سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(73) تین رکعت وتر کس طرح پڑھنا چاہئے ۔

  • 3009
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 824

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تین رکعت وتر کس طرح پڑھنی چاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تین رکعت وتر پڑھنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ دورکعت پڑھ کر التحیات وغیرہ کے بعد سلام پھیرے پھر ایک رکعت بعد میں پڑھے دوسرا طریقہ یہ ہے کہ مسلسل تین رکعت پڑھ کر صرف اخیر میں بیٹھے اور التحیات وغیرہ کے بعد سلام پھیرے، البتہ نماز مغرب کی طرح نہیں پڑھنی چاہیے کہ دو رکعت کے بعد التحیات پڑھ کر بغیر سلام تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے۔ کیوں کہ وتر میں نماز مغرب کی مشابہت سے حدیث میں منع کیاگیا ہے۔
حدیث میں ہے کہ عبد اللہ بن عمرؓ نے دو رکعتیں پڑھ کر غلام سے کہا پالان باندھ، پھر کھڑے ہو کر ایک رکعت پڑھی اور خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ اس حدیث کی اسناد قوی ہے۔ مولانا عبد الحئ صاحب لکھتے ہیں۔ واصرح من ذلک ما رواہ سعید بن منصور باسناد صحیح عن بکر بن عبد اللہ المزنی قال صلّی ابن عمر رکعتین ثم قال یا غلام ارحل لنا ثم قام فاوتر برکعة۔ و روی الطحاوی عن سالم عن ابیه انه کان یفصل بین شفعه ووترہ بتسلیمة و اخبر ان النبی صلی اللہ علیه وسلم کان یفعله و اسنادہ قوی (تعلیق الممجد ص ۱۴۵)
تحفۃ الاحوذی میں ہے و بحدیث عبد اللہ بن عمر قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یفصل بن الوتر والشفع بتسلیمة و یسمعناھا قال الحافظ فی التلخیص بعد ذکرہ رواہ احمد و ابن حبان و ابن السکن فی صحیحیھما و الطبرانی من حدیث ابراہیم الصنائع عن نافع عن ابن عمر و قواہ احمد انتھٰی (تحفۃ الاحوذی ص ۳۴۰)
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں و العمل علٰی ھذا عند بعض اھل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیه وسلم و التابعین رأو ان یفصل الرجل بیالرکعتین و الثالثة یوتر برکعة به یقول مالک و الشافعی و احمد واسحاق۔ یعنی بعض صحابہ اور تابعین اسی کے قائل ہیں کہ دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے اور تیسرے رکعت الگ پڑھے، امام مالک اور شافعی و احمد و اسحاق کا یہی مسلک ہے۔ مسلسل تین رکعت پڑھ کر اخیر میں بیٹھنا اور سلام پھیرنا بھی مرفو حدیث اور آثار صحابہ اور تابعین سے ثابت ہے۔ تحفۃ الاحوذی میں ہے۔ عن عائشة قالت کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یوتر بثلاث لایقعد الا فی اٰخرھن و ھذا وتر امیر المومنین عمبر بن الخطاب و عنه اخذہ اھل المدینة رواہ الحاکم فی المستدرک من طریق ابان بن یزید العطاء عن قتادة عن زراة بن اوفی عن سعد بن ھشام عنھا۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ سولم وتر کی تین رکعتوں میں صرف اخیر میں بیٹھتے تھے حضت عمر کا بھی طریقہ یہی تھا اہل مدینہ کا تعامل بھی اسی سے ماخوذ ہے۔ مولانا عبد الحئ صاحب حنفی لکھنوی مختلف احادیث اور آثار صحابہ و تابعین نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ قول فیصل اس مقام میں یہ ہے کہ اس امر میں صحابہ مختلف ہیں بعض تو صرف ایک ہی رکعت پر اکتفا کرتے تھے، بعض تین رکعت دو سلام سے پڑھتے تھے اور بعض تینوں رکعتیں صرف ایک سلام سے پڑھتے تھے اور مرفوع حدیثیں بھی اس بارہ میں مختلف ہیں لہذا یہ سب طریقے جائز اور ثابت ہے۔ القول الفیصل فی ھذا المقام ان الامر فی ما بین الصحابۃ مختلف فمنھم من کان یکتفی علی الرکعة الواحدة و منھم من کان یصلی ثلاثا بتسلیمتین ومنھم منکان یصلی ثلاثا بتسلیمة و الاخبار المرفوعة ایضا مختلفة بعضھا شاھدة للاکتفاء بالواحدة و بعضھا بالثلاث  و الکل ثابت لکن اصحابنا قد ترجحت عندھم روایات الثلث بتسلیمة بوجوہ لاحت لھم فاختارہ و حملوا المجمل علی المفصل (التعلیق الممجد)  

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 195۔196

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ