سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(25) باپ نے حج نہیں کیا بیٹا اس کی زندگی میں حج کر سکتا ہے

  • 3718
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 1336

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

باپ زندہ ہو اور اس نے حج نہ کیا ہو تو کیا ایسی صورت میں بیٹا حج کر سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر بیٹا باپ سے علیحدہ ہو تو اس کی کمائی الگ ہو تو وہ اپنے روپیہ سے حج کر سکتا ہے، اس کا حج صحیح ہے دلیل اس کی یہ ہے: ﴿وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا﴾ (اٰل عمران: ۹۷)  ’’یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے لوگوں پر حج (فرض) ہے جو بیت اللہ کی طرف پہنچنے کی طاقت رکھتے ہیں۔‘‘ بیٹا اپنے مال سے بیت اللہ کی طرف پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے، لہٰذا اس آیت کی رو سے اس کے ذمہ حج ضروری ہے، رہا یہ سوال کہ بیٹے کی کمائی باپ کی ہے، سو وہ اس صورت میں ہے کہ باپ محتاج ہو جائے اور اپنا خرچ نہ اٹھا سکے تو بیٹے کے مال سے بقدر ضرورت لینے کا حقدار ہے، نہ یہ کہ بیٹے کے مال کا باپ حقیقتاً مالک ہے اور حدیث میں جو الفاظ انت ومالک لابیک آئے ہیں، ان کا یہی معنی ہے کہ باپ بیٹے کے مال سے اپنی ضرورت پوری کر سکتا ہے، اگر مالک ہوتا تو وراثت میں چھٹا حصہ کیوں لیتا۔ اگر سائل کا یہ مطلب ہے کہ کمائی باپ کی ہے اور مالک باپ ہے اور بیٹا ویسے ہی بطور اولاد ہونے کے باپ کے تحت کام کرتا ہے، ایسی صورت میں باپ بیٹے کو حج کرائے، اس نے اپنا حج نہ کیا ہو تو بیٹے کا حج ہو جائے گا، لیکن باپ کے ذمہ رہے گا، اگر زندگی مین حج کر لیا تو اس کے ذمہ سے اتر گیا ورنہ جو وعید تارک حج کے لیے ہے یعنی یہودی ہو کر مرا یا نصرانی ہو کر اس کا مستحق ہوگا۔

حج میں تاخیر:

اس میں اختلاف ہے کہ استطاعت کے بعد حج میں تاخیر جائز ہے یا نہیں۔ بعض ائمہ کا مذہب ہے تاخیر میں مجرم ہوگا اگر زندگی میں حج کر لیا تو جرم معاف ہو جائے گا اور بعض کہتے ہیں کہ تاخیر جائز ہے، مجرم نہیں ہوتا، صرف زندگی میں کسی وقت میں حج ادا کرنا ضروری ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ جب حج کرے گا، وہ ادا ہی ہوگا خواہ تاخیر کرے یا نہ اس بنا پر احتیاط اسی میں ہے کہ باپ پہلے اپنا حج کرے، پھر کسی دوسرے کو کرائے اور یہ مسئلہ باپ بیٹے کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا، بلکہ کوئی شخص جب حج کے لائق ہو جائے تو پہلے اپنا حج کرے، پھر کسی دوسرے کو کرائے کیونکہ خطرہ ہے کہ کہیں اپنا حج نہ رہ جائے ہو سکتا ہے کہ موت آجائے یا بعد میں حج کرنے کی استطاعت نہ رہے۔ (عبداللہ امرتسری روپڑی جامع اہلحدیث لاہور، فتاویٰ اہلحدیث روپڑی جلد۱ ص ۵۷۷)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 08 ص 48

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ