سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(17) سونے چاندی کے مجموعی نصاب زکوٰة کی وضاحت۔

  • 3074
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 3154

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کسی شخص کے پاس نصاب سے کم سونے کی مقدار ہے، اور کچھ چاندی بھی ہو، جو نصاب تک نہ پہنچی ہو، لیکن دونوں کی مجموعی طور پر حد نصاب یا نصاب سے زیادہ ہو جاتی ہو، تو کیا اس پر زکوٰۃ واجب ہو گی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 جب سونے اور چاندی کا نصاب الگ الگ ہو،تو اس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ زکوٰۃ میں اگر ایک نصاب کم ہو تو اس کو دوسرے کے ساتھ ملا کر نصاب پورا نہیں کیا جائے گا، بلکہ جس کا نصاب پورا ہے، اس کی زکوٰۃ دینی پڑے گی، دوسرے کی نہیں۔ لیکن دونوں کی زکوٰۃ میں چالیسواں حصہ فرض ہونا اس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے، کہ یہ دونوں ایک ہی جنس ہیں، اور اس میں شبہ نہیں کہ نقدی ہونے کے لحاظ سے یہ ایک ہی ہیں، قرض میں یا کسی شے کی قیمت میں ویسے ایک کی جگہ دوسرا ادا کر دیا جائے، تو کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے، دیناروں کی جگہ درہموں کی ادائیگی اور درہموں کی جگہ دیناروں کی ادائیگی ایک ہی سمجھی جاتی ہے، بکری دنبہ میں اتنا اتحاد نہیں جتنا ان میں ہے، اسی طرح غلہ وغیرہ کی قسموں میں اتنا اتحاد نہیں، مگر ان سب کو ملا دیا جاتا ہے، یعنی ایک کا نصاب کم ہو تو دوسرے سے پورا کیا جاتا ہے، کیونکہ حدیث میں ((وفی الغنم))اور ((فیما سقت السمآء)) ہے، اور غنم عام ہے، بکری دنبہ دونوں کو شامل ہے، پس جب ان کو ملایا جاتا ہے تو چاندی سونا بطریقہ اولیٰ ملانا چاہیے، ان کا نصاب الگ الگ ہونا یہ نہ ملانے کی تسلی بخش دلیل نہیں ہے، کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ سونے کا نصاب اس لیے کم کر دیا کہ یہ نفیس جنس ہے، اور چاندی کی نسبت بہت کم یاب ہے، اگر اس کا نصاب چاندی جتنا ہوتا تو اس میں زکوٰۃ کی نسبت بہت کم ہوتی، کیونکہ چاندی کا نصاب ۲/۱.۵۲ تولہ ہے اتنا سوونا کسی سرمایہ دار کے ہی پاس ہو سکتا ہے، عام لوگوں کے نہیں، خلاصہ کہ ٹھوس دلیل کسی طرف نہیں، نہ ملانے کی طرف اور نہ ناملانے کی طجرف، اور یہ بات ظاہر ہے، کہ زکوٰۃ فرض ہے، اور فرض میں احتیاط ضروری ہے، اور احتیاط ملانے میں ہے، اور کئی علماء اس طرف بھی گئے ہیں، جیسے امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ اس لیے ترجیح اسی کو ہے، کہ ملانا چاہیے، تاکہ انسان مشتبہات سے نکل جائے، چنانچہ حدیث میں ہے، جو مشتبہات سے بچ گیا، اس نے اپنا دین اور اپنی عزت بچا لی، اور جو مشتبہات میں واقع ہوا، خطرہ ے، کہ حرام میں واقع ہو جائے۔
باقی رہی یہ بات کہ کس طرح ملایا جائے، سو اس میں امام ابو یوسف کا خیال ہے کہ وزن کے ساتھ ملایا جائے، یعنی جتنا ایک کانصاب کم ہو، اتنا اندازہ وزن کرکے دوسرے سے پورا کر لیا جائے، مثلاً چاندی ۲/۱.۲۶ تولے ہے، اور یہ چاندی کے نصاب کا نصف ہے، تو گویا ایک کا نصب اور نصف دوسرے کا یہ پورا نصاب ہو گا، گویا ایک کے وزن میں جتنی کمی ہے، اتنا وزن دوسرے کے نصاب سے موجود ہو تو زکوٰۃ فرض وہ جائے گی، امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں، قیمت کا حساب ہو گا، مثلاً سونے کا نرخ اس وقت نوے روپے تولہ ہے، اگر چاندی سوا چھبیس تولے ہے، اور سوا تین ماشہ کے قریب سونا ہو۔ تو امام محمد رحمۃ اللہ عنہ کے نزدیک زکوٰۃ پڑ جائے گی، کیوں ۴/۱.۳ ماشہ کی قیمت بحساب ۹۰ روپے فی تولہ ۲۶ روپے ہوتی ہے، پس چاندی کا حساب ۲/۱.۵۲ تولے پورا ہو گیا۔ اور اگر چاندی کی قیمت روپیہ فی تولہ کے حساب سے کم و بیش ہو تو اسی حساب سے سونا بھی ۴/۱. ۳ ماشہ سے کم و بیش سمجھ لیا جائے، اس صورت میں تو چاندی کے نصاب کی کمی سونے کی قیمت سے پوری کی جائے، تو یہ صورت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب پر کبھی صحیح ہو گی، کبھی نہیں، مثلاً پونے چار تولے سونے کی قیمت نوے روپے فی تولہ کے حساب سے ۲/۱.۲۳۷ روپے ہے، اگر کسی کے پاس پونے چار تولے سونا ہو، اور اتنی چاندی ہو جس کی قیمت ۲/۱.۲۳۷ روپے ہو، تو امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب پر صحیح نہیں، کیوں کہ چاندی یہاں نصاب سے زیادہ ہے ، تو ا س کو سونے کے تابع کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ چاندی میں مستقل طور پر زکوٰۃ فرض ہو گی، اور سونے میں چاندی کے ساتھ ملنے کی وجہ سے ہو گی، کیوں کہ سونے کا اپنا نصاب پورا نہیں، ہاں اگر سونے کا نصاب پر صحیح ہو گی، مثلاً سونا سات تولہ ہے، نصف تولہ نصاب سے کم ہے، اور نصف تولہ ۲/۱.۷ تولے کا پندرھواں حصہ ہے اب یہ پندرھواں حصہ چاندی سے پورا کرنا ہے، چاندی کا نصاب ۲/۱.۵۲ تولے ہے، اور ۲/۱.۵۲ تولے کا پندرہواں حصہ ۲/۱.۳ تولے ہے، امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ۲/۱. ۳ تولے چاندی سے نصاب پورا ہو گیا، کیوں کہ ان کے ہاں وزن کا حساب ہے، لیکن امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نصف تولہ سونے کی قیمت میں نصاب پورا کیا جائے گا، اور نصف تولے کی قیمت موجودہ نرخ کے حساب سے ۴۵ روپے ہے، تو گویا ۴۵ روپے جتنی چاندی آ سکتی ہے، اس سے امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نصاب پورا ہو جائے گا۔
یہ دونوں مذہبوں کا بیان تھا، لیکن عملی صورت ان میں بھی احتیاط چاہیے۔ پہلی صورت جس میں ۴/۱.۲۶ تولے چاندی ہے، اس میں امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب پر عمل میں احتیاط ہے، کیوں کہ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب پر پونے چار تولے سونا کی قیمت سے نصاب پورا ہو جاتا ہے، اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب پر قریباً ۲/۱.۳ ماشے سے اور دوسری صورت میں جس میں امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب پر ۴۵ روپے کی چاندی سے نصاب پورا ہو جاتا ہے، اس میں امام ابو یوسف کے مذہب پر عمل کرنے میں احتیاط ہے، کیونکہ ان کے مذہب پر ۲/۱.۳ تولہ چاندی سے نصاب پورا ہو جاتا ہے، جو ۴۵ روپے کی چاندی سے بہت کم ہے، غرض جب کسی طرف تسلی بخش دلیل نہ ہو تو پھر احتیاط والی صورت پر عمل ہوتا ہے، جیسے نماز کی رکعتوںمیں شک پڑ جائے تو کم سمجھ کر ایک اور پڑھ لی جاتی ہے، ایسے ہی یہاں سمجھ لینا چاہیے۔ (حافظ مولانا) عبد اللہ صاحب روپڑی، الاعتصام گوجرانوالہ، ۳۰ مئی ۱۹۵۲ء جلد۳ شمارہ ۴۱)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 7 ص 86۔88

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ