سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(70) تین وتروں میں دوسرے رکعت پر تشہد کے لیے بیٹھنا الخ

  • 3006
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1466

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین از روئے دین محمد اس مسئلہ میں کہ سائل کے ہاں آٹھ رکعت نماز تراویح پڑھ کر تین وتر اس شکل میں پڑھے جاتے ہیں کہ دوسری رکعت پر تشہد کے لیے بیٹھا جاتا ہے۔ تشہد سے اٹھ کر تیسری رکعت کے لیے رکوع سے پہلے دعا قنوت ہاتھ باندھ کر پڑھی جاتی ہے۔ سائل با دلائل بالوضاحت دریافت کرنا چاہتا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کس طرح ثابت ہے؟ آیا مندرجہ بالا شکل میں وتر درست ہیں یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وتر کی تعداد کے متعلق مختلف روایات آئی ہیں۔ ایک، تین، پانچ، سات، نو، تیرہ تک آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ادا فرمائی ہیں۔ عموماً دو، دو رکعت ادا فرمانے کے بعد آخر میں ایک رکعت پڑھ کر سلام کرتے اور وتر ختم کر دیتے۔ تین اور پانچ میں درمیان میں تشہد نہیں پڑھتے تھے۔ سنن ابی دائود میں حضرت ابو ایوبؓ مرفوعاً فرماتے ہیں، من احب ان یوتر بخمس فلیفعل و من احب ان یوتربثلث فلیفعل و من احب ان یوتر بواحدة فلیفعل ص ۵۳۵) جن میں قنوت آخری رکعت میں رکوع کے بعد عموماً پڑھتے رکوع سے پہلے پڑھنے کے متعلق امام ابو دائود فرماتے ہیں لیس ھو بالمشھور من حدیث حفص ویسے بھی یہ حدیث ضعیف ہے۔ مستدرک حاکم جلد ۱ ص ۳۰۴ میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے۔ ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یوتر بثلث لایسلم الا فی اخرھن ’’تین وتر پڑھتے اور آخری رکعت میں سلام کہتے۔‘‘ حضرت عطاء سے مروی ہے۔ انه کان یوتر بثلث لایجلس فیھن و لایتشھد الا فی اخرھن (مستدرک جلد ۱ ص ۳۵) تین رکعت وتر پڑھتے، درمیان میں نہ تشہد پڑھتے نہ بیٹھتے۔‘‘ اس لیے بہتر یہی ہے کہ تین وتر میں تشہد نہ کیا جائے۔ رکوع کے بعد قنوت پڑھے، اس میں ہاتھ اٹھانا مستحب ہے۔ اور عبد اللہ بن عمرؓ نے بخاریؒ کے رسالہ جزء رفع الیدین میں ذکر فرمایا ہے۔ عون المعبود جلد ۱ ص ۵۴ میں ہے۔ و یستحب رفع الیدین فیه ’’یعنی میں ہاتھ اٹھانا مستحب ہے۔‘‘
جواب نمبر ۲ … آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تیٓن وتر دو طرح آئے ہیں۔ ایک اس طرح کہ درمیان تشہد نہ بیٹھے اور آخر میں سلام پھیرے جیسا ٓکہ فتح الباری میں ہے اور مستدرک حاکم کی روایت کے نیچے علامہ ذہبی نے لکھا ہے۔
اور دوسری صورت یہ ہے کہ دو رکعت ادا کر کے سلام پھیر کر تیسری رکعت الگ پڑھے جیسا کہ فتح الباری میں ہے۔ اور یہی بہتر ہے۔ کیوں کہ ایک حدیث میں تین رکعت پڑھنے کی ممانعت ہے جیسا کہ فتح الباری میں ہے۔ اس حدیث کا صحیح مطلب یہی ہے، کہایک سلام سے تین رکعت نہ پڑھے۔
اور دعائے قنوت رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد دونوں طرح صحابہ سے مروی ہے جزء رفع الیدین اور رکوع سے پہلے ہاتھ باندھ کر دعا کرنا بھی بعض صحابہ سے آیا ہے۔
جواب نمبر۳:… نماز وتر ایک سے نو تک ہیں اور پڑھنے کے مختلف طریقے ہیں۔ تین وتر پڑھنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ تین وتر ایک تشہد اور ایک سلام سے پڑھے، دو پر قعدہ نہ کرے۔ یعنی تشہد نہ بیٹھے، دوسری صورت یہ ہے کہ وہ پڑھ کر سلام پھیر دے، پھر ایک رکعت اکیلی پڑھے۔ عبد اللہ ابن عمرؓ کا عمل اسی پر تھا اور دعائے قنوت رکوع کے بعد پڑھنی چاہیے کیوں کہ حدیث میں وتر کے متعلق صرات آئی ہے۔ چنانچہ مستدرک حاکم میں ہے۔
عن الحسن  بن علی علمنی رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم کلمت اقولھن فی وتر اذا رفعت راسی ولم یبق الا السجود الحدیث ’’یعنی حضرت حسن بن علی فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چند کلمات (اللھم اھدنی الخ) سکھائے کہ ان کو وتر میں پڑھوں جبکہ رکوع سے سر اٹھائوں، اور صرف سجدہ باقی رہ جائے۔‘‘ اگرچہ یہ استحبابی ہے لیکن جب پہلے پڑھنے میں کوئی زیادہ سہولت نہیں اور پیچھے پڑھنے میں کوئی زیادہ تکلیف نہیں، تو پھر بلاوجہ استحباب کو کیوں ترک کیا جائے ہاں بڑا آدمی کبھی تعلیم دینے کے لیے ترک کر سکتا ہے اگر یہ وجہ نہ ہو تو پھر استحباب پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تفصیل کے لیے ہمارا رسالہ ’’تعداد رکعت وتر‘‘ اور ’’امتیازی مسائل‘‘ اور قیام اللیل امام محمد بن نصر مروزی وغیرہ دیکھیں۔

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 192۔194

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ