سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(91) جب مرد کو دفن کرچکتے ہیں۔تو میت کے رشتہ داروں میں سے کوئی...الخ

  • 3660
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1154

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ اس علاقہ میں میں یہ رواج ہے کہ جب مرد کو دفن کرچکتے ہیں۔تو میت کے  رشتہ داروں میں سے کوئی آدمی ایک یا چند قرآن مجید ھاجیوں اور ھافظوں سے بلا کر کہتا ہے کہ میں  نے یہ قرآن مجید اس میت کے متروکہ نماز و روزہ کے عوض تم کو دیتا ہوںاور پھر وہ آدمی اسی طرح دوسرے کو وہ قرآن مجید بخشتا ہے اور پھر وہ کسی اور کو علی ہذا القیاس چند بار اس کو پھیر کر پھر اسی آدمی کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔او اس طرھ کرنے سے ان کا خیال ہے کہ اس کے نماز روزہ جو کہ اس کے زمہ واجب الادا تھے اس سے ساقط ہوجاتے ہیں۔اور اس علاقہ کے بعض علماء اس کی عوام کو تلقین کرتے ہیں۔کیا اسی طرح نماز روزہساقط ہوجاتے ہیں


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس طرح کا اسقاط جائزنہیں ہے درمختار میں ہے کہ اگر روزہ کے فدیہ کی مرنے والا وصیت کہ جائے تو اس کے وارث ارادا کردیں تو اس سے ساقط ہوجائے گا۔اوراگر وصیت نہ کرے۔او ر وارث از خودادا کریں۔تو یہ صحیح نہیں۔بخلاف نماز کے کہ وہ بدنی عبادت ہے۔اور حج میں نیابت جائز ہے۔شامی میں ہے ک اس طر ح میت سے نماز ساقط نہیں ہوتی۔اور ایسے ہی روزے کا ھکم ہے۔ہاں اگر ورثہ خود نماز پڑھیں۔او روزہ رکھیں اور اس کا ثواب میت کو بخشیں  تو صحیح ہے کیونکہ آدمی اپنا عمل غیر کو ہبہ کرسکتا ہے۔عبادت تین قسم کی ہے۔مالی ۔بدنی۔ اور مرکب مالی عبادات مثلاذکواۃ  وغیرہ میں نیابت جائز ہے۔جب کہ اس کی قدرت نہ ہو اور بدنی عبادات میں نیابت جائز نہیں ۔مثلا نماز روزہ اورمرکب عبادات مثلا حج وغیرہ میں  اگر نفلی ہو تو نیابت جائز ہے۔اگر فرضی ہو و نیابت جائز نہیں۔میت اگر روزہ کے فدیہ کی وصیت کرجائے تو درست ہے۔اور اگر وارث از خودفدیہ دیں تو امام محمد نے زیادت میں کہا ہے کہ امید ہے اللہ اس کو معاف فرمائے گا۔او ر عجز کی  حالت میں رہی ہوئی نمازون کو بھی بعض نے روزہ پر قیاس کیا ہے۔لیکن روزے کے متعلق تو یقین سے کہتے ہیں کہ وہ فدیہ ہوگیا۔اور نماز کے متعلق توفع کے الفاظ بیان کرتے ہیں۔اگر آدمی اپنی بیماری کی حالت میں نمازوں کا فدیہ دے تو یہ جائز نہیں ہے۔اگر بوڑھا آدمی جو روزہ کی طاقت نہ رکھتا ہو۔اپنے روزے کا فدیہ دے تو جائز ہے۔او ر عاجز آدمی نماز کا فدیہ نہیں دے سکتا۔ اگر ویسے نہ پڑھ سکتا ہو تو اشار ہ سے پڑھے۔اگراشارے کی طاقت بھی نہ ہو تو جب نمازیں زیادہ ہوجایئں گی توساقط ہوجایئں گی۔ہاں روزے کا فدیہ چونکہ نص سے ثابت ہے۔اس پر نماز کو قیاس نہیں کیا جاسکتا بدنی عبادت میں نیابت اصولا منع ہے۔الحاصل ایسی اسقاط کتاب وسنت اور فقہ کی کتابوں کے بھی برخلاف ہے۔ خصوصا جب کہ اس کے ساتھ یہ عیدہ بھی  شامل ہو جائے کہ اس طرح فرائض ساقط ہوجاتے ہیں۔بہتر یہ ہے کہ شامی کی عبارت کے مطابق ورثاء خود نماز روزہ ادا کرکے اس کو ثواب پہنچایئں۔واللہ اعلم

(رشید  احمد۔عبد الوہاب ۔محمد وسیم الدین۔محمد اسد علی۔محمد عبد المطلب ۔سید محمد نزیر حسین فتاوی نزیریہ ص203)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 ص 345

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ