سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(69) تین وتر کی صحیح و راجح صورت کیا ہے ۔

  • 3005
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1762

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ما قول کم رحمکم اللہ تعالیٰ دریں مسئلہ کہ تین رکعت وتر کی صحیح و راجح صورت کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

الحمد للہ رب العلمین اکثر روایات سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تین رکعت وتر پڑھنا ثابت ہے۔ اخرج النسائی عن ابی بن کعب ان النبی صلی اللہ علیه وسلم کان یقرأ فی الوتر بسبح اس ربک الاعلی وفی الرکعة الثانیة بقل یا ایھا الکافرون و فی الثالیة بقل ھو اللہ احد ولا یسم الا فی اخرھن قال الشوکانی فی نیل الاوطار ( ص ۲۹ جلد ۳)الحدیث رجاله ثقات الا عبد العزیز و ھو مقبول و حدیث الباب یدل ایضا علی مشروعیة الایتار بثلاث رکعات متصلة۔
یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی پہلی رکعت میں سورہ اعلیٰ (پ ۳۰) دوسری میں سورہ کافرون اور تیسری میں سورہ اخلاص پڑھا کرتے تھے۔ اور (تینوں رکعتیں) ایک ہی سلام سے پڑھا کرتے تھے۔
ایک معتبر روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: لا توتروا بثلاث اوترو بخمس او سبع لا تشبھو الصلٰوة المغرب (اخرجه الدار قطنی) و رواته کلھم ثقات و اخرج محمد بن نصر المروزی (فی قیام اللیل ص۱۲۵) من طریق عداک بن مالک عن ابی ھریرة مرفوعاً و موقوفاً لاتوتروا بثلاث تشبھو بصلٰوة المغرب صححه الحاکم و ابن حبان و العراقی و سکت علیه الحافظ (فتح الباری ص ۵۳۶) و (شوکانی نیلا الاوطار ۲ ص ۲۸۱) و قال الحاکم ھذا صحیح علٰی شرط الشیخین و اخرجه یضا مجد الدین الفیروز اٰبادی فی سفر السعدة و اشار الی صحته الحافظ ابن القیم فی الاعلام (ص ۲۵۹ ج ۱)
یعنی تین وتر نہ پڑھو۔ پانچ یا سات پڑھو، نماز مغرب سے مشابہ نہ کرو۔
یہ حدیث بہ حیثیت مجموعی صحیح ہے، بہت سے محققین اور فحول علماء اس کی صحت کی تائید میں ہیں چوں کہ بادی النظر میں پہلی روایات اور اس روایات میں تعارض معلوم ہوتا ہے لہذا محدثین کرام نے اس میں تطبیق دینی چاہی کہ تعارض بالکل نہ رہے۔
فرمان واجب العمل و الاذعان پر ایک گہری نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف مشابہ نماز مغرب سے منع فرمایا ہے۔ پس ایسی صورت میں کہ جس سے مشابہت نہ رہے، نہی وارد نہیں ہو سکتی، علامہ ابن حجرؒ کا خیال ہے کہ اگر وتروں میں درمیان کا التحیات (جو آج کل مروج ہے) نہ پڑھا جائے اور صرف ایک ہی تشہد پراکتفا کیا جائے تو پھر نماز مغرب سے مشابہت نہیں رہتی اور یہی دونوں طرف کی روایات کا مطلب ہے، سبل السلام شرح بلوغ المرام ص ۱۳۵ جلد اول میں ہے۔ وقد جمع بینھما الحافظ (فی فتح الباری ص ۵۳۶ جلد نمبر۱) بان النھی عن الثلاث اذا کان یقعد تشھد الاوسط لانه یسبه المغرب و اما اذا لم یقعد الا فی اخرھا فلایشبه المغرب و ھو جمع حسن۔
یعنی جب (تین رکعت وتر) دو تشہد سے پڑھے جائیں اس وقت تینرکعت وتر منع ہیں۔ (اور یہی مطلب حدیث دار قطنی وغیرہ کا ہے) اور جب ایک ہی تشہد سے پڑھے جائیں اس وقت کٓٓوئی حرج نہیں۔ (اور یہی روایات ثابتہ کا مطلب ہے)

مرفوع حدیث:

حافظ صاحب ممدوح کی اس تقریر کی تائید میں ایک مرفوع حدیث بھی موجود ہے، جس میں تصریح ہے۔ کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی تین رکعت وتر کی نماز ایک ہی (یعنی آخری) تشہد (التحیات) سے ہوا کرتی تھی۔ (فتح الباری جلد نمبر ۱ ص ۵۳۶)
قال فی سبل السلام (ص ۱۳۵ جلد ۱) و قد ایدہ حدیث عائشة عند احمد و النسائی و البیہقی والحاکم کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یوتر بثلاث لایجلس الا فی اٰخرھن و لفظ احمد کانیوتر بثلاث لایفصل بینھن و لفظ الحاکم لایقعد۔ انتھٰی ملخصاً و حدیث عائشة ھذا اوردہ الذرقانی فی شرح المواھب و صاب السبل فی حاشیة زاد المعاد (فتاوٰی نذیریہ جلد نمبر ۵۳۶) و اوردہ ایضاً الذھبی فی تلخیصه المستدرک و سکت علیه و سکوته دال علی تصحیحه اور تحسینه و بالجملة ھذہ القرائن تدل علٰی کون ھذدہ الروایتة فی النسخ الصحیح للمستدرک و اللہ تعالٰی اعلم۔
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر صرف ایک ہی تشہد سے پڑھا کرتے تھے اور درمیان تشہد میں نہیں بیٹھتے تھے۔

ایک قرینہ :

تین رکعت وتر کو ایک ہی وتر سے پڑھنے کا ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ بعض صحابہ جن سے تین رکعت وتر سے نہی ثابت ہے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین رکعت کے راوی ہیں۔ جیسے حضرت ابن عباسؓ حضرت عائشہؓ (ملاحظہ ہوصحیح مسلم صفحہ ۲۵۴ جلد نمبر۱) تو معلوم ہوا کہ انہوں نے انہی تین رکعت وتر سے منع کیا ہے جو نماز مغرب کے مشابہ ہوں (یعنی دو تشہد سے ادا کیے جائیں) اس کی تائید حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے اثر سے بھی ہوتی ہے جو محلی میں ہے۔ عن ابن عباسؓ انه قال الوتر کصلٰوة المغرب الا انہ لایقعد الا فی الثالثة (ص ۴۶ ج ۳)

سلف کا مسلک:

بہت سارے سلف سے بھی بالتصریح مروی ہے کہ وہ تین رکعت وتر کو ایک ہی تشہد سے ادا کیا کرتے تھے۔۔۔۔۔ حضرت فاروق اعظٓٓم بھی ایک ہی تہشد سے تین رکعت وتر پڑھا کرتے تھے، عون المعبود شرح سنن ابی دائود صفحہ ۵۳۵ جلد نمبر۱ میں ہے۔
و قد فعله السلف ایضا فروی محمد بن نصر (قیام اللیل ص ۱۲۲) من طریق الحسن ان عمر بن الخطاب کان بنھض فی الثالثة من الوتر  بالتکبیر یعنی اذا قام من سجودہ لرکعة الثانیة قام مکبرا من غیر جلوس للتشھد یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وتروں میں دوسری رکعت سے فارغ ہو کر اللہ اکبر کہہ کر سیدھے کھڑے ہو جایا کرتے اور تشہد کے لیے نہیں بیٹھتے تھے۔ حضرت طائوس، حضرت عطاء ایوب وغیرہ کا بھی یہی عمل تھا۔ قیام اللیل ص ۱۲۳ میں ہے۔ عن طائوس انه کان یوتر بثلاث لایقعد بینھن یعنی حضرت طائوس تین وتر پڑھا کرتے تھے اور درمیان کا (التحیات) نہیں بیٹھتے تھے۔
و عن عطاء انه کان یوتر بثلاث رکعات لا یجلس فیھن و لا یتشھد الا فی اٰخرھن۔ یعنی حضرت عطاء تین رکعت وتر کے درمیان نہ بیٹھتے تھے نہ التحیات پڑھتے تھے۔
و قال حماد کان ایوب یصلی بنا فی رمضان و کان یوتر بثلاث لا یجلس الا فی اٰخرھن۔ یعنی حضرت عطاء تین رکعت وتر کے درمیان نہ بیٹھتے تھے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ تین رکعت وتر ایک ہی تشہد سے پڑھتے مسنون ہیں اور تین رکعت وتر دو تشہد سے کسی حدیث رفوع، صریح، صحیح یا حسن سے ثابت نہیں۔ باقی رہا اقوال و افعال صحابہ سے استناد واستدلال سوال میں اولاً تو دو تشہد کی صراحت کا ثبوت مشکل ہے کیوں کہ صرف مثلیت نماز مغرب سے تو دو تشہد ثابت نہیں ہو سکتے۔ لاحتمال ان یکون الثلثیة فی العدد او عدم التسلیم (اور اس احتمال کی بناء پر کہ ان کے اقوال میں مثلیت عدد میں مراد ہو، یا عدم تسلیم۔
ثانیاً افعال و اقوال صحابہ خلاف مرفوع بالاتفاق حجت نہیں ہیں۔ ثالثاً۔ جن صحابہ سے یہ صورت مروی ہے ممکن ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تین وتر سے منع کی حدیث نہ پہنچی ہو۔ قال الحافظ فکانھم لم یبلغھم النھی المذکور (فتح الباری جلد نمبر ۱ ص ۵۳۶ طبع انصاری)

تطبیق کا دوسرا طریقہ:

ہاں اگر دو تشہد سے تین وتر پڑھے جائیں تو دو سلام سے، چنانچہ بعض محدثین نے مذکورہ بالا احادیث میں یوں بھی تطبیق دی ہے۔ امام محمد بن نصر مروزی جو امام احمد کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں ان کا عندیہ بھی یہی ہے ان کے نزدیک متصل تین رکعت پایہ ثبوت کو نہیں پہنچیں۔ قیام اللیل میں ہے۔ لم نجد عن النبی خبراً ثابتاً صریحاً انہ اوتر بثلاث موصولۃ (نیل الاوطار ج ۳ ص ۳۱) اور اکثر شوافع نیاسی کو ترجیح دی ہے۔ شرح مہذب میں امام نووی فرماتے ہیں و اذا اراد الایتان بثلاث رکعات ففی الافضل اوجه الصحیح ان الافضل ان یصلیھا مفصولة بسلامین لکثرة الاحادیث الصحیحة فیه و الیه ذھب الامام احمد یعنی جب تین ہی رکعت وتر کا ارادہ ہو تو بہتر یہ ہے کہ دو سلام ہوں اس لیے کہ زیادہ حدیثیں اسی طرح کی ہیں۔ اس کی دلیل میں یہ دو حدیثیں پیش کی جاتی ہیں۔ عن ابن عمرؓ قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یفصل بین الوتر و الشع بتسلیمة و یسمعناھا رواہ احمد و ابن حبان و قواہ احمد (تلخیص الجیر ص ۱۱۷) آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم وتر اور اس کے قبل کی دو رکعتوں کے درمیان سلام کے ساتھ فاصلہ کر لیا کرتے تھے۔
عن عائشة قالت کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یصلی فی الحجرة و انا فی البیت فیفصل عن الشفع و الوتر بتسلیم یسمعناہ اخرجه احمد و فیه انقطاع لکن یکفی للتائید۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں وہ سلام اپنے کمرے میں سنتی تھیں۔

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 189۔192

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ