن اس کا حج ادا ہو جائے گا۔

جواب:… صورت معترضہ میں مخدوم خادم کو زاد راہ اس لیے دیتا ہے کہ اس سے اپنی خدمت لے سودہ لے لیتا ہے، خادم کو زاد راہ دینے سے اس کی غرض یہ نہیں ہوتی کہ اس کی عبادات کا مالک بن جائے، لہٰزا جو عبادت بھی خادم کرے، اس کی اپنی ہے، بخلاف حج بدل کرانے والے کے وہ زادراہ اس لیے دیتا ہے کہ حج بدل کو جانے والے کے ارکان حج کا مالک بن جائے، فاند فع ما اورو۔ (پس اب کوئی اعتراض نہیں رہا)

سبل السلام کی عبارت مذکورہ بالا میں شارح نے عموم کی دو وجہیں قرار دی ہیں، اول ترک استفصال، دوم وجوب حج من اول السنۃ استفصال کی شارح علیہ السلام نے ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ کیونکہ یہ بادی الحقیقت امر ہے کہ غربا پر سرے سے حج فرض  ۱؎  ہی نہیں ہے۔ چنانچہ سبل السلام ص ۲۴۶ میں عبارت مذکورہ بالا کے بعد فرماتے ہیں:

۱؎  فرض نہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اگر ادا کر لے تو اس کا فرض ادا نہ ہو مثلاً عورت اور مسافر وغیرہ پر جمعہ فرض نہیں مگر ادا کر لیں تو فرض ادا ہو جائے گا، اسی طرح مسافر پر چار رکعت نہیں لیکن پڑھ لے تو ہو جائے گی، پس اسی طرح حج کو سمجھ لیں اگر اس کے ادا کرنے سے اس کا فرض ادا نہیں ہوتا، تو دوسرے کا فرض اس کے ادا کرنے سے کس طرح ادا ہوگا، یہ اپنی شئے ہی تو اس کو دیتا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے وطن میں غریب پر حج فرض نہیں جب مکہ شریف پہنچ گیا تو اس پر فرض ہوگیا، کیونکہ اب اس کو استطاعت ہوگئی۔ ۱۲

((الا ان هذا انما یتم فی المستطیع ولذا قیل انما یومر بان یبدا بالحج عن نفسه اذا کان واجبا علیه، وغیر المستطیع لم یجب علیه فجازان یحج عن غیر ۱۲))

’’لیکن یہ (اول السنہ) وجوب اور مقروض کی مثال حج کی طاقت رکھنے والے کے حق میں پوری ہو سکتی ہے اور اسی لیے کہا گیا ہے کہ جب اس پر حج واجب ہو، اس وقت اس کو حکم دیا جائے گا کہ پہلے اپنی طرف سے حج کرے، پھر دوسرے کی طرف سے کرے اور جو طاقت نہیں رکھتا اس پر تو اپنا حج فرض ہی نہیں ہوا، تو اس کو جائز ہے کہ دوسرے کی طرف سے حج کرے۔‘‘

اس کے بعد فرماتے ہیں:

((ولکن العمل بظاهر الحدیث اولی))

’’لیکن ظاہر حدیث پر عمل راجح ہے۔‘‘

مگر ہمیں اس وقت اولیٰ  ۱؎  سے مطلب نہیں ہے، بلکہ جائز ناجائز کا سوال ہے، نیز جن احادیث میں حج بدل کا ذکر ہے، ان کی رفع اور صحت میں کوئی اختلاف نہیں۔ ان میں شیخین کی حدیثیں بھی ہیں اور ان میں کوئی قید نہیں آئی اور شبرمہ کی حدیث کے رفع میں اختلاف ہے، چنانچہ بلوغ المرام میں ہے:  رواہ ابوداود وابن ماجہ وصححہ ابن حبان والراجع عند احمد وقفہ۔

۱؎  اولیٰ سے مراد حج ہے، اس لیے اس کا خلاف جواز نہیں لینا چاہیے بلکہ اس کا خلاف مرجوح ہے، جس پر عمل جائز نہیں۔ فافہم ۱۲

صاحب سبل السلام فرماتے ہیں: وقال البیہقی اسنادہ صحیح ولیس فی هذا الباب اصح منه وقال احمد بن حنبل رفع خطاء وقال ابن المنذر ولا یثبت رفعه وقال الدارقطنی المرسل اصح۔

اس مختلف فیہ حدیث کی بنا پر اتنی صحیح مرفوع احادیث مطلق کو مقید کرنا ٹھیک نہیں اگر ہے تو مستطیع کے حق میں ہے جو اس حدیث کی عدم موجودگی میں بھی عقلاً ثابت ہے اور جس پر قیاس دال ہے۔ فقط (از محمد کلس گاماں ڈاک خانہ کنگن پور تحصیل چونیاں ضلع قصور)

تبصرہ از حضرت العلام رحمہ اللہ

تنقیح طلب امر یہ ہے کہ جس نے اپنا حج نہ کیا ہو اس کو اگر کوئی زاد راہ اس شرط پر دے کہ تیرے افعال حج کا میں مالک ہوں گا کیا یہ شرط صحیح ہے؟ آپ کہتے ہیں، صحیح ہے دلیل آپ نے یہ دی ہے کہ وہ خود بوجہ عدم استطاعت کے فرضیت سے سبکدوش ہے، جیسے یَقُوْلُ  میں قاف حرکت سے خالی ہے، اس لیے وہ دوسرے کا حج کر سکتا ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ وہ دوسرے کے افعال اپنے ذمہ لے سکتا ہے کیونکہ قاف کی طرح وہ خود خالی ہے یا جیسے کوئی حج کی نذر یا روزے کی نذر دوسرے کی طرف سے ادا کرے، وہ ادا ہو جاتی ہے کیونکہ خود اس کے ذمے کوئی نذر نہیں، اسی طرح جس پر حج فرض نہ ہو، وہ دوسرے کی طرف سے حج ادا کر سکتا ہے۔

یہ آپ کی ساری تقریر کا خلاصہ ہے، لیکن اس کا مداراس پر ہے کہ آیہ کریمہ من ستطاع الیہ سبیلا، میں ٹخصیص پیدا کی جائے کیونکہ استطاعت کی دو صورتیں ہیں۔ (۱)یہ کہ خود استطاعت رکھے۔ (۲)یہ کہ دوسرے ذریعے سے رکھے۔ پھر دوسرا۔ دوسرے کے ذریعہ سے رکھنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ دوسرا شرط کرے کہ تیرا حج میرا ہوگا ایک یہ کہ شرط نہ کرے یہ کل تین صورتیں ہیں۔ ان سے صرف اخیر کی صورت میں آپ کہتے ہیں کہ اپنا حج کیے بغیر حج بدل کر سکتا ہے لیکن اگر آپ کی طرح قیاس کریں تو تینوں صورتوں میں اپنا حج کیے بغیر حج بدل درست ہونا چاہیے کیونکہ استطاعت ہوتے ہی پہلے سال حج کوئی ضروری نہیں۔ ہر سال ہو سکتا ہے، مثلاً اہل مکہ ہر سال حج کر سکتے ہیں اگر اس سال دوسرے کا کر لیں اور آئندہ سال اپنا کر لیں تو اس کا کیا حرج ہے مثلاً ایک شخص کی ماہوار تنخواہ چالیس پچاس روپے ہے، اتنا ہی اس کے ذمے قرض ہے اگر یہ اپنی تنخواہ پہلے مہینہ کی دوسرے کے قرض میں دے دے اور اس کے بعد اپنا قرض اتارے تو یہ یا کوئی بری بات ہے؟ ٹھیک اسی طرح حج کا معاملہ سمجھ لینا چاہیے، اسی طرح ایک شخص کے ذمہ نذر کا روزہ ہے، مگر اس کے لیے کوئی دن مقرر نہیں تو وہ دوسرے کی نذر کا روزہ رکھ کر اپنا رکھ لے، اس پر کیا اعتراض؟ یا کسی کے رمضان کے روزے دوچار رہ گئے ہوں تو وہ سارا سال جس وقت چاہے قضا دے سکتا ہے اگر وہ شوال کے چھ روزے پہلے رکھ لے پھر قضا دے تو اس میں بھی کوئی برائی معلوم نہیں ہوتی۔ کیا مقروض کو گنجائش کی صورت میں صدقہ خیرات منع ہے، اس بنا پر فرض سے پہلے نفل حج بھی جائز ہونا چاہیے۔

غرض قیاس سے یہ ساری صورتیں جائز معلوم ہوتی ہیں، مگر نہ آپ قائل ہیں نہ اور قائل ہیں۔ اس لیے معلوم ہوا کہ حج کے بارے میں یہ قیاس صحیح نہیں۔ اور جو آپ نے صرفی مثال قیل دی ہے، اس میں واؤ کی حرکت گراکر قول پڑھنا بھی جائز ہے اگر کمزور آدمی حرف علت کی بجا ہے۔ تو کیا باوجود اس پر حج فرض ہونے کے ویسے اس سے حج کر سکتا ہے، نیز قیل میں اشمام بھی ہے، جس میں قاف کی حرکت پورے طور پر زائل نہیں ہوتی۔ گویا کسرہ، ضمہ دونوں جمع ہو جاتے ہیں، اس بنا پر حج بدل کرنے اور کرانے والے ہر ایک کا ناقص ناقص حج ادا ہو جانا چاہیے، جس کی کمی بعد کو دم دینے سے پوری ہو سکتی ہے حالانکہ کوئی اس کا قائل نہیں۔

پس اس قسم کے تبصروں اور قیاسوں سے آپ حج بدل کے مسئلہ کو روشنی میں نہیں لا سکتے ہیں اس میں آپ کو ایک نکتہ بتائے دیتا ہوں، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ اس مسئلہ پر غور کریں، وہ یہ کہ انسان کا راستے کا سفر حج کی جز نہیں حج مخصوص جگہوں کی زیارت کا نام ہے، جب انسان ان جگہوں میں پہنچ جاتا ہے، خواہ کسی طرح سے پہنچ جائے تو اب اس پر فرض کیا ہے؟ اگر اس وقت اپنا حج فرض ہے، تو دوسرے کا حج نہیں کر سکتا، خواہ دوسرے نے زاد راہ دیتے وقت سو شرط کی ہو کہ میری طرف سے حج کرنا کیونکہ جب مخصوص جگہوں میں پہنچنے کے وقت اس پر اللہ کا فرض عائد ہوگیا، تو مخلوق کی ساری شرطیں باطل ہوگئیں۔ جیسے رمضان میں مسافر، بیمار، حاملہ اور مرضعہ کو روزوں کی معافی ہے، لیکن اگر تکلیف اٹھا کر رکھیں تو کسی دوسرے کی طرف سے نہیں رکھ سکتے بلکہ یہ ان کااپنا ہی روزہ ہوگا۔ ٹھیک اسی طرح حج کو سمجھ لیں اور اگر مخصوص جگہوں میں پہنچنے کے وقت اللہ کا فرض اس پر عائد نہیں ہوتا جیسے کسی کا اس نے قرض دینا ہو، تو وہ کہہ دے کہ اچھا پھر دے دینا تو اس وقت یہ آزاد ہے، جس کی طرف سے چاہے، حج کرے۔

بس یہ ایک نکتہ کی شئے ہے، اس پر غور کرتے ہوئے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ قیاس سے اس کا فیصلہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر استطاعت ہوتے ہی پہلے سال حج ضروری نہ ہو، تو پھر ہر طرح آزادی معلوم ہوتی ہے، پہلے فرض ادا کرے، نفل ادا کرے، اپنا کرے، دوسرے کا کرے، حالانکہ نہ آپ اس کے قائل ہیں نہ اور قائل ہیں، چنانچہ اوپر بیان ہو چکا ہے۔ اور پہلے سال ہی ضروری ہو تو اول تو یہ مسلک ہی صحیح نہیں۔ دوم اس میں اس بات کو اہمیت ہوگئی کہ پہلے اپنا حج کرے، پھر دوسرے کا کیونکر استطاعت عام ہے خواہ اپنے وطن میں ہو جیسے اہل مکہ اور خرچ سفر رکھنے والوں کو حاصل ہے، یا مکہ شریف میں پہنچ کر حاصل ہو جیسے دوسرے کے خرچ پر آنے والے کو اپنے وطن میں تو استطاعت نہ تھی، مگر پہنچنے کے بعد ہوگئی اگر خرچ کرنے والے نے یہ شرط کی ہوگی، تجھے میری طرف سے حج کرنا ہوگا  تو یہ خلاف شرع ہوگی کیونکہ راستہ کا سفر حج سے خارج شئے ہے، مقامات مخصوصہ پر پہنچ کر استطاعت کی وجہ سے اس پر خدائی فرض عائد ہوگیا۔ اس کی مثال بلاکل ایسی ہے جیسے ایک شخص کو کوئی نوکر کی حیثیت سے ساتھ لائے اور حج سے اس کو روکے اور کہے کہ تو فلاں فلاں کام میں لگا رہ اور حج نہ کیا یا میری طرف سے نفل حج کر۔

تو جیسے اس کی شرائط باطل ہیں اسی طرح پہلے کی بھی باطل ہیں اور جیسے نوکری کی طمع میں حج نہ کرنے والا اگر اسی حالت میں بغیر حج کے مر جائے تو تارک حج کے وعید میں آجاتا ہے، ایسے ہی پہلے کو سمجھ لیں۔

یہ تو آپ کے قیاس کا حال تھا۔ اب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث پر اپنی جرح کا حال سنئے، آپ نے سبل السلام کی پوری عبارت نقل نہیں کی۔ سبل السلام میں  وقال الدارقطنی المرسل اصح کے بعد یہ عبارت ہے:

((قال المصنف ہو کما قال لکنه یقوی المرفوع لانه من غیر رجاله وقال ابن تیمیه ان احمد حکم فی روایة ابنه صالح عنه انه مرفوع فیکون قد اطلع علی ثقة من رفعه قال و قد رفعہ جماعة علی انه وان کان موقوفا فلیس لابن عباس فیه مخالف)) (انتہی)

یعنی مصنف نے کہا ہے، دارقطنی کا مرسل کو اصح کہنا بالکل ٹھیک ہے لیکن اس سے (کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ) مرفوع کو تقویت ہوگئی کیونکہ مرسل کی اسناد مرفوع سے الگ ہے۔

اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا، امام احمد رحمہ اللہ نے اپنے بیٹے صالح رحمہ اللہ کی روایت میں اس حدیث کے مرفوع ہونے کا حکم کیا ہے، تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کو ثقہ کی معرفت اس حدیث کے مرفوع ہونے کی اطلاع ہوگئی۔

نیز امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا ہے ایک جماعت نے اس حدیث کو مرفوع کہا ہے، علاوہ اس کے اگر موقوف تسلیم کر لی جائے تو ابن عباسؓ کا اس میں کوئی مخالف نہیں۔‘‘ (پس مسئلہ پختہ ہوگیا)

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اپنا حج کیے بغیر حج بدل صحیح نہیں، خاص کر اتنا بڑا رکن اسلام کا جس میں جانی تکالیف کے علاوہ ایک معقول رقم کا خرچ بھی ہے اس کو تنکے کے سہارے پر ادا کرنا کون دانا پسند کر سکتا ہے اور اس میں فرض سے سبکدوش ہونے کی کیا امید ہو سکتی ہے۔ (عبداللہ امرتسری ۱۷ رمضان المبارک ۱۲۵۶ہجری ۲۲ نومبر ۱۹۳۷ء)

حج بدل پر علمی تبصرہ: (از مولانا عبدالرحیم صاحب خطیب فیروز وٹواں شیخوپورہ)

تنظیم اہلحدیث مجریہ ۱۰ دسمبر ۱۹۳۷ء جلد۷ میں مولوی محمد صاحب کلس گاماں لاہور نے ایک مضمون بعنوان ’’کیا حج بدل وہی شخص کر سکتا ہے جس نے پہلے اپنا حج کیا, یا دوسرا بھی کر سکتا ہے؟‘‘ شائع کرایا جس میں مضمون نگار نے کچھ دلائل فتویٰ دے کر ثابت کیا کہ غیر مستطیع بالدراہم والدینار غیر کی طرف سے حج بدل کر سکتا ہے کیونکہ اس کو اپنا حج کرنا غربت کے باعث فرض نہ تھا۔

اس امر کی تائید میں بخاری مسلم کی حدیثیں پیش کی گئیں, لیکن مدیر صاحب نے مضمون نگار کے دلائل کو توڑ کر صرف شبرمہؓ والی حدیث کو تقویت دیتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ حج بدل وہی شخص کر سکتا ہے جس نے پہلے اپنا حج کیا ہو۔

اس لیے راقم الحروف اس مسئلہ پر از روئے تحقیق تبصرہ کرنا چاہتا ہے تاکہ مسئلہ کی اور وضاحت ہو جائے اور قارئین وسامعین پڑھ سن کر مطمئن ہوں اور ابہام وشکوک کو مٹا کر طریق مستقیم عیاں کیا جائے۔ وباللہ التوفیق

(۱)اول حدیث شبرمہؓ والی پیش کرتے ہیں, جس کے موقوف ہونے اور مرفوع ہونے میں علماء محققین ومحدثین کو کلام ہے، چنانچہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اس حدیث کو موقوف کہتے ہیں۔ والراجع عند احمد وقفہ۔

اور بعض مرسل کہتے ہیں، ابن منذر وغیرہ۔

اور مدیر صاحب نے مرسل ثابت کرنے کے لیے کافی دلائل پیش کیے ہیں جن سے ثابت کرتے ہیں کہ حج بدل وہی شخص کر سکتا ہے جس نے پہلے حج کیا ہو۔

فرض کر لیا کہ یہ حدیث صحیح ہے تو ساتویں درجہ کی صحیح ہوگی۔

(۲) دوم والے کہتے ہیں کہ ’’اپنا حج کیے بغیر جس کو طاقت مال نہ ہو وہ دوسرے کا حج بدل کر سکتا ہے۔‘‘

وہ یہ حدیث پیش کرتے ہیں:

((عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال کان الفضل ردیف رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فجاءت امراة من خثعم فجعل الفضل ینظر الیہا وتنظر الیه وجعل النبی صلی اللہ علیه وسلم یصرف وجه الفضل الی شق الاخر فقالت یا رسول اللہ ان فریضة اللہ علی العباد فی الحج ادرکت ابی شیخا لا یثبت علی الراحلة افاحج عنه قال نعم وذالك فی حجة الوداع)) (بخاری مصری کتاب الحج ص ۱۸۱)

’’ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ فضل رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا، ایک عورت خثعم قبیلہ سے آپؐ کے سامنے آئی۔ فضل اس عورت کی طرف دیکھنے لگا اور عورت فضل کی طرف دیکھتی تھی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کا منہ دوسری طرف پھیر دیا کہ عورت کی طرف نہ دیکھے عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اللہ کا فرض حج بندوں پر فرض ہے، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا باپ بوڑھا ہے، سواری پر نہیں ٹھہر سکتا کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں۔ یہ واقعہ حجۃ الوداع کا ہے۔‘‘

یہ بخاری شریف کی حدیث ہے، جو اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے، جو تمام مراتب احادیث پر اعلیٰ اور رافع ہے، جو سلف سابقین محدثین نے عموم پر وارد کیا ہے، بلکہ شرح عینی والا اسی حدیث سے استنباط کرتے ہوئے یوں ارشاد فرماتے ہیں:

((فیه دلیل علی انه یجوز لرجل ان یحج عن غیرہ وان لم یکن حجه عن نفسه لا طلاق الحدیث لانه لم یسالہا صلی اللہ علیه وسلم احجت ام لا وهو مذهب ابو حنیفة ومالك واحمد))

اس مسئلہ پر امام ابوحنیفہ، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا فتویٰ ہے۔

یہ تین اجل سابقین محدثین میں سے ہیں، جن کا عمل اسی پر ہے کہ غیر مستطیع حج بدل کر سکتا ہے، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ کی مثال موجودہ زمانہ میں کوئی نہیں دے سکتا۔

پھر امام بخاریؒ کتاب بخاری میں بیان فرما دیں، جو تمام صحاح سے افضل ہے، اس کو مقدم وافضل وصحیح مطلق مانتے ہوئے اسی پر عمل کریں۔

پھر صحیح کتاب کے سات درجے ہیں:

(۱)جو بخاری ومسلم بیان کریں۔ (۲)جو امام بخاری بیان کریں۔ (۳)جو صرف امام مسلم بیان کریں۔ (۴)جو بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح ہو۔ (۵)جو بخاری کی شرط پر ہو۔ (۶)جو مسلم کی شرط پر ہو۔ (۷)جو دوسرے محدثین بیان فرمائیں۔

تو اگر یہ صحیح بھی ہے تو ساتویں درجہ کی ہے اگر ساتویں درجہ کی حدیث پر عمل کیا جائے۔ دوسرے صحیح درجوں پر عمل نہ کیا جائے تو دوسرے چھ درجے صحیح حدیث کے متروک العمل قرار دے دئیے جائیں گے۔

ہاں قابل عمل حدیث بخاری مسلم کی ہوگی اور اسی کی فوقیت ہوگی جو عموم پر دلالت کرتی ہے، خاص نہیں جیسے امام مالک اور امام احمد رحمہما اللہ نے سمجھا ہے۔

اور یہ حدیث نص کی بھی تائید کرتی ہے، من استطاع الیہ سبیلا، ’’جو طاقت رکھے اس کے رستے کی طرف۔‘‘

من، عام پر دلالت کرتا ہے، خاص پر نہیں ولہٰذا اصح حدیث مطلق ونص کو مقید کرنا ساتویں درجہ کی حدیث متکلم فیہ سے تو گویا منسوخ کرنے کے مترادف ہے، اور یہ عدل وانصاف نہیں۔

کیونکہ شریعت اکمال کو پہنچی ہوئی اکمل ہے، ہم امتیوں کے لیے احکام شریعت مقید ہیں اور یہ حدیث حجۃ الوداع میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی، جہاں اور جس وقت شریعت مکمل ہوئی۔ لہٰذا معلوم ہوا اور یقینی طور پر معلوم ہوا کہ حج بدل وہ شخص بھی کر سکتا ہے، جس نے پہلے اپنا حج نہ کیا ہو اور غیر مستطیع، غریب، مفلس، تنگدست ہے۔ ہذا ما عندی وعلینا البلاغ

تبصرہ، (از حضرت العلام محدث روپڑی رحمہ اللہ)

اصول کا مسئلہ ہے کہ وقائع الاعیان لا یحتج بہا علی العموم، (نیل الاوطار ج ۳ص ۱۰۷) یعنی ’’خاص واقعہ سے عام استدلال صحیح نہیں۔‘‘

اور عورت کا یہ واقعہ اسی قسم کا ہے، کیونکہ اس میں احتمال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے حج کے متعلق علم ہو، اس لیے نہ پوچھا ہو۔

اس کے علاوہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما مزدلفہ سے واپسی کے وقت منیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے اور مزدلفہ سے منیٰ کی طرف دسویں ذی الحجہ کو عید کے دن صبح کے وقت لوٹتے ہیں، جو حج کا وقت نہیں کیونکہ حج نویں ذی الحجہ سے ہوتا ہے۔

پس عورت کا اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنا آئندہ سال کے لیے تھا نہ کہ اس سال کے لیے گویا اس سال وہ اپنا حج کرنے کے لیے آئی تھی۔

پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے اپنے حج کے متعلق سوال کرنے کی ضرورت نہ رہی۔

رہا شبرمہؓ کی حدیث کے مرفوع موقوف ہونے کا جھگڑا، سو اس کا فیصلہ وہیں ۱۰ ستمبر ۱۹۳۷ء میں کر چکا ہوں۔

خلاصہ اس کا یہ ہے کہ یہ حدیث صحیح قابل استدلال ہے، بلکہ امام احمدؒ سے بھی اس کا لائق استدلال ہونا ثابت کر دیا ہے۔

پس ترجیح اسی کو ہے کہ اپنا حج کیے بغیر دوسرے کی طرف سے حج نہیں کر سکتا۔ (عبداللہ امرتسری غفرلہ اللہ لہ)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 08 ص 65-74

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ