سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(81) قنوت نازلہ کیا ہے ۔

  • 3017
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 10799

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 قنوت نازلہ کیا ہے؟ وہ کن حالات میں اور کیسے پڑھنی چاہیے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائی جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 نازلہ مصیبت کو کہتے ہیں اور قنوت دعا کو، اس لیے قنوت نازلہ کا معنی ہے۔ مصائب میں گھر جانے اور حوادث روزگار میں پھنس جانے کے وقت نماز میں اللہ تعالیٰ سے بہ زاری و الحاج سے ان کے ازالہ و دفعیہ کی التجا کرنا اور بہ عجزو انکساری ان سے نجات پانے کے لیے دعائیں مانگنا۔
پھر مصیبتیں کئی قسم کی ہوتی ہیں۔ مثلاً دنیا کے کسی حصہ میں اہل اسلام کے ساتھ کفار کی جنگ چھڑنا ان کے ظلم و ستم کا تختہ مشق بن جانا، قحط اور خشک سالی میں مبتلا ہونا، دبائوں اور زلزلوں اور طوفان کی زد میں آ جانا وغیرہ۔ ان سب حالتوں میں قنوت نازلہ پڑھنی مسنون ہے اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور سلف امت کا معمول، اس کا مقصد فقط یہی ہے کہ مسلمان اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہوئے انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ خدا سے معافی مانگیں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اہل اسلام پر رحم و کرم فرمائے اور ان کو ان مصائب اور تکالیف سے نجات دے۔

قنوت نازلہ کا طریقہ:

اس کا طریقہ یہ ہے کہ فرض نماز کی آخری رکعت میں رکوع کے بعد امام سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ الخ سے فارغ ہو کر بلند آواز سے دعاء قنوت قڑھے اس کے ہر جملہ پر سکوت کرے اور مقتدی پیچھے پیچھے بآواز بلند آمین کہتے رہیں۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرامؓ سے یہی طریقہ ثابت ہے۔ تفصیل آ رہی ہے۔

کس نماز میں قنوت نازلہ پڑھی جائے:

مصیبت اور رنج و الم کی شدت اور ضعف کے پیش نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بعض نمازوں میں قنوت فرمائی ہے اور کبھی پانچوں نمازوں میں۔ چنانچہ صحیح مسلم ص ۲۳۷ میں ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں۔ بخدا! میں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز (عملاً پڑھا کر) تمہارے ذہنوں کے قریب کرنا چاہتا ہوں۔ راوی کا بیان ہے کہ اس کے بعد حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، نماز ظہر، عشاء اور فجر میں قنوت نازلہ پڑھتے تھے یدعو للمومنین و یلعن الکفار جس میں اہل ایمان کے حق میں رحم و کرم کی دعا مانگتے اور کفار پر لعنت بھیجتے تھے۔ صحیح مسلم کے اسی صفحہ پر حضرت براء بن عازبؓ سے مروی ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم صبح اور مغرب کی نماز میں قنوت پڑھا کرتا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب بنو سلیم کے چند قبائل رعل، ذکوان اور عصیمہ نے ستر قاری صحابہ کو قتل کر دیا تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مہینہ بھر یہ معمول رہا کہ آپ لگا تار ظہر، مغرب، عشاء اور فجر پانچوں نمازوں میں ہر نماز کی آخری رکعت میں سمع اللہ لمن حمدہ الخ کے بعد ان کے حق میں بد دعا کرتے، ان پر لعنت بھیجتے اور صحابہ کرام آپ کے پیچھے آمین آمین کہتے تھے۔ (سنن ابو دائود ص ۲۰۵)
صحیح مسلم کی ایک روایت میں آیا ہے کہ بعض اسیران بلا کی نجات کے لیے آپؐ نے صرف عشاء کی نماز میں قنوت پڑھنے کا معمول بنایا۔ جب احادیث مذکورہ بالا سے واضح ہو گیا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایک نماز میں، کبھی دو تین اور کبھی پانچوں نمازوں میں قنوت فرمائی ہے تو ہمیں بھی واقعات اور حالات کے تقاضے کے مطابق ایسا ہی کرنا چاہیے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رکھنا چاہیے جب تک دشمنوں کی مکمل طور پر سرکوبی نہیں ہو جاتی اور مسلمانوں کے مصائب و آلام میں تخفیف نہیں ہوتی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپؐ برابر ایک مہینہ تک نماز عشاء کی آخری رکعت میں رکوع کے بعد اور سجدہ کرنے سے پہلے ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور دیگرز سبتم رسیدذہ کمزور مسلمانو کے حق میں نجات کی دعا مانگتے اور کفار کے لیے سخت نقمت کی، جو یوسف علیہ السلام کے زمانہ کی سی قحط سالی کی صورت میں ہو التجا کرتے، ایک دن آپ نے عشاء کی نماز پڑھائی اور قنوت نہ کی۔ میں نے اس کا سبب پوچھا تو آپؐ نے فرمایا: وَ مَا تَرَاھُمْ قَد قَدِمُوْا۔ تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعا کو شرف قبولیت بخشا ہے اور وہ سب نجات پا کر مدینہ میں آ گئے ہیں۔ (صحیح مسلم ص ۲۳۷ ج ۱۔ سنن ابو دائود ص ۲۰۵)
موجودہ وقت میں چونکہ ہم اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقتور اور سفاک و خونخوار دشمن ہندوستان سے برسرپیکار ہیں۔ نیز ہمارے کشمیری مسلمان بھائی بھی متواتر اٹھارہ سال تک اس کے جورو جفا کی چکی میں پسنے کے بعد میدان کارزار میں نکل آئے ہیں۔ اس لیے جہاں ہم دشمن کی سرکوبی کے لیے جہاد بالسیف جیسی دوسری تدابیر اختیار کر رہے ہیں وہاں ہمیں قنوت نازلہ جیسے مجرب اور بے آواز ہتھیار سے بھی کام لینا چاہیے یاد رکھیں یہ وہ ہتھیار ہے جس کا وار کبھی خطا نہیں گیا۔ بارہا ہم نے اس کا تجربہ اور مشاہدہ کیا ہے۔ بس ضرورت یقین اور جذبہ صادق کی ہے۔

کیا قنوت نازلہ کے لیے کوئی مخصوص دعا ہے؟

قنوت نازلہ سے مقصود یہ ہے کہ مظلوم و مقہور مسلمانوں کی نصرت و کامیابی اور خونخوار و سفاک دشمن کی تباہی و بربادی کے لیے دعا کی جائے۔ اس لیے جو دعا اس مقصد کو پورا کرے وہ قنوت نازلہ میں پڑھی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے کوئی مخصوص دعا اس طرح متعین نہیں کہ اس کے بغیر قنوت ہو ہی نہ سکے۔ ہاں بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب تک مشہور دعا اللہم اھدنی فیمن ھدیت الخ (جو جماعت کی صورت میں جمع کے الفاظ سے بدل کر اور اللہم اھدنا فیمن ھدیت کہہ کر پڑھی جاتی ہے) نہ پڑھی جائے قنوت حاصل نہیں ہوتی۔ لیکن صحیح بات یہ ہے۔ کہ مذکورہ الفاظ کے ساتھ قنوت کرنا مستحب ہے۔ شرط نہیں۔ یہ پوری تفصیل امام نوویؒ نے شرح مسلم میں یوں بیان فرمائی ہے: و الصحیح انه لا یتعین فیه دعاء مخصوص بل یحصل بکل دعاء و فیه وجه انه لا یحصل الا بالدعاء المشھور اللھم اھدنی الٰی اٰخرہ و الصحیح ان ھذا مستحب لا شرط ( ۱ ص ۷ ۲۳) لیکن انسب اور اولیٰ یہ ہے کہ یہ دعاء بھی پڑھی جائے اس کے بعد وہ دعائیں پڑھی جائیں جو اس مضمون کی قرآن حکیم میں بیان ہوئی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ پہلی امتوں کے مسلمانوں نے اپنی نصرت اور دشمن کی ہلاکت کے لیے ہم سے یوں دعا کی اور ہم نے اسے شرف پذیرائی بخشا۔ اس کے بعد وہ دعائیں پڑھی جائیں جو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور سلف امت کا معمول تھیں چنانچہ یہ دعائیں مع ترجمہ ذیل میں درج کی جاتی ہیں یہ سب یا ان میں سے بعض پڑھ لی جائیں تو قنوت نازلہ کا مقصد حاصل ہو جاتا ہے۔

قنوت نازلہ کی قرآنی دعائیں:

ربنا ظلمنا انفسنا و ان لم تغفر لنا و ترحمنا لنکونن من الخاسرین۔ اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر بہت ظلم کیے۔ اب اگر ہمیں تو یہ ہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ فرمائے گا تو یقینا ہم گھاٹے میں رہیں گے۔
ربنا اٰتنا فی الدینا حسنة و فی الاخرة حسنة وقنا عذاب النار۔ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ ربنا افرغ علینا صبرا وثبت اقدامنا و انصرنا علی القوم الکافرین۔ اے ہمارے رب! ہمارے دلوں میں صبر ڈال، دشمن کے مقابلہ میں ہمارے قدم جما دے اور ہمیں کفار پر فتح ونصرت عطا فرما۔
ربنا اغفر لنا ذنوبنا و اسرافنا فی امرنا و ثبت اقدامنا و انصرنا علی القوم الکافرین۔ اے ہمارے رب! ہمارے گناہ اور معاملات میں ہماری زیادتیاں بخش دے۔ دشمن کے مقابلہ میں ہمارے قدم جما دے اور کفار پر ہمیں فتح و نصرت عطا فرما۔
ربنا لاتجعلنا فتنة للقوم الظالمین و نجنا برحمتک من القوم الکافرین۔ اے ہمارے رب! ہمیں ظالموں کے لیے فتنہ نہ بنا اور اپنی رحمت خاص کے ساتھ ہمیں کافروں کے ظلم سے نجات دے۔
ربنا علیک توکلنا و الیک انبنا و الک المصیر ربنا لاتجعلنا فتنة للذین کفروا و اغفرلنا انک انت العزیز الحکیم۔ اے ہمارے رب! ہم نے تجھ پر ہی بھروسہ کیا اور سب طاقتوں سے منہ موڑ کر تیری طرف ہی لوٹے اور تیری طرف ہی پھرنا ہے۔ اے ہمارے رب! ہمیں کافروں کے ہاتھوں فتنہ میں مبتلا نہ کر اور ہمیں بخش دے۔ اے ہمارے رب! تو ہی غالب آنے والا حکمت والا ہے۔
شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ حجۃ اللہ میں فرماتے ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کی ہلاکت کے لیے یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ اللھم منزل الکتاب سریع الحساب اللھم اھزا الاحزاب اللھم اھرمھم و زلزلھم۔ اللھم انا نجعلک فی نحورھم و نعوذبک من شرورھم۔ اے اللہ! کتاب کو اتارنے والے، جلد حساب لینے والے، دشمن کی فوجوں کو شکست فاش دے الٰہی ان کو شکست دے اور میدان جنگ میں ان کے قدم اکھاڑ دے۔ الٰہی! ہم تجھے ہی ان کے مقابلہ میں کرتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
یہ دعا بھی پڑھ سکتے ہیں: اللھم اغفر للمومنین و المومنات و المسلمین و المسلمات و الف بین قلوبھم و اصلح ذات بینھم و انصرھم علی عدوک و عدوھم۔ اللھم العن الکفرة الذین یصدون عن سبیلک و یکذبون رسلک و یقاتلون اولیاء ک اللھم خالف بین کلمتھم و زلزل اقدامھم و انزل بھم باسک الذی لاتردہ عن القوم المجرمین۔ اے اللہ! سب ایمان والے مسلمان مردوں اور ایمان والی مسلمان عورتوں کو بخش دے اور ان کے دلوں میں الفت و محبت ڈال دے اور ان کے آپس کے معاملات درست فرما دے اور انکے اور اپنے دشمنوں کے مقابلہ میں ان کی مدد فرما۔ اے اللہ ان کافروں پر لعنت فرما جو تیری راہ سے لوگوں کو روکتے ہیں اور تیرے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں اور تیرے نیک بندوں سے جنگ کرتے ہیں۔ اے اللہ! ان کے منصوبوں میں اختلاف ڈال دے اور ان کے قدم ڈگمگا دے۔ اور ان پر اپنا وہ عذاب نازل کر جس کو تو مجرم قوم سے کبھی نہیں ہٹاتا۔
ربنا لاتواخذنا ان نسینا او اخطأنا ربنا ولا تحمل علینا اصرا کما حملته علی الذین من قبلنا ربنا و لا تحملنا ما لاطاقه لنا به واعف عنا و اغفر لنا و ارحمنا انت مولانا فانصرنا علی القوم الکافرین (قرآن حکیم) اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کا ارتکاب کر بیٹھیں تو ہم سے مؤاخذہ نہ فرما۔ اے ہمارے پروردگار! اور ہم پر کوئی ایسا شدید بوجھ نہ ڈال جیسا ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا۔ اے ہمارے رب! اور ہم سے وہ چیز نہ اٹھوا جس کے اٹھانے کی ہمیں طاقت نہیں ہے۔ ہمیں معاف کر ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم و کرم کی نظر ڈال، صرف تو ہی ہمارا مددگار ہے۔ لہذا کفار پر ہمیں فتح و نصرت عطا فرما۔
ربنا اخرجنا من ھذہ القریة الظالم اھلھا واجعل لنا من لدنک ولیا و اجعل لنا من لدنک نصیرا۔ (قرآن حکیم) اے ہمارے رب! اس ملک (ہندوستان) کے ظالموں کے ظلم سے ہمیں نجات دے اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی محامی کھڑا کر دے اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی مددگار بنادے۔
اللھم فاطر السمٰوٰت و الارض عالم الغیب و الشھادة انت تحکم بین عبادک فیما کانوا فیه یختلفون ربنا افتح بیننا و بین قومنا بالحق و انت خیر الفاتحین (قرآن حکیم) اے اللہ! آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے، چھپی اور ظاہر چیزوں کے جاننے والے! تو ہی اپنے بندوں کے درمیان ان کے اختلاف اور باہمی جھگڑوں میں فیصلہ کرتا ہے۔ (اس لیے) اے ہمارے رب! تو ہمارے درمیان اور ہمارے اہل ملک (ہنود) کے درمیان حق وانصاف کے ساتھ فیصلہ کر دے اور تو ہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کردہ دعائیں:

نمبر ۱ اللہم اھدنا فیمن ھدیت و عافنا فیمن عافیت و تولنا فیمن تولیت و بارک لنا فیما اعطیت و قنا شر ما قضیت فانک تقضی و لا تقضی علیک انه لایذل من والیت و لا یعز من عادیت تبارکت ربنا و تعالیت نستغفرک و نتوب الیک و صلی اللہ علی النبی۔ (کتب حدیث)
اے اللہ! جن لوگوں کو تو نے ہدایت دی ہے ان کے ساتھ ہمیں بھی ہدایت دے اور جن کو تو نے صحت بخشی ہے ان کے ساتھ ہمیں بھی صحت بخش اور جن کو تو نے دوست بنایا ہے ان کے ساتھ ہمیں بھی اپنا دوست بنا اور جو انعامات تو نے ہمیں عطا کئے ہیں ان میں برکت دے اور جو فیصلہ تو نے کیا ہے اس کے شر سے ہمیں محفوظ رکھ کیونکہ تو ہی فیصلہ کرتا ہے اور تیرے خلاف فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ یقینا وہ ذلیل نہیں ہو سکتا جس کو تو دوست بنائے اور وہ عزت نہیں پا سکتا جس کو تو دشمن رکھے۔ اے ہمارے رب! تو برکت والا اور عالی قدر ہے۔ ہم تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور تیری طرف رجوع کرتے ہیں۔
نمبر۲ اللھم زدنا و لاتنقضنا و اکرمنا ولاتھنا و اعطنا ولا تحرمنا و اٰثرنا ولا تؤثر علینا و ارضنا عنک و ارض عنا۔ (مشکوٰۃ) اے اللہ! ہمیں بڑھا اور کم نہ کر، ہمیں عزت دے اور ذلیل نہ کر (اپنے انعامات اور فتح ونصرت) ہمیں عطا فرما اور محروم نہ رکھ، ہمیں ترجیح دے اور ہم پر کسی کو ترجیح نہ دے ہم کو اپنے سے راضی کر دے اور تو بھی ہم سے راضی ہو جا۔
نمبر۳ اللھم انج المستضعفین من المومنین (من اھل الکشمیر) و اشدد وطاتک (علیٰ من ظلمھم من مشرکی الھند) و جعلھا علیہم سنین کسنی یوسف۔ (بخاری شریف ابوداؤد)
الٰہی کشمیر کے کمزور ایمانداروں کو نجات دے ان پر ظلم ڈھانے والے مشرکین ہند کو بری طرح روند ڈال اور سختی کے ساتھ کچل دے اور ان پر یوسف علیہ السلام کے زمانہ کی سی قحط سالی مسلط کر۔
یہ دعا آپؐ مہینہ بھر عشاء کی نماز میں بطور قنوت نازلہ قڑھتے رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کمزور مسلمانوں کو کفار مکہ کے ظلم و استبداد سے نجات بخشی اور وہ بخیر و عافیت مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ بتقاضا حال بریکٹ میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔
نمبر۴ اللھم اقسم لنا من خشیتک ما تحول به بیننا و بین معاصیتک و من طاعتک ما تبلغنا بہ جنتک و من الیقین ماتھون به علینا مصائب الدنیا و متعنا باسماعنا و ابصارنا و قوتنا ما احیتنا و اجعلہ الوارث منا و اجعل ثارنا علی من ظلمنا و انصرنا علی من عادانا  لا تذجعل مصیبینا فی دیننا و لا تجعل الدنیا اکبر ھمنا ولا مبلغ علمنا و لا تسلط علینا من لا یرحمنا (مشکوٰۃ شریف)
اے اللہ! اپنا ڈر ہمیں اس قدر دے جس کے ذریعے تو ہمارے اور اپنی نافرمانیوں کے درمیان حائل ہو جائے اور اپنی فرمانبرداری کی اتنی توفیق عطا فرما جس کے ساتھ تو ہمیں جنت میں پہنچا دے اور اتنے یقین سے نواز جس کے باعث تو ہم پر دنیا کی مصیبتیں آسان کر دے اور جب تک ہمیں زندہ رکھے ہمیں اپنے کانوں، آنکھوں اور دوسری قوتوں سے متمتع ہونے کا موقع دے۔ اور ان قوتوں کو آخر دم تک قائم رکھ کر ہمارا وارث بنا۔ جن لوگوں نے ہم پر مظالم توڑے ہیں ان سے ہمارا انتقام لے اورجنہوں نے ہم سے دشمنی کی ہے ان کے خلاف ہماری مدد فرما۔ ہمارے دین کی وجہ سے ہم پر مصیبت نہ ڈال اور دنیا کو ہمارا بڑا مقصد اور منتہائے علم نہ بنا اور بے رحم اور ظالموں کو ہم پر مسلط نہ کر۔

میدان جنگ میں پڑھنے کی دعا:

غزوہ خندق میں جب عرب کے تمام قبائل اور خیبر کے یہودیوں نے مل کر مدینہ منورہ پر حملہ کیا تو سراسیمہ اور دہشت زدہ صحابہؓ نے عرض کی، یا رسول اللہ! کوئی دعا ہے جو ہم اس موقع پر پڑھیں، مارے خوف کے ہمارے کلیجے منہ کو آگئے ہیں، آپؐ نے فرمایا۔ ہاں یوں کہو: اللھم استرعو راتنا و امن روعاتنا: الٰہی! ہمارے عیوب پر پردہ ڈال دے (ہمارے دفاع کے کمزور پہلو دشمن کی نگاہ سے اوجھل رکھ) اور ہماری گھبراہٹیں امن سے بدل دے۔
صحابی کا بیان ہے، ہم نے یہ دعا پڑھی اللہ تعالیٰ نے ہماری غیبی امداد فرمائی اور اتنے زور آندھی چلائی کہ دشمن بے بس ہو کر پسپا ہونے پر مجبور ہو گیا۔ (رواہ احمد، مشکوٰۃ شریف ص ۲۱۶)
اس حدیث کی تائید قرآن حکیم سے بھی ہوتی ہے: فارسلنا علیہم ریحاً وجنوداً لم تروھاچنانچہ ہم نے کفار کی فوجوں پر آندھی اور ایسے غیبی لشکر بھیجے جو تمہیں نظر نہیں آتے تھے۔
یہ دعا قنوت نازلہ میں بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بہتر یہ ہے کہ ہر مجاہد بلکہ ہر مسلمان اس مختصر ذکر سے ہر وقت اپنی زبان تر رکھے۔ چلتے پھرتے، سوتے جاگتے ہر حالت میں پڑھتا رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوئہ خندق میں کفار کے حق میں یہ دعا بھی فرمائی: ملاء اللہ بیوتھم و قبورھم نارا: اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور ان کی قبروں کو آگ سے بھر دے۔ (بخاری شریف)
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب دشمن سے جنگ کرنے کے لیے نکلتے تو اللہ تعالیٰ سے یوں فریاد چاہتے: اللھم انت عضدی و نصیری بک احول و بک اصول وبک اقاتل۔ (رواہ الترمذی و ابوداؤد، مشکوٰۃ شریف ص ۲۱۶) الٰہی! تو ہی میرا قوت بازو اور مددگار ہے۔ تیری اعانت سے میں دشمن کی عیاری و مکاری دفع کرتا ہوں۔ تیرے بھروسہ پر میں حملہ کرتا ہوں اوعر تیری ہی مدد سے میں لڑتا ہوں۔

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد3ص 206-213

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ