سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(30) کیا تنخواہ لے کر امامت جائز ہے۔؟...الخ

  • 3509
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1242

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

1۔کیا تنخواہ لے کر امامت جائز ہے۔؟

2۔کیا  مسلمان کسی نجومی سے کوئی چیز گم ہوجانے پر پوچھ سکتا ہے۔اگر  وہ بتادے تو اُس کے کہنے پر قسم کھا کر گمشدہ چیز وصول کرسکتاہے۔ یا نہیں۔؟

3۔غیب تو کسی کونہیں مگر فرعون کے نجومیوں نے پہلے ہی بتادیا تھا۔کہ ایک ایسا بچہ پیدا ہوگا۔اور وہ بچہ موسیٰ ؑ پیدا بھی ہوگئے۔یہ کیوں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1۔امامت  کے تنخواہ کے عدم جواز پر تو کوئی صحیح صریح معلوم نہیں۔حدیث

اتخذ موذنا لا ياخذ علي اذانه اجرا اخرجه الخمسة و حسنة الترمذي و صححه الحاكم

بلوغ المرام کے تحت سبل السلام میں لکھا ہے۔

انه لا يدل علي التحريم و قيل يجوز اخذها علي التاذين في محل مخصوص اذ ليست علي الاذان حينئذ بل علي ملازمة المكان كاجرة الرمد انتهي

2۔3۔ اس طریقے سے خبریں مہیاکرنے والے کو شریعت میں ۔۔۔عراف۔۔اور کاہن کہاجاتا ہے۔رسول اللہﷺ سے قبل ایسے لوگوں کا بہت چلن تھا۔لہذا آپﷺ نے اس فعل سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ایسے لوگوں کی بعض باتیں سچی بھی ہو جاتی ہیں۔جس کی وجہ حدیث شریف میں فرما دی گئی ہے۔ان لوگوں کی بات کی تصدیق تو کجا ان سے نفس پوچھنا ہی ناجائز ہے۔رہے اسرائیلی قصے تو  اولاً ان کی  تاریخی حیثیت کا قابل اعتماد ہونا ضروری نہیں۔ ثانیاً ان سے کوئی مسئلہ نہیں ثابت کیا جاسکتا۔جبکہ ہماری شریعت میں صراحۃ اس سے منع کر دیاگیا ہو۔اس سلسلے میں مندرجہ ذیل احادیث ملاحظہ ہوں۔

1۔عن عائشة قالت سال اناس رسول الله صلي الله عليه وسلم  عن الكهان فقال لهم رسول الله صلي الله عليه وسلم قالو با رسول الله صلي الله عليه وسلم فانهم يحدثون احيانا بالشي يكون حقا فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم تلك الكلمة من الحق يخطفهاالجني فيقرها في اذن وليه قر الدجاجة فيخلطون فيها اكثر من مائة كذبة (متفق علیہ)

یعنی کچھ لوگوں کے دریافت کرنے پر رسول اللہﷺ نے فرمایا! نجومی کی بعض بات سچی بھی ہوجاتی ہے۔کیونکہ جن ان ک بتا جاتے ہیں۔لیکن اس میں سو فیصد جھوٹ کی آمیزش ہوتی ہے۔

2۔عن ابي هريرة قال فال رسول الله صلي الله عليه وسلم من اتي كاهنا فصدق بما يقول فقد بري مما انزل علي محمد صلي الله عليه وسلم (احمد ۔ابودائود۔مشکواۃ)

3۔عن حفصة قالت قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من اتي عرا فانساله عن شئ لم تقبل له صلواة اربعين ليلة رواه مسلم (مشكواة)

قال البغوي العراف الذي يدعي  معرفة الامور بمقدمات يستدل بها علي المسروق ومكان الضالة ونحو ذلك (کتاب التوحید ص48 طبع منیر یہ مصر)

خلاصہ یہ ہے کہ  چوری وغیرہ کے معلوم کرنے کےلئے نجومیوں فال نکالنے والوں اور اس قسم کے استخارےکرنے لوگوں کے پاس جانا پھر اس پر کوئی حکم لگانا اورنتیجہ مرتب کرنا شرعا ناجائز اور ایمان کو خطرہ میں ڈالنے والا کام ہے۔لہذا قسم کھا کر گم شدہ چیز کی وصولی جائز نہ ہوگی۔افسوس  اس مرض میں ناواقفی کے سبب بعض اہل توحید بھی مبتلا ہو رہے ہیں۔  (جلد نمبر 21 ش 9)

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 12 ص 126

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ