سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(50) ایک شخص حج کے لیے گیا تو اس نے اپنے فوت شدہ والد..الخ

  • 3743
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1204

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

ایک شخص حج کے لیے گیا تو اس نے اپنے فوت شدہ والد بکر اور اپنی فوت شدہ زوجہ کلثوم کی طرف سے مکہ مکرمہ کے باشندہ معلم کو کچھ روپیہ دیا کہ ان کی طرف سے حج کرے کہ بکر اور کلثوم کی طرف سے حج ہوا ہے یا نہیں؟ (اے۔ ای پٹیل ملک افریقہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن مجید پارہ ۴ رکوع اول میں ارشاد ہے:﴿وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں پر حج فرض ہے جو بیت اللہ کی طرف راستہ کی طاقت رکھتے ہیں، اس آیت سے معلوم ہوا کہ غریب اور نادار شخص پر حج فرض نہیں چونکہ والد بکر اور اس کی بیوی کلثوم اپنی زندگی میں غریب تھے اور سفر خرچ میسر نہ ہوا تھا، اس لیے ان پر حج فرض نہیں ہوا، اور اس کے مالدار ہونے سے بھی باپ یا بیوی پر حج فرض نہیں ہوگا۔ چاہے ان کی زندگی میں ہو، چاہے بعد میں کیونکہ ہر انسان اپنے نفس کا مکلف اور ذمہ دار ہے، دوسرے کا نہیں۔ ہاں اگر اپنی خوشی سے کرنا یا کرانا چاہے تو جائز ہے، ان کو ثواب مل جائے گا، ورنہ جب ان پر فرض نہیں ہوا تو اس کو ان کی طرف حج کرنا یا کرانا کیسے ضروری ہوگا، دوسرے کی طرف سے حج وہ کر سکتا ہے، جس نے پہلے اپنی طرف سے فریضہ حج ادا کر لیا ہو چنانچہ مشکوٰۃ کتاب المناسک میں حدیث ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا ایک آدمی کہتا ہے، میں شبرمہ کی طرف سے تیرے دربار میں حاضر ہوا ہوں، فرمایا شبرمہ کون ہے، کہا میرا بھائی ہے، یا میرا قریبی۔ فرمایا کیا تو نے اپنی طرف سے حج کر لیا۔ اس نے کہا نہیں۔ فرمایا پہلے اپنی طرف سے حج کر لیا، اس نے کہا نہیں فرمایا پہلے اپنی طرف سے حج کر پھر شبرمہ کی طرف سے کر۔

نیز جس شخص سے حج بدل کرایا جائے، اگر وہ اس حج کرنے یعنی اپنی محنت وغیرہ کا عوض لیتا ہے، تو پھر حج ادا نہیں ہوگا۔ کیونکہ عبادت کا عوض جائز نہیں۔ چنانچہ مشکوٰۃ باب الاذان میں حدیث ہے کہ عثمان بن ابی العاص نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ مجھے میری قوم کا امام مقرر کریں، فرمایا: (انت امامهم واقتد باضعفهم واتخذ موذنا لایاخذ علی اذانه اجرا) (رواہ ابوداود والنسائی) کہ تو ان کا امام ہے، اور ان کے ضعیف کی رعایت رکھ اور موذن ایسا مقرر کر جواذان دینے پر اجرت نہ لے، اذان ایک عبادت ہے، جب اذان پر اجرت منع ہوگئی تو حج پر بطریق اولیٰ منع ہوگئی۔

نوٹ:

حج کے لیے معلمین کو روپیہ دینے میں احتیاط چاہیے کیونکہ اکثر یہ لوگ روپیہ لے کر حج نہیں کرتے۔ اگر کرتے بھی ہیں تو تسلی بخش نہیں۔ (عبداللہ امرتسری از روپڑ ضلع انبالہ، ۲۷ رمضان ۱۳۵۳ہجری، ۴ جنوری ۱۹۳۵ئ، فتاویٰ اہلحدیث روپڑی، جلد۲ ص۵۹۰)

توضیح:

ایسے شخص پر اس سال حج فرض ہی نہیں کیونکہ ﴿وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا﴾ (اٰل عمران: ۹۷)  ’’جو لوگ کعبہ تک پہنچ سکیں اللہ کے حکم سے عمر بھر میں ایک دفعہ حج کرنا ان پر فرض ہے۔‘‘ ﴿واتموا الحج والعمرة للہ فان احصرتم فما استیسر من الهدی﴾ ’’اور حج اور عمرہ کو اللہ کے لیے پورا کرو پھر اگر گھر جاؤ اور کعبہ تک نہ پہنچ سکو تو جو قربانی میسر ہو ذبح کرو۔‘‘ ان دو آیات سے ثابت ہوا کہ فرضیت حج کے لیے عدم احصار شرط ہے اگر راستہ میں احصار ہو جائے تو مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا نہ ہوا تو جھوٹ بول کر حج کو جانے میں کیا فائدہ نہ خدا راضی اور نہ خدا کا رسول راضی اور دنیا میں متہم بالکذب ہو کر بے وقار ہوا۔ فقط الراقم علی محمد سعیدی عفی عنہ جامعہ سعیدیہ خانیوال ۸ محرم ۱۳۹۸ہجری)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 08 ص 63

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ