سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(27) قرض حسنہ سے حج ادا کرنے کا مسئلہ

  • 3720
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1386

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

میں ایک پرائیویٹ ادارے میں ملازم ہوں جہاں ملازمت کی تمام سہولتیں میسر ہیں۔ پراویڈنٹ فنڈ اور ویلفیئرفنڈ کا اہتمام ہے۔ میں حج پر جانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ دفتر پراویڈنٹ یا ویلفیئر فنڈ سے قرض حسنہ کے طور پر بھی رقم مل سکتی ہے، کیا میں اس سفر سعید کے لیے دفتر کے کسی فنڈ سے ادھار رقم لے سکتا ہوں جو بالاقساط میری تنخواہ سے وضع ہوتی رہے گی۔ (سائل صوفی نور الحسن لائلپوری ملازم دفتر امروز لاہور ۷۲/۷/۱۸)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بسم اللہ الرحمن الرحیم، اقول و باللہ التوفیق۔ آپ اگر اس پوزیشن میں ہیں کہ فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد بافراغت اور آسانی سے قرضہ ادا کر سکیں گے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور آپ کا فریضہ حج بھی ان شاء اللہ ادا ہو جائے گا کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا﴾ (اٰل عمران: ۹۷) ’’اور لوگوں پر اللہ کا حق، یعنی فرض ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے۔‘‘ اس آیۃ کریمہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا استطاعت کے لیے ذاتی نقد رقم موجود ہونا کوئی ضروری نہیں چنانچہ اس مفہوم کی تائید ان احادیث شریفہ سے بھی ہوتی ہے۔

۱۔ ((عن انس رضی اللہ عنه قال ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم سئل عن قول اللہ عزوجل من استطاع الیه سبیلا، قال الزاد والرحلة رواہ الحاکم وقال صحیح علی شرط البخاری ومسلم ولم یخرجاہ)) (نیل الاوطار ج۵ ص ۱۲ و فتاوی نذیریه ج۲ص۱۹)

یعنی حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا کے متعلق سوال کیا گیا تو جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ استطاعت سے سفر خرچ اور سواری مراد ہے۔‘‘

۲۔ ((عن الحسن قال قرأ رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیه سبیلا فقالوا یا رسول اللہ ما السبیل قال الزاد والراحلة ورواہ وکیع فی تفسیرہ عن یونس)) (تفسیر ابن کثیر ج۱ ص ۲۸۷)

’’حضرت حسنؒ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا تلاوت فرمائی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا، حضرت سبیل سے کیا مراد ہے تو آپ نے فرمایا کہ اس سے مراد سفر خرچ اور سواری ہے۔‘‘

۳۔ ((ان عمر بن الخطابؓ  قال ان السبیل الزاد والراحلة)) (مصنف ابن ابی شیبہ ص ۹۰ ج۴)

’’حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اس سے مراد سفر خرچ اور سواری ہے۔‘‘

۴۔ ((عن بن لائس الخزاعی قال حملنا النبی صلی اللہ علیه وسلم علی ابل الصدقة للحج والعمرة)) (رواہ احمد وذکرہ البخاری تعلیقا کذا فی المنتقی لابن تیمیه ص۱۳۳ طبع دہلی)

یعنی حضرت ابن لاس خزاعی کہتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سفر حج وعمرہ میں سواری کے لیے زکوٰۃ کے اونٹ دئیے۔ قرآن مجید کی آیت کریمہ اور پہلی تین حدیثوں سے پتہ چلتا ہے کہ فریضہ حج سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ذاتی نقد رقم کا ہونا ضروری نہیں ہے اور مسند احمد والی۔ یعنی چوتھی حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فریضہ حج کے سفر کے لیے تعاون حاصل کرنا بھی جائز ہے اور تعاون کی ایک قسم قرض حسنہ بھی ہے لہٰذا اس قرضہ حسنہ سے حج کرنے میں کوئی قباحت معلوم نہیں ہوتی مگر تعاون اور قرض حسنہ پاکیزہ اور طیب مال سے ہونا چاہیے۔ ورنہ فریضہ ادا نہ ہوگا کیونکہ حرام مال کے ذریعہ ادا کی ہوئی عبادت مقبول نہیں ہوتی۔ چنانچہ حدیث میں ہے:

((عن ابی هریرة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ان اللہ طیب لا یقبل الا طیبا)) (رواہ مسلم، مشکوة ص۲۴۱)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک مال کو ہی قبول کرتا ہے۔‘‘

حضرت شیخ الکل استاذ العرب والعجم مولانا سید محمد نذیر حسین رحمۃ اللہ علیہ نے بھی استطاعت کے متعلق ہونے کی تصدیق فرمائی ہے۔ فتاویٰ نذیریہ جلد اول ۵۱۸ دہلی اور حنفیہ سے مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم نے فتاویٰ امدادیہ میں لکھا ہے کہ اگر امید ادا کی ہو تو قرض لینا جائز ہے۔ (کذا فی رد المختار فی اول کتاب الحج، فتاویٰ امدادیہ ج۲ ص ۱۶۱)

فیصلہ:

ان تصریحات کی روشنی میں آپ اگر قرض لے کر حج ادا کرنے کی سعادت حاصل کر لیتے ہیں، تو آپ کا فریضہ ادا ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ بشرطیکہ اس قرض کی رقم سود پر مشتمل نہ اور نہ ہی آپ کو اس رقم کے ساتھ مزید رقم بطور سود کے دینی پڑے۔ علاوہ ازیں اہل وعیال کے لیے آپ کی واپسی تک نان ونفقہ بھی موجود ہو۔ (ہذا عندی واللہ اعلم الراقم الاثم محمد عبیداللہ خان جتوئی فیروزفوری خطیب شہر جھنگ)

مدیر الاعتصام:

سنن بیہقی میں باب الاستطاعت للحج کے تحت طارق بن عبدالرحمن سے ایک اثر منقول ہے کہ ابن ابی اوفیٰ سے سوال ہوا کہ قرض لے کر حج کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا اللہ سے رزق طلب کیا جائے اور قرض نہ لیا جائے یہ فتویٰ ذکر کر کے طارق کہتے ہیں ہم کہا کرتے تھے کہ عام حالات کے مطابق اگر قرض کی ادائیگی میں بظاہر کوئی دقت نہ ہو تو اس طریقے سے حج کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

((عن طارق قال سمعت ابن ابی اوفی یسائل عن الرجل یستقرض ویحج قال یسترزق اللہ ولا یستقرض قال وکنا نقول لا یستقرض الا ان یکون له وفا)) (سنن ج۴ ص۳۳۳)

بعض سلف سے قرض لے کر حج کرنا روایتوں میں ہے جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ ص ۱۱۹ ج۴ طبع حیدرآباد دکن میں حضرت محمد بن المنکدر سے مروی ہے، انہ یستقرض ویحج فقیل لہ ستقرض وتحج فقال ان الحج اقضی للدین۔ کہ وہ حج کے لیے قرض اٹھا لیتے تھے، اس پر ان سے پوچھا گیا، حضرت قرض اٹھا کر حج، انہوں نے جواب دیا حج کی برکت سے ادائیگی قرض کی زیادہ امید ہے اس اثر امام ابن ابی شیبہ کی تبویب بھی امام بیہقی کی تبویب کے ہم معنی ہے۔ ہذا ما عندی واللہ اعلم (اخبار الاعتصام جلد۲۴ شمارہ۱)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 08 ص 49-52

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ