سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(30) اسلام میں سنت کا مقام

  • 3607
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1955

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اسلام میں سنت کا مقام


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلام میں سنت (حدیث) کا وہی مقام ہ جو کتاب اللہ کا ہے سنت نبویہ ﷺ بھی قرآن پاک کی طرح بذریعہ وحی ناز ل ہو ئی ہے۔چنانچہ سورہ نجم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

یعنی پیغمبر خدا اپنی خواہش سے نہیں بولتے وہ وحی آسمانی سے بولتے ہیں۔اس آیت کاترجمہ مولانا یوں فرماتے ہیں۔

گفتہ او گفہ اللہ بود   گرچہ از حلقوم عبد اللہ بود

اس طرح قرآن مجید نے اسے واضح تر کر دیا۔

(پ5 سورۃ نساء)یعنی رسول اللہﷺ کی جو اطاعت کرے وہ درحقیقت خداوند کریم کی اطاعت کرے گا دوسرے الفاظ میں ترجمہ یہ ہوا کہ جس نے حدیث پر عمل کیا اس نے قرآن پر بھی عمل کیا۔

اصل دیں آمد کلام اللہ معظم واشتن    پس حدیث مصطفیٰ برجا ں مسلم داشتن

حدیث پاک کےوحی خفی ہونے کے اور منزل من اللہ ہونے پریہ روایتاظہر من الشمس یعنی روز روشن سے یادہ واضح ہے آفتاب آمد دلیل آفتاب

عن حسان قال كان جبرئيل ينزل علي النبي صلي الله عليه وسلم بالسنة كما ينزل عليه بالقران(دارمي ص 77)

یعنی حضرت حسان فرماتے ہیں۔کہ جبرئیل علیہ السلام  نبی کریم ﷺ پرجس طرح  وحی لے کر آتےایسے ہی سنت کی وحی لے کر آتے۔

اس  حدیث سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ جس طرح قرآن پاک بذریعہ وحی منزل من اللہ ہے ایسےحدیث پاک بھی منزل من اللہ ہے مزید تفصیل کے لئے عہد نبوت کا ایک واقعہ ملاحظہ فرماییئے۔حضرت عبد اللہ بن عمر بن عاص رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  رسول اللہﷺ کی خدمت میں اکثر اوقات حاضر رہتے اور نبی کریم ﷺ سے جو کچھ سنتے وہ کچھ لکھ لیتے اس پرعوام الناس نے اعتراض کیا کہ ہر بات نہ لکھا کرو۔

فان رسول الله صلي الله عليه وسلم يتكلم في الرضاء والسخط

یعنی نبی کریم ﷺ بعض دفعہ خوشی میں کلام فرماتے ہیں۔اور بعض دفعہ نا خوشی میں تو حضرت عبد اللہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے حضورﷺ سے زکر کیا کہ آپﷺ ہی فرمادیجئے کہ کونسی بات لکھوں اور کونسی نہ لکھوں۔اس پرمحبوب کبریاﷺ فرمانے لگے کہ!

اكتب ما اقول فوالله ما يخرج منه الاحق(الحديث)

یعنی میری بات لکھ لیا کرو۔کیونکہ اللہ کی قسم  میری زبان سے ہر وقت حق ہی نکلتا ہے۔بعض احادیث میں تو سنت کے مطابق  فیصلہ کو کتاب اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔چنانچہ کتاب الحدود مشکواۃ شریف جلد 12 ص308 میں ایک طول حدیث ہے۔

ان رجلين اختصما الي رسول الله صلي الله عليه وسلم فقال احد همااقض بنينا بكتاب الله فقال الاخراجل يا رسو ل الله فاقض بيننا بكتاب الله (الحديث)

یعنی دو آدمی رسول اللہﷺ کی خدمت میں فیصلہ کرانے کے لئے حاضر ہوئے ایک نے کہا کہ میرافیصلہ قرآن پاک سے کیجئے دوسرے نے کہا کہ کتاب اللہ  ہی کے مطابق فیصلہ کیجئے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا!

اما والذي نفسي بيده لا قضين بينكما بكتاب الله (الحديث)

یعنی قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہےتمہارا فیصلہ کتاب اللہ سے کروں گا۔اب جو فیصلہ آپ ﷺ نے  فرمایا وہ اپنے فرمان یعنی حدیث پاک سے فرمایا جس کا قرآن پاک میں زکر تک نہیں ہے۔ارشاد نبوی ﷺ سے معلوم ہوا کہ حدیث کو رسول کریم ﷺ کتاب اللہ فرما رہے ہیں۔ایسے سینکڑوں واقعات کتب حدیث میں مرقوم ہیں۔لیکن اختصار کو ملحؤظ رکھتے ہوئے ان پراکتفاء کیا جاتا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 ص 128-130

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ