سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(23) فرقہ ناجیہ اور اصحاب تقلید

  • 3601
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1416

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فرقہ ناجیہ اور اصحاب تقلید


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

10 اکتوبر 1957ء؁ کو میری ملاقات جمعۃ اہل حدیث کے حسب زیل کابر علماء کرام سے ہوئی۔جناب حضرت مولانا المحترم محمد دائود صاحب غزنوی صدر الجمعۃ  جناب مولانا عطاء اللہ صاحب حنیف جناب داعی اتفاق مولانا محمد اسحاق صاحب مدیر الاعتصام  ان بزرگان ملت سے شرف زیارت حاصل کرنے پرجو نور میرے دل پر قصور میں پیدا ہوا اس کاسرور اب تک سینہ میں بھر پور ہے۔

اثنائے ملاقات میں بعض مضامین پر گفتگو ہوئی تو حضرت مولانا مدیر الاعتصام نے فرمایا کہ مقلدین کو آپ نے فرقہ ناجیہ سے خارج قرار دیاہے۔یہ میرے لئے محل تامل ہے کیونکہ مذاہب اربعہ میں بڑے بڑے اولیاء اور فقہا ء گزرے ہیں جن کی بذرگی تقویٰ علماء میں مسلم ہے کم ترین نے اس وقت تو جوج مناسب حال تھا۔جواب دیا لیکن وہ مجمل اور مختصر تھا۔اب مضمون ہذا میں اس اجمال کی  تفصیل کرتا ہوں۔اور جناب مدیر سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ آپ اس خادم علماء کے مضمون کو اخبار میں درج فرما کر دل بے قرار کو استقرار بخشیں۔تمام اسلامی دنیا پر یہ امروز  روشن کی طرح ظاہر ہوچکا ہے۔ کہ تقلیدی مذاہب۔حنفی ۔شافعی۔مالکی۔حنبلی۔زمانہ مشہور دلہابالخیر کے بعد کے ہیں۔جناب حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی اور قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی نے اپنی اپنی تصنیف میں اس کی صاف تصریح کر دی ہے۔حجۃ اللہ وتفسیر مظہری ملاحظہ ہو۔

دوئم یہ کہ تقلید شخصی اور تعین مذہب کو واجب جان کر اس کا التزام کرنا شریعت اسلامی سے ثابت نہیں ہے۔یہ چیز بعد میں پیدا ہوکر فرقہ بندی کا موجب  ہوگئی ہے۔

مسلم الثبوت مع شرح بحر العلوم ص628 میں ہے۔

اذ لا واجب الا ما اوجبه الله تعالي و الحكم له ولم يوجب علي  احد ان يتمذهب بمذهب رجل من الائمة فا يجابه تشريع شرع جديد

یعنی کوئی   چیز واجب نہیں ہوتی مگر وہ چیز جس کو اللہ تعالیٰ واجب کرے اللہ تعالیٰ نے کسی پرواجب نہیں کیا ہے۔کہ وہ اماموں میں سے کسی امام کا مذہب پکڑے پس اس کو اپنے پر واجب ٹھرانا اپنی طرف سے نئی شرع  ایجاد کرنا ہے۔

جناب علامہ ملا علی قاری حنفی۔وغیرہ اکابر حنفیہ نے بھی تسلیم کیا ہے۔کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مسلمان کو حنفی شافعی وغیرہ بننے کا حکم نہیں دیا ہے۔یہ قصور آئمہ اربعہ کا نہیں ہے۔ بلکہ وہ اس سے منع  فرما کر بری الذمہ ہوچکے ہیں۔

دیکھئے ! کسی عالم سے یا امام سے مسئلہ پوچھنا یا کسی امام کے قول پر اسکو درست سمجھ کر عمل کرنا اور چیز ہے اور ایک امام کا انتخاب کر کے اس کی تقلید بالوجوب کرنا اور اس  کا التزام کرنا اور اس کے نام پر فرقہ بنانا۔اور اپنے امام کے تمام مسائل جمع کر کے ان کو مستند سمجھ لینا اور اپنی کتابیں جدا رکھنا اور ان پر ہمیشہ فتویٰ دینا اور چیز ہے۔اور احادیث نبویہ ﷺ کا بٹوارہ کر کے ان میں سے اپنے اپنے اماموں کے موافق اقوال تلاش کرنا اور باقی کو متروک کر دینا اور چیزہے۔مقلدین کا یہی تعامل ہے لیکن ۔مگر سلف میں یہ طریقہ تھا کہ جس سے اتفاق پڑتا تھا۔اس سے خدا اور رسولﷺ کا حکم دریافت کرتے تھے۔اور جو بے علم ہوتا۔عالم سے پوچھ لیتا تھا۔کسی ایک کا التزام نہ رکھتے تھے۔کیونکہ جب سب مبین احکام ہیں۔اور علم میں ایک دوسرے پر فوقیت ہیں۔اور خطا بھی غیر نبی سے ممکن ہے۔تو پھر ایک کا التزام کیون کیا جائے۔ہاں اگر کوئی شخص قرآن و حدیث پر دارومدار رکھ کر آئمہ کے اقوال سے استفادہ کرتا رہتا ہے۔یا اب کرتا ہے۔اور کثرت موافقت کی وجہ سے کس امام کیطرف منسوب ہے یا کسی اور تعلق تلمیذ کے سبب سے حنفی شافعی کے نام سے منسوب کیا گیاہے۔اور وہ اس فرقہ بندی کو پسند نہیں کرتا۔البتہ مسائل غیر میں کسی منصوصہ میں کسی امام کے مسائل کو لے لیتا ہے۔لیکن قصداً محض حسن ظنی پربنا رکھ کر اس کے اقوال اور مذہب کا التزام نہیں کرتا۔تو وہ صحیح ہے۔لیکن ایساآج کون ہے۔؟

باقی رہا یہ امر کے ان مذاہب میں بڑے بڑے اولیاء ہوئے ہیں سو اسی کے متعلق امام شعرانی میزان کبریٰ جلد نمبر 1 ص2 مصری میں فرماتے ہیں۔

ان الولي الكامل لا يكون مقلدا انما ياخذعلمه من العين التي اخذ منها المجتهدون

یعنی جو شخص ولی کامل ہے۔وہ کسی کا مقلد نہیں ہوتا بلکہ وہ علم اس چشمے سے حاصل کرتا ہے۔جس سے مجتہدین نے کیا ہے۔علامہ شیخ کروی اپنے رسالہ میں فرماتے ہیں۔''طریقہ مشائخ صوفیہ کا عموما اور طریقہ اکابر نقش بندیہ کا خصوصا اتباع سنت تھا اور  وہ کسی مذہب متعین کے مقلد نہ تھے۔اور ملا جیون تفسیر احمدی میں اولیا کا تعامل یہ بیان  فرماتے ہیں۔''یہ جائز ہے کہ مقلد ایک مذہب سے دوسرے مذہب کی طرف منتقل ہو جائے جیسے بہت سے  اولیاء اسی طرح کرتے رہے ہیں۔اور  یہ بھی جائز  ہے ایک مسئلے میں کسی مذہب پر عمل کرے اور دوسرے میں دوسرے مذہب پر جیسا کہ صوفیہ کا طریقہ تھا۔میں کہتا ہوں یہی وجہ ہے کہ طائفہ صوفیہ اور مشائخ فاتحہ خلف الامام کے قائل تھے چنانچہ

هذا الحديث يزيد بن ربيعة مجهول ولا يعرف له سماع عن ابيالاشعثفكان منقطعا فلا يصح الاحتجاج به وايضاحميعن يحييبن معين انه قال هذا حديث وضعة الزنادقة وهوا علم هذه الامة

ناظرین!

غور کیجئے خبر واحد تو صحیح ہوتے ہوئے بھی قابل استدلال و احتجاج نہ ہوا ایک منقطع باطل اور موضوع حدیث خبر واحد کی عدم حجیت پرقابل استدلال بن جائےعلمائے حنفیہ کا یہ فعل کیا  تعجب خیز وحیرتاانگیز نہیں ہے۔

ثانیاً!

صاحب اصو ل شاشی نے جس حدیثتكثر لكم الاحاديث بعدي الخسے خبر واحد  کی عدم حجیت و ابطال پراستدلال کیاہے خود وہ کتاب اللہ کے حکم عام کے معارض و مخالف ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہ۔

﴿ما اتكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا﴾

ترجمہ۔رسول ﷺ جو تم کو دیں لے لو۔اور  جسے سے منع فرمایئں اس سے باز رہو اس آیت کریمہ سے صاف طور پرثابت ہوتا ہے  کہ ر سول کریم ﷺ جو حدیث بسند صحیح و معبتر  ملے اس کو  بلا چون وچیرا عمل کرنا چاہیئے۔رسول اللہﷺ بلاشبہ اعلیٰ درجہ کے مفسر اور مترجم قرآن تھے اور آپ ﷺ جو کچھ کہتے تھے،۔ وحی الہیٰ سے کہتے تھے پس آپﷺ نے قرآنی آیات کا جو معنی اور مطلب بیان فرمایا وہی حق اور ثواب ہے۔اس کو چھوڑ کر محض اپنے فہم ناقص کی بنا   پر قرآن کے احکام و آیات پرعمل کرنا مومن کی شان نہیں۔مختصر یہ کہ صاحب اصول شاشی کے اصول عدم حجیت خبر واحد کی بنیاد  جس چیز پر ہے۔خود وہ باطل اور فاسد ہے۔کیونکہ کتاب اللہ کے معارض و  مخالف ہے۔

ثالثاً!

صاحب اصول شاشی کا یہ اصول خبر واحد سے کتاب للہ کی  تخصیص جائز نہیں ہے خود ان کے امام کے مسلک کے خلاف ہے بلکہ امام ابوحنیفہ کے علاوہ امام شافعی اوراحمد اور امام مالک (رحم اللہ علیہ اجمعین) کے مسلک کے بھی خلاف ہے کیونکہ ان آئمہ کے نزدیک خبر واحد سے کتاب اللہ کی تخصیص جائز ہے۔امام راضی تفسیر کبیر میں لکھتے  ہیں۔جس کا مختصر یہ  ہے کہ جو مسلک آپﷺ کا ہے۔وہ خلاف ابو حنیفہ ہے۔پھر اس پر مقلد ہیں آپ یہ اچھا لطیفہ ہے۔

ناظرین کرام!

علمائے احناف ک اصول خبر واحد کی عدم حجیت ناقابل تسلیم ہے کیونکہ اس چیز کی بنیاد جس چیز پر ہے وہ موضوع اور باطل ہے۔اس کے علاوہ کتاب اللہ کے بھی خلاف ہے  اآئمہ اربعہ کے مسلک سے بھی خلاف ہے۔جیسا کہ ابھی آپ نے ملاحظہ فرمایا۔

فوقع الحق وبطل ما كانو يعلمون (اخبار محمدی جلد نممبر  18 ش 19)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 ص 114-117

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ