سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(36) تعویز کا باندھنا یا گلے میں لٹکانا درست ہے یا نہیں۔؟

  • 3515
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 2376

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تعویز کا باندھنا یا گلے میں لٹکانا درست ہے یا نہیں۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر تعویز میں حدیث یا قرآن مجید کی کوئی دعا لکھی ہوئی ہے۔ یا اللہ کا نام لکھا ہوا ہے۔تو نابالغ بچوں کے گلے میں لٹکانا یا باندھنا درست۔اور بالغ مردوں او عورتوں کے لئے درست نہیں ہے۔بالغوں کو یہ دعائیں خود ہی پڑھنا چاہیئں۔جو تعویز کے بارے میں ہیں۔عبد اللہ بن عمر بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہفرماتے   ہیں۔کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا! کہ جب کوئی شخص خواب میں  ڈرے تو اسے یہ دعا پڑھنا چاہیے۔

اعوز بكلمات الله التامات من غضبه وعقابه و شر عبا ده ومن همذات الشياطين

تو شیطان کے وسوسوں سے اس کونقصان نہیں پہنچے گا۔حضرت عبد اللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہاپنے بالغ لڑکوں کو یہ دعا سکھا دیتے تھے۔ اور  نابالغ بچوں کے لئے اس دعا کولکھ کر گلے میں لٹکا دیتے تھے۔ (ترمذی)

اس روایت سے نابالغ بچوں کے گلے میں تعویز کا لٹکانا جائز ثابت ہوتا ہے۔اور بالغوں کے لئے اس لئے ناجائز ہے۔کہ پاکی نا پاکی کی حالت میں ساتھ رکھیں گے۔جس سے توہین لازم آئے گی۔ (مولانا عبد السلام بستوی دہلویؒ اخبار الاعتصام جلد نمبر 21 ش 5 )

توضیح

برائے بالغ تعویذ کو ناجائز قرار دینے کے لئے پاکی نا پاکی کی حالت قراردینے میں نظر ہے۔کیونکہ نابالغوں کی نسبت بچوں میں پاکی نا پاکی میں امتیاز کم اور  مشکل ہے۔تعویز کو کسی چمڑے وغیرہ میں محفوظ سلا جاتا ہے۔پھر توہین کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ورنہ لازم آئے گا۔کہ جس مکان میں قرآن مجید ہو۔ اس مکان میں بچو ں کو نہ سلایا جائے کیونکہ وہ ٹٹی کرکے بد بو پھیلایئں گے۔ جس مکان میں قرآن مجید ہو اس مکان کا بیت الخلا ء نہ ہو نہ کوئی چھت پر جائے کیونکہ نے ادبی ہوگی۔بہرصورت تسلیم کرنا پڑے گا۔کہ قرآن قرآن یا اس کی آیت کے اور گندگی کے درمیان چھت ہو یا دیوار یا کوئی اورپردہ ہو تو پھر بے ادبی نہیں جیسا کہ گندے نالے کے اوپر مسجد اور مسجد میں نماز اور قرآن مجید ہوتے ہیں۔بہر حال قرآن اور حدیث کے مطابق تعویز جائز ہے۔اگر نہ لکھے اور گلے ڈالے تو افضل ہے۔باقی تفصیل فتاویٰ علماء حدیث کی  جلد میں ہے۔فانہم ، تتدبر الراقم علی محمد سعیدی جامع سعید یہ  خانیوال۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 12 ص 127

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ