سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(50) قربانی کے جانوروں کی عمر پر ایک تحقیقی مقالہ

  • 3395
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 7720

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

احکام قربانی کے کیا کیا ہیں۔تفصیلا بیان فرمادیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسلم شریف کی  روایت ہے۔

لا تذبحوا الا مسنة الا ان يعسر عليكم فتذبحوا جذعة من الضان

یعنی قربانی میں صرف مسنہ زبح کرو لیکن اگر میسر نہ ہو توبھیڑ کا جزعہ زبح کرو۔

چونکہ آپ ﷺ نے فرمایا!کہ بھیڑ کا جزعہ زبح کرو۔اس لئے معلوم ہوا کہ اور جانوروں کا مثلا اونٹ بکری گائے کا جزعہ جائز نہیں ہے بلکہ ان جانوروں کا  مسنہ ہی کرنا چاہیے۔اب ہم جزعہ اور مسنہ کی لغوی تحقیق اور شراح حدیث کی تشریھات زیل میں نقل کرتے ہیں تاکہ ان کےمعنی اوع مطالب بخوبی واضح ہو جاویں۔چونکہ جزعہ ضان کی کھلی ہوئی اجازت موجود ہے اس لئے ہمیں اس کی نسبت آئمہ حدیث کی تشریح و تحقیق نقل کرنے کے بعد جزعہ معز1(بکری کے جزعہ)جزعہ بقر2(گائے کا جزعہ)جزعہ ابل3(اونٹ کا جزعہ)کی بھی آئمہ حدیث کی  تحقیقات لکھ دینی چاہیے۔تاکہ پورے طریق س مسئلہ کی وضاحت ہو جاوے۔

جزعہ ضان کی عمر کی نسبت جمہور اہل علم اور آئمہ لغت کی تحقیق

فتح الباری میں ہے۔(فتح الباری پ 23 ص 329)

2۔نووی میں ہے۔(نووی شرح مسلم جلد ثانی ص155)

 3۔نیل الاوطار میں ہے۔

الجزع من اشضان ما له سنة تامة هذا هو الا شهر عن اهل الغة و جمهور من العلم من غيرهم (نیل الاوطار جز 5 ص 202)

تحفۃ الاحوزی میں بحوالہ نہایہ ابن کثیر میں ہے۔

ومن الضان ما تمت له سنة(تحفہ جلد ثانی ص55)

5۔مجع البحار  لغت حدیث میں ہے۔

 الجزع من الضان ما تمت له سنة(مجمع جلد اول ص181)

6۔بزل  المجہود میں ہے۔

في اللغة ما تمت له سنة(بزل جلد رابع ص71)

ان سب سے معلوم ہوا کہ بھیڑ کا جزعہ وہ بچہ کہلاتا ہے۔جو پورے ایک سال کا ہو۔نیز یہ معلوم ہوا ۔یہ مسلک جمہور اہل علم اور امامان لغت کا ہے۔خود حافظ ابن حجرؒ نے بھی اس قول کو جمہور اہل علم کی طرف منسوب فرمایا ہے۔ملاحظہ ہو۔

فمن الضان ما اكمل السنةوهو قول الجمهور (فتح پ23)

لیکن اور مسائل اختلافتہ کی طرح اس میں بھی حنفیہ نے اختلاف کیا ہے۔جس کا زکر خود آئمہ حدیث نےاور فقہ کے مصنفین نے بھی کیا ہے۔

جزعہ ضان کی عمر میں حنفیہ اور حنابلہ کا اختلاف اور جمہور اہل علم اور آئمہ لغت سے ان کا شذوز

1۔ہدایہ میں ہے۔

والجزع من الضان ما تمت له ستة اشهر في مذهب الفقهاء

(ہدایہ مع کفایہ جلد رابع ص 34)

2۔نووی میں اس طرح زکر ہے۔

قبل ما له ستة اشهر(نووی جلد ثانی ص155)

3۔فتح الباری میں  اس  طرح ہے۔

وثانيها نصف سنة وهو قول الحنفية وحنابله(فتح پ23 ص 329)

4۔بزل المجہود میں ہے۔(بزل جلد رابع ص71)

تصریحات بالا سے معلوم ہوا کہ احناف کے نزدیک جزعہ ضان بھیڑ کا وہ بچہ ہے۔جو پورے 6 ماہ کا یا اس سے کچھ زیادہ عمر کا ہو۔چونکہ یہ قول لغت کے خلاف تھا۔اسلئے ہدایہ میں جزعہ ضان کی تشریح کرتے ہوئے۔فی مذہب الفقہاء کی قید لگا دی تاکہ یہ ظاہر ہو کہ آئمہ لغت کی یہ تشریح نہیں ہے۔کفایہ میں ہے۔

قيد بمزهب الفقهاء احتراز ا عن قول اهل اللغة(کفایہ جلد 4 ص 34)

اسی طرح بزل المجہود میں ہے۔

وفيه بقوله شرعا لانه في اللغة ما تمت له سنة(بزل جلد 4 ص71)

معلوم ہوا کہ آئمہ لغت کی تصریح احناف کے مذہب کے یکسر خلاف ہے۔ اور یہ کہ صحیح مسلک وہی ہے۔جسے ہم نے امام شوکانی ۔امام نووی۔حافظ ابن حجرؒ کی تصریحات سے جمہور اہل علم کی تحقیق کے مطابق یکسالہ بچہ کا قول نقل کیا ہے۔اس بارے میں او ر بھی شاز اقوال ہیں۔جنھیں قیل سے تعبیر کیا گیا ہے۔چونکہ وہ جمہور اہل علم کے خلاف ہیں۔اورآئمہ مذاہب میں سے کسی مشہور مذہب کی طرف منسوب بھی نہیں۔اس لئے ہمیں ان کے اعادہ کی ضرورت بھی نہیں۔اعلام۔حسب تصریح حافظ ابن حجرؒ وغیرہ جزعہ ضان وہی ہے۔جو یکسالہ ہو پس بعض کتب اہل حدیث میں بھیڑ کے چھ سات ماہ والے بچہ کے قربانی کی نسبت جو اجازت ملتی ہے۔وہ در اصل فقہی اجتہادی قول حنفیہ کے مطابق ہے جو کہ جمہور اہل علم اور آئمہ لغت کے خلاف ہے۔

جزعہ معز کی اجازت ایک صحابی کو

 جزعہ ضان کی بحث سے فارغ ہو کر اب ہم جزعہ معز کی نسبت امامان حدیث کی کتابوں سے نقل کر کے یہ ثابت کریں گے۔کہ''جزعہ معز''اور کسی کے لئےجائز نہیں۔صرف ایک صحابی کےلئے رسول کریم ﷺ نے مخصوص اجازت دی تھی۔اوراس موقع پر ہم جزعہ معز کی نسبت بھی شراح حدیث کی تصریحات کو نقل کریں گے۔بخاری شریف میں ایک ر وایت ہے کہ حضرت ابو بردہ بن نیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  نماز عید سے پہلے اپنی قربانی کوزبح کرڈالا تو تو آپﷺ نے فرمایا!

شاتك شاة لحم

کہ پہلے کر ڈالنے سے تو صرف گوشت خوری کا فائدہ ہوگا قربانی تو نہ ادا ہوئی۔تو حضرت ابو بردہ نے کہا۔میرے پاس معز کا جزعہ موجود ہے۔حکم ہوتو اس کی قربانی کردیں۔تو آپ ﷺ نےفرمایا۔

اذبحها ولا تصلح لغيرك (ملاحظہہوبخاری پ23)

مسلم شریف میں اسی طرح ہے کہ انہوں نے کہا تھا۔

هي خير من مسنة

اور مسلم کی ایک دوسری روایت میں ان کا یہ مقولہ ہے۔

مطلب یہ ہے کہ انہوں نے جزعہ معز کے لئے اجازت طلبی کے موقع پر کہا کہ میرا جزعہ معز اس قدر فربہ اور تیار ہے۔کہ مسنہ سے بھی بہتر اوردو بکریوں سے بھی عمدہ ہے۔تب آپﷺ نے فرمایا!خیر تم اس کو زبح کر دو لیکن دوسرے کیلئے جائز نہیں۔

(مسلم جلد ثانی ص 154)

مسلم اور بخاری کی متفق  علیہ روایت سے ظاہر ہے کہ جزعہ معز دوسرے کے لئے جائز نہیں ہے۔چنانچہ امام نووی شارح مسلم نے اپنی فوائد میں لکھا ہے ۔

وفيه ان جذعة من المعز لا تجزي في الاضحية قال النووي وهذا متفق عليه

(نیل الاوطار جز خامس  مصری ص202)

صاحب عون لکھتے ہیں۔

ان الجذع من المعز لا يجزي عن احدولا خلاف ان لاثني من المعز جائز

(عون المعبود جلد ثالث ص 54)

اب ہم شراح حدیث اور  آئمہ لغت کی تصریحات جزعہ معز کی نسبت نقل کرتے ہیں۔تاکہ یہ معلوم ہو  کہ جس جزعہ معز سے حضور اکرم ﷺ نے منع فرمایا ہے اس کی عمر کیا ہے۔؟جزعہ معز کی نسبت1 حافظ  بن حجرؒ نے لکھا ہے۔

فهوا ما دخل في السنة الثانية(فتح الباری پ33 ص 324)

2۔تحفۃ الاحوزی میں نہایہ ابن ایثر کے حوالہ سے یہ عبارت ہے۔

الجزع من البقر والمعز ما دخل في السنة الثانية(تحفہ جلد ثانی ص355)

3۔منتہی الادب میں ہے۔جزع آنچہ از ثنی باشد یعنی گو سپند وگائو بسال دوم درآمدہ

(منتہی الادب جلد اول ص 191)

4۔فقہ للغۃ میں ہے۔

كل من اولاد المعزوالضان في السنة الثانية جزع فقد اللغة وسرالعربية للامام اللغوي الثعالبي ص 150

5۔مجمع البحار میں ہے۔

الجزع من البقر والمعز ما تم له سنة وطغت في الثانية

(مجمع جلد اول ص181)

6۔بزل المجہود میں ہے۔

 واما الجزع من المعز فهوما دخل في السنة الثانية

(بزل جلد 4 ص 17 نقلاً عن الحافظ)

ان تصریحات بالا سے معلوم ہوا کہ بکری کا وہ بچہ جوایک سال پورا کر کےدوسرے سال میں داخل ہو وہ جزعہ معز کہلاتا ہے۔اب ظاہر دباہر ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ہے۔پس کسی صورت میں بکری بکرا خصی بدھیا جو پورے ایک سال کے ہوں قربانی کے لئے درست نہیں۔

عتود یعنی بکری  کا یکسالہ بچہ کی اجازت ایک اورصحابی کو

بخاری شریف میں ایک دوسری روایت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قربانی کے کچھ جانور صحابہ کرام میں تقسیم کرنے کیلے حضرت عقبہ بن عامر کے سپر د فرمائے۔تو انھوں نے تقسیم کر دیئے باقی صرف ایک عتود رہ گیا تو حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میرے لئے تو کچھ نہیں رہا۔صرف ایک عتود باقی بچتاہے۔تو حضورﷺ نے فرمایا!ضح بہ انت کہ تم اسی کی قربانی کر دو۔

(بخاری شریف پارہ نمبر  23 کتاب الاضاحی)

یہ روایت مسلم شریف میں بھی ہے۔حافظ ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں اس کی شرح میں لکھا ہے۔کہ امام بیہقی نے صحیح سند کے ساتھ حضرت عقبہ بن عامر کے اسی واقعہ کےمتعلق حضور  ﷺ کے یہ الفاظ نقل فرمائے ہیں۔(فتح پ 23 ص 327)

مسلم کے شارح امام نوویؒ لکھتے ہیں۔

روي البيهقي باسناد الصحيع عن عقبة بن عامرقال اعطاني رسول الله صلي الله عليه وسلم غنما اقسمها ضحايا بين اصحابي فقيعتود منهافقال ضح به انت ولا رخصة فيها لاحد بعدك

امام بیہقی کی روایت صحیحہ کے مطابق مطلب یہ ہوا کہ حضور ﷺ نے یکسالہ بکری کی قربانی کی  اجازت صرف عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو دی تھی۔اور سدا للباب فرمادیا کہ تمہارے سوا اور کسی کیلئے اس کی اجازت نہیں ہوسکتی۔

ناظرین کرام!بخاری اور مسلم کی ہر دو روایات گزشتہ پرنظر ڈالنے سے  معلوم ہو سکتا ہے۔کہ حضورﷺ نے اس قسم کی اجازت دو صحابیوں کو دی تھی۔ ایک حضرت ابو بردہ بن نیار۔اور دوسرے حضرت عقبہ بن عامر رضوان  اللہ عنہم اجمین کو چنانچہ امام نوویؒ فرماتے ہیں۔

قال البيهقي وسائر اصحابنا وغيرهم كمانت هذه رخصة لعقبةبنعامر كما كانمثلها رخصة(لابی بردہ بن نیاز۔نووی صٍ155)

حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں۔

فلم يثبت الا جزاء لا حد و نفيه عن الغير الا لا بي بردة و عقبه بن عامر

یعنی ابی بردہ بن نیار  کی  طرح عقبہ بن عامر کوبھی رخصت مل گئی تھی۔ اور ان دونوں کے سوا کسی اور کیلئے ثابت نہیں۔(فتح پارہ 23 ص 329 وکزانی زرقانی جلد ثانی ص344)

اسی طرح امام شوکانی ؒ لکھتے ہیں۔

والتاويل الذي قاله البيهقي وغيره متعين والي المنع من التضحية بالاجزع من المعز ذهب الجمهور

(نیل الاوطار مصری جز خامس ص 204روایت عقبہ بن عامر)

یعنی امام بیہقی ؒ نے جو توجیح کی ہے۔ وہی درست ہے صرف ان دونوں کے لئے رخصت تھی۔ان کے ماسوا اوروں کے لئے عتود (جزعہ معز) کی قربانی نا درست ہے۔جیسا کہ یہی جمہور کا مسلک ہے۔اب ہم عتود کی تشریح نقل کرتے ہیںَ۔تاکہ معلوم ہو کہ حضور ﷺ نے جس عتود سے منع کیا ہے اس کی عمر کیا ہے۔

عتود کی تشریح آئمہ حدیث و لغت کے اقوال سے

فتح الباری میں ہے۔

وهوا من اولاد المعز ما قوي ورعي واتي عليه حول

(فتح پارہ 23 ص 327)

2۔نووی میں ہے۔

قال اهل اللغة العنود من اولا د المعز خاصة قال الجوهري وغيره هو ما بلغ سنة((نووی جلد ثانی ص155)

عون المعبود میں بحوالہ نہایہ یہ عبارت ہے۔

العنود من اولاد المعز اذا قوي و اتي عليه حول (عون المعبود جلد ثالٹ ص53)

4۔نیل الاوطار میں ہے۔

قلت والعنود من ولد المعز ما رعي وقوي واتي عليه حول(نیل جز 5 ص303)

5۔تیسرا الوصول میں ہے۔

والعتود من ا ولاد المعز ما اتي عليه حول

(ملاحظہ ہو کتاب الاضاحی فصل ثالث فیما یجزی من الاضاحی)

6۔زہر الربی میں ہے۔

العتود  هو ا الصغير من ا ولاد المعز اذا قوي ورعي و اتي عليه حول

(زہر الربی علی النسائی للعلامہ جلال الدین السیوطی ص 203)

7۔کشف الغمہ میں ہے۔

والعتود  من ا ولاد المعز ما رعي و قوي و اتي عليه حول

(کشف الغمہ مصری للامام الشعرانی جز اول ص189)

8۔مجمع البحار میں ہے۔

هي ا الصغير من ا ولاد المعز اذا قوي  و اتي عليه حول(مجمع جلد3 ص345)

9۔منتہی الارب میں ہے۔

عتود بزغاله يكساله (منتہی الارب جلد سوم ص90)

ناظرین کرام!ان حوالہ جات بالا سے ظاہر ہے۔کہ عتود جس کی اجازت حضرت عقبہ بن عامر کو تنہا ملی تھی ۔اور دوسروں کےلئے ممنوع کردیا گیا ہے۔وہ بکری کا یکسالہ بچہ ہے۔پس اس روایت سے بھی ظاہر ہے۔کہ بکری بکرا خصی بدھیا جو یکسالہ ہوں ان کی قربانی درست نہیں۔

چونکہ حضور ﷺ نے جزعہ ضان کی اجازت جزعہ کے ساتھ ضان کی قید لگا کر دی ہے اس لیے معلوم ہوا کہ سوا جزعہ ضان کے جزعہ  معز جزعہ بقر جزعہ ابل کی اجازت نہیں ہے جزعہ معز کی نسبت تو پہلے مفصلا بیان ہو چکا ہے اب جزعہ بقر اورجزعہ ابل کی  عمروں کی نسبت لکھا جاتا ہے تاکہ معلوم ہوا کہ اس عمر کی گائے اور اونٹ بھی نا درست ہیں۔

جزعہ بقر کی عمر

تحفتہ الاحوزی  میں نہایہ کے حوالہ سے ہے۔

الجزع من المعز والبقر ما دخل في السنة الثانية(تحفہ جلد ثانی ص355)

2۔کفایہ میں بحوالہ مغرب لکھا ہے۔

الجزع من البها ئم ما قبل الثني و من البقر والشاة في السنة الثانية

(کفایہ جلد رابع ص34)

جزعہ ابل کی عمر

فتح الباری میں ہے۔

الجزع من الابل ما دخل في الخامسة(فتح پ63 ص324)

2۔کفایہ میں بحولہ مغرب منقول ہے۔

الجزع من البها ئم ما قبل الثني و  الا انه من الابل  في السنة الخامسة

(کفایہ جلد رابع ص34)

3۔فااذا كان الابل  في  الخامسة فهو جزع

(فقہ اللغۃ للامام اللغوی الثالبی ص147)

4۔منتہی الارب میں ہے۔

شتر بسال پنجم درآمدہ (منتہی الارب جلد اول ص191)

حوالہ جات بالا سے معلوم ہوا کہ جزعہ بقر گائے کا وہ بچہ ہے جو دوسرے سال میں داخل ہوا اورجزعہ ابل اونٹ کا وہ بچہ ہ جو چار سال ختم کر کے پانچویں میں داخل ہو۔پس جس طرح جزعہ مئز قربانی کے لئے درست نہیں ہے۔اس  طرح جزعہ بقر اور جزعہ ابل بھی قربانی کےلئے جائز نہیں۔شاہ  والی اللہ صاحب مسوی شرح موطا میں لکھتے ہیں۔

لا يجوز من الابل والبقر والمعز دون الثني (مستوی جلد  اول ص181)

اور بزل المجہود میں مولنا خلیل احمد صاحب سہارنپوری لکھتے ہیں۔

لا يجوز الجزع من المعز وغيره بلا خلاف(بزل المجہود جلد 4 ص 71)

مطلب یہ ہے کہ جزعہ معز و بقر و ابل بالا تفاق نا جائز ہے۔ہاں بقر ۔معز۔ابل کی قربانی جائزہے۔مگر اس وقت جب یہ مسنہ ہوں ورنہ نہیں۔اب ہم زیل مسنہ کی نسبت علماءحدیث  و امامان لغت کی تحقیقات لکھیں گے۔تاکہ معلوم ہو کہ مسنہ جو قربانی کے لائق ہے۔اُس سے شارع کی  مراد کیاہے۔؟

مسنہ کی  تعریف شارحین حدیث وامامان لغت کی زبان سے

1۔امام نووی ؒ نے لکھا ہے۔

قال العلماء المسنة هي الثنية من كل شئ من الابل والبقر والغنم والثنية اكبر من الجزمة بسنة(نووی جلد ثانی ص155)

2۔امام شوکانی ؒلکھتے ہیں۔

المسنة هي الثنية من كل شئ من الابل والبقر والغنم بسنة فما فوقها

(نیل الاوطار  جلد خامس ص212)

3۔حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے۔

قال اهل اللغة المسن الثني الذي يلقي سنة ويكون في ذات الظلف والحافر في السنة الثالثه وقال ابن عباس اذا دخل ولد الشاة في الثالثة فهو ثني و مسن (فتح الباری پارہ 23 ص 328)

4۔علامہ امیر یمانی نے لکھا ہے۔

المسنة الثنية منكل شئ من الابل والبقر (سبل السلام ص47)

5۔صاحب فتح العلام نے لکھا ہے۔

الثنية من الغنم ما دخل في السنة الثالثة ومن البقر كذالك و من الابل في السادسة (فتح العلام مصری جلد ثانی ص295)

6۔حضرت شاہ ولی اللہ ؒ صاحب نے لکھاہے۔

الثني من الابل ما سسنكملخمس سنن و من البقر والمعز ما اسنكمل سنتين وطعن في الثالثة (مسوی شرح موطا جلد 1 ص 181)

7۔صاحب تیسرا الوصول نے لکھا ہے۔

الثني من ذوات الظلف والحافر ما دخل في السنة الثالثة و من ذوات الخف ما دخل في السنة السادسة

(تیسرا الوصول خلاصہ تجرید لاصول مولفہ قاضی القضاہ شرف الدین البرزی باب الہدی والاضاحی)

8۔علامہ شیخ محمد طاہر نے لکھا ہے۔

الثنية من المعز ما دخل في السنة الثالثة و كذا من البقر و من الابل ما دخل في السادسة (مجمع البحار جلد اول ص166)

9۔صاحب عون نے بحوالہ نہایہ لکھا ہے۔

الثنية من المغنم ما دخل في السنة الثالثة و كذا من البقر كذالك  و من الابل ما دخل في السادسة (عون المعبود جلد ثالث ص 53)

واضح ہو کہ غنم معز اور ضان یعنی بکری اور بھیڑ دونوں کو بولا جاتا ہے۔ملاحظہ ہو مجمع البھار جلد ثانی ص 277

وكذا في مبزل الجمهود والغنم صفان المعز والضان(بزل جلد رابع ص71)

خف ور حافر بے چرے ہوئے کھر کو کہتے ہیں۔مگر خُف اونٹ کیلئے بولا جاتا ہے۔اورحافر گھوڑے کیلئے ملاحظہ ہو۔(مجمع البحار جلد اول ص320)

اور زف چرے ہوئے کھر کو کہتے ہیں۔جو کہ گائے ۔بکری۔اور بھیڑ میں ہوتا ہے۔مجمع میں ہے۔

والظلف هوا المنشق من القو ائم للبقر والغنم كاالحافر للفرس والخف للبعير

(مجمع البحار جلد ثانی ص332)

ان حوالہ جات سے یہ چند امور ظاہر ہوئے اول یہ کہ مسنہ اور ثنیہ ہم معنی اور مترادف الفاظ میں دوئم یہ ثنیہ معز1۔ثنیہ ضان2۔ثنیہ بقر3 ہم عمر جانوروں کا نام جیسا کہ ہمارے حوالہ جات کے 3۔5۔6۔7۔8۔9 سے ظاہر ہے۔سوم ثنیہ معز و ضان اور ثنیہ بقر اور ثنیہ ابل کی عمروں کا تعین معلوم  ہوئی چنانچہ اس کوتفصیل کے ساتھ  نیچے لکھا جاتا ہے۔

ثنیہ ابل1اونٹ کا وہ بچہ ہے۔جو پانچ سال پورا کر کے چھٹے سال میں قدم رکھے۔ثنیہ بقر 2 گائے کا وہ راس ہے۔جو دو سال پورا کر کے تیسرے سال  میں قدم رکھے۔ثنیہ معز3بکری خصی کا وہ راس ہے ۔جو دو سال پورا کر کے تیسرے سال میں قدم رکھے۔ثنیہ غنم4بھیڑ یا یا مینڈھا کا وہ راس ہے۔جو دو سال پورے کر کے تیسرے سال میں قدم رکھے۔ جب اونٹ یا گائے یا بکری ثنیہ ہو جاوے۔یعنی وہ ان عمروں کو پہنچ جاویں جس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے۔تب یہ جانور قربانی کے لائق ہوتے ہیں۔

محدثین کرام کی روش مسنہ کی تشریح میں مختلف رہی ہے۔ بعضوں نے مسنہ کی تشریح میں جانور کے ساتھ اس کی عمر کی قید لگا دی ہے۔کہ جس عمرمیں وہ جانور مسنہ ہوتا ہے۔اور بس اور بعضوں نے دانت نکلنے کو اصل سمجھ کر عمر کا زکر تبعا کیا ہے۔چنانچہ ہم اب اسی کا زکر کرتے ہیں۔

1۔فتح الباری میں ہے۔

وحكي ابن التين عن الداودي ان المسنة التي سقطت اسنانها لنبدل و قال اهل اللغة المسن الذي يلقي سنه ويكون في ذات الحف في السنة السادسة وفي ذات الظلف والحافر في السنة الثالثة (فتح پ23 ص 328)

2۔عون المعبود میں ہے۔

الثني من ا لابل الذي يلقي سنة و ذالك في السادسة ومن الغنم الداخل في السنة الثالثة

بحوالہ محکم اور بحوالہ صحاح یہ عبارت ہے۔

الثني الذي يلقي ثنية و يكون في ذالك الظلف والحافر في السنة الثالثة و في الخف في السنة السادسة(عون جلد 3 ص 53)

3۔سندھی علیٰ حاشیہ نسائی میں ہے۔

مسنة اسم فاعل من اسنت اذا طلع سنها وذالك بعد السنتين لا من اسن الرجل اذا كبر(مقولہ علامہ سندھی حنفی علی النسائی جلد 2 ص203)

4.تیسرا الوصول میں ہے۔

المسنة التي لها سنون (تیسرا لوصول فصل ثالث فیما یجزی من الضاحی)

5۔مجمع البحار میں ہے۔

والمسنة تقع علي البقرة والشاة اذا اثنيا و يثنيان  في السنة الثالثة

(مجمع جلد ثانی ص148)

6۔منتہی الارب میں ہے۔

ثنیہ کہ دندان پیش برامدہ ای ناقی درف سال ششم ورامد و گوسپند وگائو در سوم درآمدہ

(منتہی الارب جلد اول ص170)

7۔فقہ لغت میں ہے۔(ملاحظہ ہو فقہ لغہ وسر العربیۃ امام لغوی ثالبی)

8۔منجد میں ہے۔

الثني الذي يلقي ثنية وهي اسنان مقدم الضم(منجد بحث ثنی)

ناضرین کرام!ان حوالہ جات بالا سے یہ ظاہر  ہوا کہ مسنہ یا ثنیہ اونٹ یا گائے یا بکری ہے کہ جس کے دودھ کے دانت آگے کے نوجوانانہ دانتوں کے نکلنے کے سبب گر گئے ہوں اور بلحاظ عمر وہ اونٹ ثنیہ ہے۔جو چھٹے سال میں قدم  رکھے۔اور اسی طرح وہ گائے یا بکری ثنیہ (مسنہ) ہے جو تیسرے سال میں قدم رکھے۔نیز یہ بھی ظاہر ہوا کہ بقر اور معز جب ثنیہ ہوتے ہیں۔تودونوں ہم عمر ہوتے ہیں۔یعنی بکری بھی اپنے دانت ہوتے وقت تیسرے سال میں داخل ہولیتی ہے۔اور گائے بھی اپنے دانت ہونے کے وقت تیسرے سال میں داخل ہو لیتی ہے۔جیسا کہ یہ مسئلہ ہمارے پہلے قائم کردہ حوالہ جات کے علاوہ مندرجہ بالا حوالا جات کے 1۔2۔5۔6۔7 سے ظاہر ہے۔مسنہ کے متعلق مذکورہ بالا مباحث جو عرض کیے گئے ہیں۔وہ سب تقریباً کتاب الاضاحی کے متعلق ہیں۔اب ہم کو مسنہ کی تشریح میں کتاب الزکواۃ سے جو ملتی ہے۔اس کو بھی عرض کرتے ہیں۔کتاب الزکواۃ باب صدقہالبقر میں

ومن كل اربعين بقره مسنة

کے حدیث میں مسنہ کالفظ وارد ہے۔اس کی تشریح شارحین حدیث نے جو فرمائی ہے وہ حسب زیل ہے۔

1۔زرقانی شرح مو طامیں ہے۔

مسنة التي دخلت في الثالثة(زرقانی جلد 2 ص57)

2۔مصفٰی میں ہے۔

مسنہ آنست کہ گزشتہ باشدبردے دو سال وداخل شدد رسال سوم

(مصفیٰ 1 ص204)

3۔مسویٰ میں ہے۔

والمسنة التي طعنت  في الثالثة (مسوٰی جلد اول ص 205)

4۔سندھی حاشیہ نسائی میں ہے۔

مسنة اي ما دخل في الثالثة (مقولہ علامی سندھی حنفی نسائی 1 ص 339)

5۔تحفۃ الاحوزی میں ہے۔

مسنة اي ما كمل له سنتان و طلع سنها و دخل في الثالثة

(تحفۃ الزکواۃ ص4)

6۔بزل المجہود میں ہے۔

مسنة وهي التي طعنت في الثالثة سميت بذالك لا نها طلعت سنها

(بزل المجہود جلد ثالث کتاب الزکواۃ ص17)

7۔ہدایہ کفایہ میں ہے۔

وهي التي طنعت في الثالثة(کتاب الزکواۃ فصل فی البقر ص123)

ناظرین کرام!حوالہ جات بالا سے  ظاہر ہے و باہر ہے۔کہ مسنہ گائے کی وہ راس کہلاتی ہے۔ جس کے دانت نکل آئے ہوں۔اور دو سال پورے کر  ےکے تیسرے سال میں قدم رکھے۔واضح رہے عون المعبود سبل السلام فتح العلام کے کتاب الزکواۃ باب صدقۃ لبقر میں مسنہ کی تشریح میں ''زات الحولین''لکھاہے۔مگر یہ اگلی تشریحات کے معارض نہیں۔کیونکہ جو راس دو سال پورے کرکےتیسرے میں قدم رکھے۔وہ ذات الحولین تو بہر حال ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی بات ہے کہ عون المعبود اورفتح الکلام کے کتاب الاضاحی کے تحت لفظ مسنہ انہی شارحین نے مسنہ بقر اُسے قرار دیا ہے۔جو دوسال پورے کر کے تیسرے میں قدم رکھے۔پس ان کے ہردو مقام  کی تشریح میں کوئی تعارض پیدا کرنے کی بجائے وہی تطبیق دینی چاہیے۔جو کہ میں نے عرض کی ہے۔بہر حال کتاب الزکواۃ کے اندر واقع شدہ لفظ مسہ کے وہ تشریحات جو بحوالہ تحفہ و سندھی وبزل و مسوی ٰ وغیرہ کے عرض کئے گئے ہیں۔اُن  تشریحات کے بالکل مطابق ہیں۔جو کتاب الاضاحی کےلہاظ مسنہ کے ما تحت پہلے عرض کیے جاچکے ہیں۔ان سب کا ماحصل یہ ہے۔کے اونٹ اور گائے اور بکری اس وقت قربانی کے قابل ہوں گے۔جب کہ ان کے دودھ کے دانت نوجوانانہ دانتوں کے نکلنے کے سبب گر جاویں۔اور اونٹ پانچویں سال سے نکل کرچھٹے سال میں قدم رکھ لے۔اور گائے و بکری دو سال پورے کر کے تیسرے میں قدم رکھیں۔کہ دانت کا نکلنا ہی اور مذکورہ بالا عمروں مذکورہ بالا جانوروں کا پہنچنا ان کے ثنیہ او ر مسنہ ہونے کا وقت ہے۔

واضح ہو کہ جانوروں کے ثنیہ ہونے کے لئے صرف ان کے دانت کا نکلنا ضروری ہے۔کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ کسی سرزمین کی آب و ہوا کی تاثیر ایسی ہو کہ وہاں مذکورہ بالا جانور مذکورہ بالا عمروں میں پہنچنے سے کچھ پہلے ہی مسنہ دانت والے ہوجاویں۔تو ایسے موقعہ پراعتبار دانت کے نکلنے کا ہی رہے گا۔کیونکہ دراصل مطمع نظر ہر ایک کا دو دانت ہے۔اور عمروں کی نسبت جو تفصیلات ہیں۔وہ محدثین کرام کے تجربہ اور پیش آمدہ اندازہ ہیں۔اس لئے ناقص راقم الحروف کی رائے میں بغرض سہولت قربانی کے جانوروں ک شناخت کا دارومدا اگلے دانتون کے نکلنے کے موقع پر عمروں کی جو متعین فرمائی ہے وہ بہت بڑی حد  تک اک کے صحیح تجربہ پر مبنی ہو۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا  عمل

عن نافع ان عبد الله بن عمر كان بتقي من الضحايا والبدن التي لم تسن

یعنی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔احترازمے کر داز قربانیا اشتراں ہدے چیز ے کہ دنداں نہ برآوردہ(مصفی جلد اول ص181)

زرقانی میں ہے۔

لا يضحي الا مثني المعز والضان والابل والبقر(زرقانی 3 ص223)

مطلب یہ ہے کہ حضرتگ عبد اللہ بن عمر بھیڑ بکری اونٹ گائے میں سے ہر ایک چیز کی قربانی اس وقت کرتے  تھے جبکہ ان کے دانت نکل آئیں۔اگرچہ بھیڑ کا جزعہ یعنی بے دانت والا حسب فرمان نبویﷺ کے جائز ہے۔مگر وہ بھیڑ کا دانتا ہی قربانی میں کرتے تھے۔بہر حال جزعہ ضان کے سوا اورجانوروں کی قربانی کیلئے دانت ہونا ضروری ہے۔صرف دانت کی شرط ضروری قرار دینے سے جیسا کہ محدثین اعلام کی تصریحات سے پہلے زکر کیا جا چکا ہے۔جماعت اہل حدیث اوراحناف میں جو اس کے اندر اختلاف ہے۔وہ بھی رفع ہوسکتا ہے۔کیونکہ حنفیہ کہتے ہیں کہ مسنہ وہ ہے۔جو دانت والا ہو۔ملاحظہ ہو۔(بزل المجہود کتاب الزکواۃ ص17)

اور ملاحظہ ہو مقولہ علامہ سندھی حنفی علی النسائی جلد ثانی ص203 اور ملاحظہ ہو مجمع البحار ج ثانی ص148)اور جماعت اہل حدیث بھی یہی کہتی ہے۔کہ مسنہ وہی ہے جو دانتہ ہو۔پس اختلاف کہاں رہ گیا۔

کون کہتا ہے کہ ہم تم میں جدائی ہوگی

یہ ہوائی  کسی دشمن  نے اُڑائی ہوگی۔

ہم صاحب بزل کی تشریح پرکہ مسنہ وہ ہے جس کے دانت نکل آئے ہوں۔خوش وہ رہے تھے۔ لیکن قدوری و  بدائع کے حوالے سے آپ کے اس لکھنے پر کہ

الثني من المعز والضان ابن سنة

کیوں نہ ہو یہ تو امام ابو حنیفہ ؒ کا مذہب ہے۔

والمعز ما تمت له سنة (ملاحظہ ہو مسویٰ جلد اول ص181والثني عند ابي حنيفه من الضان

اور ہدایہ میں ہے۔

والثني من الضان والمعز اين سنة

(ملاحظہ ہو ہدایہ مع کفایہ جلد 4 ص 34) (کزانی کترالدقائق ص421)

پس انتصار مذہب میں اگر قلم کا رخ ادھر بھی پھر گیا تو کیا بے جا ہوا؟ہاں مولانا کے رنگین قلم سے حیرت افزا متضاد تشریح پڑھ کر مجھے یہ شعر یا د آیا۔

معشوق  ما بمذہب ہر کس برابر است

با مطرب شراب خورد 'بازاہد نماز کرد

خلاصہ معروضات یہ ہے کہ قربانی کے لئے جانور کا دانتہ ہونا ضروری ہے۔ہاں بھیڑ مینڈھا اگر دانتہ نہ ہوں تو بھی جائز ہیں۔بشرط یہ کہ جمہور اہل علم کی تشریح کے مطابق وہ ایک سال کے ہوں۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 13 ص 129-147

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ