سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(57) رفع سبابہ کے متعلق ائمہ کے اقوال

  • 2993
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1550

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رفع سبابہ کے بارے میں ائمہ کرام ﷫ کے اقوال کیا ہیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

روایت کی امام ربانی محمد بن شیبانی نے اپنے مؤطا یعنی مؤطا امام محمدؒ میں امام مالکؒ سے اور انہوں نے روایت کی مسلم بن ابی مریم سے اور انہوں نے روایت کی علی بن عبد الرحمن معاوی سے کہ علی بن عبد الرحمن نے کہا کہ عبد اللہ بن عمرؓ نے مجھ کو دیکھا اور سنگریزوں سے کھیل رہا تھا جب میں نماز سے فارغ ہوا تو عبد اللہ بن عمرؓ نے مجھ کو کو منع کیا اور یہ کہا کہ تم نماز میں وہ فعل کرو جو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے میں نے کہا! کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے تو عبد اللہ بن عمرؓ نے کہا کہ جب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بیٹھتے تھے تو داہنے ہاتھ کی ہتھیلی کو داہنی ران پر رکھتے تھے اور سب انگلیوں کو بند کرتے تھے اور انگوٹھے کے نزدیک جو انگلی ہے اس سے اشارہ کرتے تھے اور بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ران پر کھتے تھے۔ امام محمدؒ نے کہا کہ ہم نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اختیار کیا۔ مؤطا امام محمدؒ کی عبارت کا یہ ترجمہ ہے۔ اور بدائع اور نہایہ میں یہ لکھا ہے کہ امام محمدؒ نے کتاب مشیخہ میں اشارہ کرنے کے لیے تصریح کی ہے اور وہ اس بارہ حدیث لائے ہیں کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ کرتے تھے۔ امام محمدؒ نے پھر یہ کہا کہ جو کچھ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہم نے بھی وہی اختیار کیا اور امام ابو حنیفہؒ کا اور ہمارا یہی قول ہے اور ذخیرہ اور شرح زاہدی میں لکھا ہے کہ امام محمدؒ نے یہ حدیث بیان کی پھر یہ کہا کہ جو کچھ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہم نے بھی وہی کا اور امام او حنیفہؒ کا اور میرا یہی قول ہے اور کفایہ اور تار تار خانی میں امام محمد کی روایت سے یہ حدیث ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا ہے۔ امام محمدؒ نے یہ حدیث بیان کی پھر یہ کہا کہ میرا اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہی قول ہے اور عنایہ میں لکھا ہے کہ امام محمدؒ نے یہ حدیث بیان کی پھر یہ کہا کہ میرا اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہی قول ہے اور عنایہ میں لکھا ہے کہ امام محمدؒ نے کتاب مشیخہ میں اس مسئلہ کی تصریح کی ہے اور وہ اس بارہ میں حدیث لائے ہیں کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اشارہ کرتے تھے اور امام محمد اور ابن السکیتؒ نے بھی اپنے صحاح میں عبد اللہ بن عمرؓ سے یہ روایت کی ہے قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الاشارۃ بالاصبع اشد علی الشیطان من الحدید یعنی پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انگلی سے اشارہ کرنا لوہے سے زیادہ شیطان پر سخت گزرتا ہے اور حدیث کی کتابوں میں شافعی مذہب کے اماموں کی جو روایتیں ہیں وہ قریب متواتر ہونے ٓٓکے ہیں چنانچہ صحیح مسلم میں عبد اللہ بن زبیرؓ سے روایت ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسم نماز میں بیٹھتے تھے تو داہنے ہاتھ کو داہنی ران پر رکھتے تھے اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھتے تھے اور کلمہ کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے اور انگوٹھے کو درمیان کی انگلی پر رکھتے تھے اور عبد الرزاق نے ابو ہریرہؓ سے روایت کی ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی شخص نماز میں اشارہ کرتا ہے تو ہر اشارہ کے عوض میں دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ ہر ایک انگلی کے مقابلہ میں ایک ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور اشارہ کی بہت فضیلتیں ہیں اس مختصر میں ان کی گنجائش نہیں اس کے حال پر افسوس ہے جو اشارہ نہیں کرنا اور ان فضیلتوں سے محروم رہتا ہے۔
ابن ہمامؒ نے شرح ہدایہ میں لکھا ہے کہ اشارہ کرنا منع کرنا عقل اور نقل کے خلاف ہے اور ملتقط میں لکھا ہے کہ اشارہ کرنے میں علماء کا اختلاف نہیں اور خانیہ میں لکھا ہے کہ یہ بلا اختلاف علماء کے ثابت ہے کہ التحیات میں لا اله الا اللہ پڑھنے کے وقت اشارہ کرنا چاہیے اور کفایہ میں مذکور ہے کہ علامہ نجم الدین زاہدی کا یہ قول ہے کہ بالاتفاق اس بارہ میں ہمارے اصحاب سے روایتیں ثابت ہیں کہ اشارہ کرنا سنت ہے اور علمائے کوفہ اور علمائے مدینہ کا بھی یہی قول ہے اور اشارہ کرنے کے بارہ میں بہت اخبار و آثار ہیں تو ان پر عمل کرنا بہتر ہے یعنی اشارہ کرنا چاہیے، امام ابن ہمامؒ نے شرح ہدایہ میں لکھا ہے اور صاحب کفایہ کا بھی یہی قول ہے اور محقق چلپیؒ نے خفیۃ المہتدی میں لکھا ہے اور شیخ شمنی نے شرح نقایہ میں لکھا ہے کہ لا اله الا اللہ پڑھنے کے وقت انگلیوں کو بند کرے، اور اشارہ کرے تا کہ دونوں طریق پر عمل ہو جائے، اور امام ابو یوسفؒ نے اپنی امالی میں لکھا ہے کہ چھوٹی انگلی اور اور اس کے بعد کی انگلی کو بند کر دے اور درمیان کی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ کرے اور کلمہ کی انگلی سے اشارہ کرے اور شرح وقایہ میں لکھا ہے کہ ہمارے علماء کے نزدیک اسی طور پر اشارہ کرنا ثابت ہے اور صاحب ہدایہ نے مختار النوازل میں لکھا ہے کہ لا اله الا اللہ پڑھنے کے وقت اشارہ کرنا بہتر ہے اور منیۃ المصلی میں لکھا ہے کہ جب پڑھے اشہد ان لا اله الا اللہ و اشھد ان محمد رسول اللہ تو کلمہ کی انگلی سے اشارہ کرے۔
بعض علماء نے کہا ہے کہ اشاہ نہ کرنا بہتر ہے اور ان کا یہ قول ہے کہ اسی پر فتویٰ ہے اس واسطے کہ نماز کی بناء سکون اور وقار پر ہے۔ اور اشارہ کرنے میں سکون اور وقار نہیں رہتا، اس بات کا جواب یہ ہے کہ یہ دلیل کوئی آیت نہیں اور نہ حدیث اور نہ اجماع ہے بلکہ قیاس ہے اور جب کسی مسئلہ میں حدیث موجود ہو تو اس مسئلہ میں اس حدیث کے خلاف قیاس اور اجماع باطل ہے یہ ظاہر ہے کہ جس نے اشارہ کو منع کیا اس کو صحیح حدیثیں نہ پہنچیں اور اس نے حنفی مذہب کے فقہ کی روایتوں کو نہ جانا۔ ورنہ جو شخص پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کے بارہ میں یہ کہے کہ یہ عمل سکون اور وقار کے خلاف ہے خصوصاً وہ نماز کے کسی فعل کے بارہ میں ایسا کہے تو وہ شخص بلا اتفاق تمام مسلمانوں کے نزدیک کافر ہو جائے گا۔ اور صلوٰۃ مسعودی میں لکھا ہے کہ اشارہ کرنا علماء متقدمین کی سنت ہے، علماء متاخرین نے اشارہ کرنے کو اس واسطے منع کیا ہے کہ علماء متقدمین کی سنت ہے، علماء متأخرین نے اشارہ کرنے کو اس واسطے منع کیا ہے کہ علمائے متقدمین نے رافضیوں کا یہ قول اختیار کیا ہے کہ اشارہ کرنا چاہیے۔ پہلی بات جو یہ ہے۔ کہ علماء متاخرین نے اشارہ کو کرنے منع کیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دلیل امام اعظمؒ کے اصول کے خلاف ہے اس واسطے کہ یہ دلیل قیاس ہے اور جب صحیح حدیث موجود ہو تو اس کے خلاف قیاس اور اجماع باطل ہے دوسری بات یعنی یہ کہ علماء متقدمین کا قول منسوخ ہو گیا، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جائز ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی حکم منسوخ ہو، تیسری بات یعنی یہ کہ علماء متاخرین نے رافضیوں کا یہ قول اختیار کیا تھا کہ اشارہ کرنا چاہیے اس واسطے علماء متاخرین نے اشارہ کرنے کو منع کیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ رافضیوں کی مخالفت ان کی بدعتوں میں چاہیے، رافضیوں کا جو فعل فی الواقع سنت ہے اس میں رافضیوں کی مخالفت نہ کرنا چاہیے۔ اس واسطے کہ جب رافضیوں کی مخالفت کے لحاظ سے کوئی سنت ادا نہ کی جاوے گی تو اس میں مخالفت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو جاوے گی۔ یہ ظاہر ہے کہ رافضی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں اور بسم اللہ سے کام کو شروع کرتے ہیں گاور داہنے ہاتھ سے کھاتے ہیں اور بائیںہاتھ سے استنجا کرتے ہیں تو رافضیوں کے یہ افعال ہیں، درود بھیجنا، بسم اللہ کہنا، حمد و ثنا کرنا، وضو میں پے درپے بدن کو دھونا اور ناخن کٹوانا اور بغل کے بال منڈوانا اور زیر ناف کے بال مونڈنا اگر اس غرض سے کہ رافضیوں کی مخالفت ہو سنتوں کو چھوڑنا ضروری ہو تو سنیوں کو چاہیے کہ اس خیال سے کہ رافضیوں کی مخالفت ہو اکثر سنتوں کو ترک کریں جو عادت اور عبادت کے متعلق ہیں اور اس بارہ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کو جائز سمجھیں اور پھر اپنے آپ کو سنی کہیں یہ صرف شیطان کا فریب اور تعصب ہے اور محیط میں لکھا کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے قول سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اشارہ کرنا نت ہے اور ایسا ہی دوسری کتابو میں بھی مذکور ہے۔ اگر وہ سب ہم یہاں ذکر کریں تو بات طویل ہو جاوے گی۔ حاصل کلام یہ ہے کہ یہ صرف ان لوگوں کی جہالت اور تعصب نفسانی ہے جو دلیل یا کسی کے گمان کی بنا پر پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کریں اور امام کے خلاف مذہب کوئی مسئلہ اختیار کریں اور باوجود اس کے اپنے کو سنی سمجھیں۔ سنی وہ ہے جو سنت پر عمل کرتا ہے اور رافضی وہ ہے جو سنت کو ترک کرتا ہے اور امام صاحب کے خلاف مذہب اس کا عمل ہے۔

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 180۔183

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ