سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(43) ایک عورت عارضہ دوران سر میں مبتلا ہے، جس کی وجہ سے طاقت..الخ

  • 3736
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1029

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک عورت عارضہ دوران سر میں مبتلا ہے، جس کی وجہ سے طاقت سفر کی نہیں رکھتی اور اس کو مقدور حج کرنے کا ہے اور محرم بھی اپنے ہمراہ لے جا سکتی ہے مگر اپنے عارضہ سے مجبور ہے، پس اس پر بالفعل حج فرض ہے یا نہیں؟ بینوتوجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

درصورت مرقومہ ہرگاہ وہ عورت بعارضہ دوران سر مبتلا ہے، اور طاقت سفر کی نہیں رکھتی، بالفعل حج اس پر فرض نہیں اور جو ابتداء بلوغ سے مقدور زاد دراحلہ وصحت بدن اور محرم ساتھ لے جانے کے واسطے رکھتی تھی اور خرچ راہ محرم کے لیے بھی رکھتی تھی اور پھر باوجود شرائل حج کے پہلے حج کرنے کا اس کو اتفاق نہ ہوا اور اب وہ مرض میں گرفتار ہوگئی تو اس پر واجب ہے کہ اپنی طرف سے حج کرا دے یا وصیت کرے کہ بعد میرے حج کرا دینا میرے مال مملوکہ سے اور جو اپنے روبرو زندگی میں حج نہ کرایا اور نہ وصیت کی حج کرانے کی تو گنہگار ہوگی۔

((اما شرط وجوبه فمنها الاسلام ومنها العقل والبلوغ والحریة ومنہا القدرة علی الزاد والراحلة ومنہا سلامة البدن ومنها امن الطریق ومنہا المحرم للمرأة شابة کانت او عجوزة وجود المحرم شرط لوجوب الحج ام لادائه بعضہم جعلوہ شرط للوجوب وبعضہم شرطا للاداء وهوالصحیح وثمرة الخلاف فیما اذا مات قبل الحج فعلی قول الاولین لا یلزمه الوصیة وعلی قول الاخرین تلزمه کذا فی النہایة ہکذا فی العالمگیریہ واللہ اعلم)) (حررہ سید محمد نذیر حسین عفی عنہ، فتاوی نذیریہ ج۲ ص ۱۲۲ طبع لاہور)

’’حج کے واجب ہونے کی شرطیں یہ ہیں، مسلمان ہو عاقل ہو، بالغ ہو، آزاد ہو، سواری اور خرچ ہو، تندرستی ہو، راستہ پر امن ہو اگر عورت ہو تو ساتھ محرم ہو، خواہ عورت جوان ہو یا بوڑھی اور عورت کے لیے محرم کا وجود واجب ہونے کے لیے شرط ہے یا حج کے ادا کرنے کے لیے بعض نے وجوب کے لیے شرط قرار دیا ہے اور بعض نے ادا کے لیے اور یہی صحیح ہے اس اختلاف کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اگر حج کرنے سے پہلے مر جائے تو اس کو پہلے قول کے مطابق وصیت کرنا ضروری نہ ہوگا۔ اور دوسرے قول کے مطابق اس کو وصیت لازم ہوگی۔

(نہایہ اور عالمگیری میں بھی اسی طرح ہے، واللہ اعلم)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 08 ص 59

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ