سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(57) ہمارے ایک صاحب حج کی نیت رکھتے تھے..الخ

  • 3750
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1080

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

ہمارے ایک صاحب حج کی نیت رکھتے تھے، اب وہ انتقال کر گئے ہیں، مرحوم کی طرف سے ان کے بھائی حج بدل کرانا چاہتے ہیں، سوال یہ ہے کہ حج بدل کے لیے کیا یہ لازم ہے کہ ایسا ہی شخص ہو جس نے پہلے اپنے مصارف سے حج کیا ہو یا نہ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بعض علمائے کرام کا خیال ہے جس پر حج عدم استطاعت کی وجہ سے فرض نہیں ہے، وہ حج بدل کر سکتا ہے، ورنہ استطاعت والے کو پہلے اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔

شرفیہ:

بعض علامئے کرام کا یہ خیال حدیث نبوی کے خلاف ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک حج بدل والے کو فرمایا تھا: حج عن نفسک ثم حج عن شبرمۃ رواہ ابوداود ابن ماجۃ وصححہ ابن حبان والراجح عند احمد وقفہ، (بلوغ المرام) اول تو ابوداؤد وابن ماجہ میں مرفوع بھی ہے، دوم اگر بالفرض موقوف بھی ہو تو قول صحابی بعض علماء کے خیال سے راجح ہے پس مقدم حج نائب راجح ہے۔ (ابوسعید شرف الدین دہلوی)

تشریح:

حج کی ایک قسم حج بدل بھی ہے جو کسی معذور یا متوفی کی طرف سے نیابۃً کیا جاتا ہے، اس کی نیت کرتے وقت لبیک کے ساتھ جس کی طرف سے حج کے لیے آیا ہے، اس کا نام لینا چاہیے مثلاً ایک شخص زید کی طرف سے حج کے لیے گیا تو وہ یوں پکارے لبیک عن زید نیابۃ کسی معذور زندے کی طرف سے حج کرنا جائز ہے، اسی طرح کسی مرے ہوئے کی طرف سے بھی حج بدل کرایا جا سکتا ہے، ایک صحابی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ میرا باپ بہت ہی بوڑھا ہوگیا ہے، وہ سواری میں بھی چلنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ آپ اجازت دیں تو میں اس کی طرف سے حج ادا کرلوں، آپؐ نے فرمایا ہاں کر لو۔ (ابن ماجہ) مگر اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ جس شخص سے حج بدل کرایا جائے، وہ پہلے خود اپنا حج فرض ادا کر چکا ہو، جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث سے ثابت ہے: عن ابن عباسؓ ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم سمع رجلا یقول لبیك عن شبرمة قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم من شبرمة قال قریب لی قال هل حججت قط قال لا قال فاجعل هذہ عن نفسك ثم حج عن شبرمة، (رواہ ابن ماجة) یعنی ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک شخص کو سنا کہ وہ لبیک پکار رہا ہے آپ نے دریافت کیا کہ بھئی یہ شبرمہ کون ہے، اس نے کہا شبرمہ میرا ایک قریبی ہے ، آپ نے پوچھا تو نے اپنا حج ادا کیا ہے، اس نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا اپنے نفس کی طرف سے حج ادا کر پھر شبرمہ کی طرف سے کرنا۔ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ حج بدل وہی کر سکتا ہے، جو پہلے اپنا حج کر چکا ہو، بہت سے ائمہ اور امام شافعی وامام احمد کا یہی مذہب ہے، لمعات میں ہے الامر یدل بظاهرہ علی ان النیابة انما یجوز بعد اداء فرض الحج والیه ذهب جماعة من الائمة والشافعی واحمد، یعنی امر نبویؐ بظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ نیابت اسی کے لیے جائز ہے، جو اپنا فرض حج ادا کر چکا ہو۔ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مایہ ناز کتاب نیل الاوطار میں یہ باب منعقد کیا ہے، باب من حج عن غیرہ ولم یکن حج عن نفسہ۔ یعنی جس شخص نے اپنا حج نہیں کیا وہ غیر کا حج بدل کر سکتا ہے، یا نہیں۔ اس پر آپ حدیث بالاشبرمہ والی لائے ہیں اور اس پر یہ فیصلہ دیا ہے، ولیس فی ہذا الباب اصح منہ، یعنی حدیث شبرمہ سے زیادہ اس باب میں اور کوئی صحیح حدیث وارد نہیں ہوئی ہے، پھر فرماتے ہیں:

((وظاهر الحدیث انه لا یجوز لمن لم یحج عن نفسی ان یحج عن غیرہ وسواء کان مستطیعا او غیر مستطیع لان النبی صلی اللہ علیه وسلم لم یستفصل هذا اللرجل الذی سمعه یلبی عن شبرمة وهو ینزل منزلة العموم والی ذلك ذهب الشافعی والناصر جز رابع نیل الاوطار))

یعنی اس حدیث سے ظاہر ہے کہ جس شخص نے اپنے نفس کی طرف سے پہلے حج نہ کیا ہو وہ حج بدل کسی دوسرے کی طرف سے نہیں کر سکتا۔ خواہ وہ اپنا حج کرنے کی طاقت رکھنے والا ہو یا طاقت نہ رکھنے والا، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس شخص کو شبرمہ کی طرف سے لبیک پکارتے ہوئے سنا تھا، اس سے آپ نے یہ تفصیل نہیں دریافت کی۔

پس یہ بمنزلہ عموم ہے اور امام شافعی و ناصر کا یہی مذہب ہے، پس حج بدل کرنے اور کرانے والوں کو سوچ سمجھ لینا چاہیے امر ضروری یہی ہے کہ حج بدل کے لیے ایسے آدمی کو تلاش کیا جائے، جو اپنا حج ادا کر چکا ہو تاکہ بلا شک وشبہ ادائیگی فریضہ حج ہو سکے اگر کسی بغیر حج کیے ہوئے کو بھیج دیا تو حدیث بالا کے خلاف ہوگا۔ نیز حج کی قبولیت اور ادائیگی میں پورا پورا تردد بھی باقی رہے گا۔ عقلمند ایسا کام کیوں کرے، جس میں کافی روپیہ خرچ ہو، اور قیمت میں تردد و شک وشبہ ہاتھ آئے۔

چراکارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی

مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی حنفی اپنی کتاب زیارۃ الحرمین میں ص ۱۶۸ پر تحریر فرماتے ہیں، بہتر یہ ہے کہ حج بدل اس شخص سے کرائے جو دیندار اور مسائل سے واقف ہو کر عوام پر مسائل سے ناواقفیت کے سبب تاوان واجب ہو جاتا ہے اور حج بدل ادا نہیں ہوتا۔ اور پہلے اپنا حج کر چکا ہو کہ جس نے اپنا حج نہیں کیا اگرچہ صحیح روایت شاید روایت فقہی مراد ہے، کے موافق وہ حج بودل کر سکتا ہے۔ (مولانا نے اپنے مسلک کے مطابق تحریر فرمایا ہے) اور اس پر اس سفر سے اپنا حج بھی فرض نہ ہوگا، مگر اختلاف سے بچنا افضل ہے، پس ایک مسلمہ حنفی عالم کے فتویٰ کے مطابق بھی حج بدل اسی شخص سے کرانا بہتر ہے جو پہلے اپنا حج ادا کرچکا ہو۔ واللہ اعلم بالصواب (حررہ محمد داؤد راز، حج بیت اللہ ص ۲۴۱، فتاویٰ ثنائیہ جلد اول ص ۵۰۷ تا ص ۵۰۸)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 08 ص 65

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ