سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(105) ایک شخص مسلمان ہے۔اور وہ ایک موضع میں رہتا ہے

  • 3674
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1284

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلے میں کہ ایک شخص مسلمان ہے۔اور وہ ایک موضع میں رہتا ہے۔اور نماز روزہ کبھی نہیں پڑھتا۔اور نہ کبھی اس کی زوجہ ہی نماز پڑھتی ہے۔غرض یہ کہ دونوں میاں بیوی روز مرہ شراب پینے اور شرک و بدعت کے کام کرتے ہیں۔شرک یہ ہے کہ اس شخص نے ایک ہنود عورت کو مقام ڈیرہ سے بلا کر اسے  کہا کہ ہمارے گائوں بھر میں ڈنگروں میں دکھ یعنی بیماری پھیل رہی ہے۔تم اس کو کسی طرح دفع کردو۔جواب میں اس عورت نے یہ شرط پیش کی کہ جس طرح سے میں تم کو بتلائوں تم کو اس پر کاربند رہنا پڑے گا۔اور میں اس بیماری کو دفع کردوں گی۔اس مسلمان نے اس کی ہر ایک بات منظور کرنے کا اقرار کر لیا۔تب مسماۃ مذکورہ نے کہا کہ تین روز تک اس گائوں میں کوئی مسلمان اپنے اپنے گھرمیں چولے پر توا نہ چڑھائے یعنی روٹی نہ پکائے اور نہ ہی تین روز تک کوئی دودھ دہی جمائے چنانچہ گائوں بھر کے مسلمانون نے ایسا ہی کیا۔پھر اس عورت نے  تین روز تک سب مسلمانوں میں جا کر صبح شام سنکھ بجایا۔بعد ازان اس نے یہ کہا کہ ایک ان بیاہی بکری یعنی بچے کے لائو۔سو اس مسلمان نے ویسا ہی کیا یعنی بکری لادی گئی۔تو عورت نے بکری کو کسی کلہاڑا وٖغیرہ سے مار ڈالنے کی ہدایت کی مسلمان مذکور نے اس بکری کے خون سے پتلی وغیرہ کی قسم  کی ایک مورت بنا کر تین روز تک سب مسلمانوں کے گھروں میں بھجوائی اور حکم دیا کہ اس مورت کو تمام گھروں کی دیواروں سے چھوا کر واپس لے آئو۔چنانچہ مسلمان مذکور نے ایسا ہی کیا۔ او ر پھر اس عورت نے مع بکری کے گوشت کے مورت کو ڈنگروں کے راستہ میں مدفون کرا کر کہاکہ اب تمہارے ڈنگروں میں کبھی دکھ نہ آنے پاوے گا۔اوراپنا کچھ مختانہ لے کراپنے مقام دیرہ کو واپس چلی گئی اور یہ بھی سننے میں آیا ہے۔کہ مسلمان مذکورہ کے والدین کا نکاح بھی نہیں ہوا ہے۔اور وہ خود بھی زنا کارہے۔اور اس نے اپنی دختروں کو ان کے زندہ خاوندوں سےزبردستی چھین کر کسی دوسی جگہ سے سو سو روپیہ لے کر ان کا نکاح کرادیا۔حالانکہ ان کے سابق شوہروں نے انھیں آج تک طلاق نہٰں دی۔تواب فرمائئے کہ اس کے گھر کاکھانا اوراس سے سلام کرنا جائز ہے یا نہیں۔؟

دوسرے یہ کہ وہی شخص بدعتی وشرابی جس کا تذکرہ اوپر ہوچکا ہے ان لوگوں سے جو ان کے پاس بیٹھنے   اور کھانے سے پرہیز کرتے  ہیں۔یہ کہتا ہے کہ مجھ سے تو تم اپنا پرہیز کرتے ہو۔مگرجس امام کے پیچھے تم لوگ نماز پرھتے ہو۔اس کی عورت قوم ہنود سے ہے۔اور وہ کسی مسلمان کے گھر کی پکی ہوئی نہیں کھاتی اور اب تک امام صاھب سے اس کا نکاح نہیں ہوا۔اس پر جب لوگوں نے اامام صاحب کو بلا کر سب مسلمانوں کے رو برواس تمام ماجرا کی نسبت دریافت کیا۔ اور یہ بھی پوچھا کہ جب کہ وہ عورت مسلمان ہوچکی ہے۔پھر آپ کا اس کے ساتھ نکاح نہ ہونے کا یاباعث جس پر امام صاحب نے یہ جواب دیا کہ جوکچھ یہ شرابی بیان کرتا ہے۔سراپا دروغ ہے۔اس عورت سے میرا نکاح ہوئے چودہ سال ہوچکے ہیں۔اورمیرے اس نکاح کے گواہفلاں فلاں وکیل  فلاں فلاں موضع مین موجودہیں آپ لوگ ان سے بذریعہ خط وکتابت دریافت کر سکتے ہیں۔باقی رہا یہ امر کہ میں اور میری عورت بعض لوگوں کے گھروں کی پکی ہوئی چیزوں کے کھانے سے کیوں پرہیز کرتے ہیں۔تو اس کےلئے صرف اس قدر کہہ دینا کافی ہوگا۔کہ وہ اور ان کی عورتیں شراب پیتی ہیں۔ان کے گھروں کے پکے ہوئے کھانوں سے کیوں پرہیز کرتے ہیں۔تو ان کےلئے صرف اس قددر کہہ دینا کافی ہوگا۔کہ وہ اور ان کی عورتیں شراب پیتی ہیں۔ میں ان کے گھرو ں کا کھانا وغیرہ جائز نہیں سمجھتا۔اور گوشت میری عورت کسی بیماری کی وجہ سے نہیں کھاتی۔کچھ گوشت پر ہی مسلمان موقوف نہیں۔اس کے بعد اسی کفر و شرک کرنے والے شرابی شخص نے ایک مولوی صاحب عبد الرحیم نامی ساکن رام پورضلع سہارنپور سے بغرض حصول فتوے اس مضمون کا سوال لکھ کر بھیجا۔ایک ایسا شخص جس کی عورت کسی مسلمان کے گھر کا کھانا نہ کھاتی ہو۔اوراسکا نکاح بھی نہ ہواہو۔وہ قابل امامت ہے یا نہیں مولوی صاحب مذکورہ نے بلا تحقیق طرفین کے لکھ دیا۔کہ ایسے شخص کے پیچھے نماز جائز نہیں ہوسکتی۔تا وقت ی کہ اس عورت کو کفر سے  توبہ کرا کر اس س نکاح نہ ہوجاوے۔اب چند روز سے ان لوگوں  کے جو امام صاحب کے نکاح مین شامل تھے۔جو اب آگکئے ہیں۔ان سب کا بیان امام صاحب کی تایئد میں  ہے۔اور خطوط پر ان گواہوں  کے نام اس طرح درج ہیں۔گواہ شدہ نکاح شہاب الدین۔ساکن موضع بلاقیوالہ گواہ شدنکاح بخش سایہ والا وکیل کا نام مجھے یاد نہیں رہا۔

اس موقع پر کچھ امام صاحب کے اوصاف کی نسبت بھی عرض کردینا چاتا ہوں۔ آپ ابتدا میں پل جمن پر رہتے تھے۔چودہپندرہ سال سے یہ وہاں سے اٹھ کر یہاں ان معواضعات و قریات میں  چلے آئے۔جہاں کے مسلمان بہت کم آباد تھے۔اور نہ یہاں کوئی مسجد تھی۔امام موصوف نے آتے ہی تبلیغ کا سلسلہ شروع کر دیا۔اور بے خبر مسلمانوں کو رفتہ رفتہ سمجھا بجھا کر طریقہ اسلام پر لالئے۔۔آخر  مسلمان نماز روز  ہ سے واقف ہوکر نمازیں پڑھنے لگے۔اور بدعت اور کفر سے الگ ہوگئے۔ازان بعد امام صاحب مذکور نے ایک مسجد اور چبوترہ کی تعمیر کے لئےہندو راجہ سے جو ان مواضعات  کے مالک ہیں۔بزریعہ درخواست منظوری منگوائی۔چنانچہ لوگوں کے چندوں اور آپ کی سعی بلیغ سے جب سے مسجد تیار ہوگئی ہے۔تب اسلام میں اور بھی زیادہ رونق اور ترقی ہوتی جاتی ہے۔اب فرمایئے کہ ایسے پرہیز گار امام کے پیچھے نماز جائز ہے کہ نہیں اگر نہیں تو کس آیت یا حدیث سے ناجائز ہے۔نیز یہ بھی لکھیں کے کہ جوشخص کبھی نماز نہ پڑھتا ہو کبھی شراب پیتا ہو۔اورشرک و بدعت کے کام کرتا ہو۔تو اسے سلام علیکم کہنا اوراس کے گھر کا کھانا کھانا جائز ہے کہ نہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام مذکور کے پیچھے نماز بلاشبہ جائز و رست ہے۔ناجائز ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔جو شخص ایسے امام کے پیچھے نماز کو ناجائز بتائے۔وہ جاہل ہے۔اورجو شخص کبھی نہ روزہ رکھتا ہو اور نہ نماز پڑھتا ہو اور روز مرہ شراب پیتا ہو۔اورشرک  وبدعت کے کام کرتا ہو۔تواس سے سلام و کلام ترک کر دینا جائز ہے۔امام نووی لکھتے ہیں۔اور ایسے شخص کے یہاں کھانا کھانا اور اس کی دعوت قبول نہیں کرنی چاہییے۔کیونکہ  فساق کی دعوت قبول کرنے سے ممانعت آئی ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 ص 374-383

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ