سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(89) کیا بعد نماز فرض ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا درست ہے یا بدعت۔

  • 3025
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 1067

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ یں کہ بعد نماز فرائض کے ہاتھ اٹھا کر کر دعا مانگنا درست ہے یا بدعت، زید کہتا ہے، کہ بعد نماز فرائض کے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا بدعت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صاحب فہم پر مخفی نہ رہے، کہ بعد نماز فرائض کے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا جائز و مستحب ہے۔ اور زید مخطی ہے۔ عن انس عن النبی صلی اللہ علیه وسلم انہ قال ما من عبد بسط کفیه فی دبر کل صلٰوة ثم یقول اللھم الھی اله جبرئیل و میکائیل و اسرافیل اسئلک ان تستجیب دعوتی فانی مضطر و تعصمنی فی دینی فانی مبتلی و تنالنی برحمتک فانی مذنب و تنفی عنی الفقر فانی متمسکن الا کان حقا علی اللہ عز و جل ان لا یرد یدیه خائبتین رواہ الحافظ ابو بکر بن السنی۔ عن الاسود العامری عن ابیہ قال صلیت مع النبی صلی اللہ علیه وسلم الفجر فلما سلمه انحرف و رفع یدیه و دعا الخ رواہ الحافظ ابو بکر بن ابی شیبة فی مصنفه
ترجمہ: آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو آمی نماز کے بعد اپنے ہاتھ پھیلا کر کہے، اے میرے، اور جبرائیل اور میکائیل اور اسرافیل کے خدا میں تجھ سے سوال کرتا ہوں۔ کہ تو میری دعا کو قبول فرمایا، میں بے قرار ہوں، میرے دین کو محفوظ رکھ میں فتنوں میں مبتلا ہوں، مجھے اپنی رحمت م لے لے، میں گنہگار ہوں، میرے فقر کو دور کر دے میں مسکین ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اس کے ہاتھوں کو خالی نہ پھیرے۔ ترجمہ: اسود عامری کے باپ کہتے ہیں کہ میں گنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز صبح پڑھی، جب آپ نے سلام پھیرا تو رخ ہماری طرف کیا، اپنے ہاتھ اٹھائے اور دعا مانگی۔
 اور حافظ جلال الدینؒ نے اپنی کتاب فض الوعا فی احادیث رفع الیدین فی الدعاء میں روایت کیا ہے۔ محمد بن یحییٰ اسلمی سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں اٹھاتے تھے اپنے ہاتھ کو دعا میں مگر جب فارغ ہوتے نماز سے اور کہا ہے، اس حدیث کے راوی جتنے ہیں سب ثقہ ہیں۔ عن محمد بن یحییٰ الاسلمی قال رأیت عبد اللہ بن الزبیر و رأی رجلا رافعا یدیه قبل ان یفرغ من صلٰوته فلما فرغ منھا قال ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لم یکن یرفع یدیه حتی یفرغ من صلٰوته و رجاله ثقات
ترجمہ: عبد اللہ بن زبیر نے ایک آدمی کو دیکھا، اس نے پوری نماز پڑھنے سے پہلے ہی ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتا گیا۔ آپ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہونے کے بعد ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔
اور نیز ابو دائود میں ہے کہ فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جب سوال کرو اللہ تعالیٰ سے تو سوال کرو بطون کف اپنے کے ساتھ اور نہ سوال کرو اس سے ساتھ ظہور کف اپنے کے۔ عن مالک بن یسار قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم اذا سألتم اللہ فسئلوہ ببطون اکفکم و لا تسئلوہ بظھورھا فاذا فرغتم فامسحوا بھا وجھه رواہ ابو داؤد۔ اور ترمذی میں ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہاتھ دعا میں اٹھاتے تو نہیں چھوڑتے تھے یہاں تک کہ مسح کرتے اپنے منہ کو۔ عن عمر قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا رفع یدیہ فی الدعا لم یحطھما حتی یمسح بھما وجھہ رواہ الترمذی اور نیز مشکوٰۃ کے صفحہ ۱۸۷ میں ہے۔ کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جب بندہ ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہے، تو اللہ شرم کرتا ہے کہ اس کے ہاتھ خالی پھیر دے۔ عن سلمان قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ان ربکم حی کریم یستحیی من عبدہ اذا رفع یدیه ان یردھما صفرا رواہ الترمذی و ابو داؤد و البیہقی فی الدعوات الکبیر۔ علاوہ اس کے دعا میں ہاتھ اٹھانا شریعت من قبلنا سے بھی ثابت ہے۔ چنانچہ بخاری صفحہ ۴۷۵ میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب ہاجرہ کو چھوڑ کر چلے، پھر جب کہ ثنیہ کے پاس پہنچے، تو قبلہ کی طرف منہ پھیر کر ہاتھ اٹھا کر دعا کی، امام نووی صاحب عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں ھذا حدیث مشتمل علی کثیر من الفوائد و منھا استحباب رفع الیدین فی الدعاء انتہٰی اور ادب المفرد کے صفحہ ۸۹ میں ہے۔ عن عکرمة عن عائشة انه سمعه منھا انھا رأیت النبی صلی اللہ علیه وسلم یدعو رافعا یدیه یقول اللھم انما انا بشر فلا تعاقبنی ایما رجل من المومنین اٰذیته او شتمته فلا تعاقبنی فیه۔
ترجمہ: حضرت عائشہؓ نے کہا، میں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے دیکھا۔ آپ کہہ رہے تھے۔ اے اللہ میں بھی ایک آدمی ہوں۔ اگر میں نے کسی مومن کو کوئی تکلیف دی ہو، یا کوئی سخت کلامی کی ہو تو مجھے معاف کر دینا۔
و عن ای ھریرة قال قدم الطفیل بن عمرو الدوسی علی رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فقال یا رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ان دوسا عصت و ابت فادع اللہ علیھا فاستقبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم القبلة و رفع یدیه فظن الناس انه یدعوا علیھم فقال اللھم اھدد وسا وائت بھم۔
ترجمہ: طفیل بن عمرو دوسی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا اے اللہ کے رسول دوس نے نافرمانی کی اور دین حق کا انکار کیا، آپ ان پر بد دعا کریں۔ تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ کیطرف متوجہ ہوئے، اور اپنے ہاتھ اٹھائے۔ لوگوں نے سمجھا کہ آپ ان پر بد دعا کریں گے۔ آپ نے فرمایا! اے اللہ دوس کو ہدایت دے۔ اور ان کو میرے پاس لا۔
پس ان احادیث سے ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے تھے۔ اور دعا میں ہاتھ اٹھانا مسنون طریقہ ہے۔ و اللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 220۔222

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ