سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(55) تشہد میں انگشت شہادت اٹھانی حنفی مذہب میں سنت ہے یا بدعت ۔

  • 2991
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1259

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین حنفیہ اس مسئلہ میں کہ انگشت شہادت اٹھانی وقت تشہد یعنی لا اله الا الله کہنے کے مذہب حنفی میں سنت مستحب ہے یا حرام مکروہ ہے اور جو کوئی یہ ات کہے کہ رفع سبابہ میں انگلی کاٹنی آتی ہے وہ شخص گنہگار ہو گا یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

در صورت مرقومہ معلوم کرنا چاہیے کہ امام ابو یوسف اما لی کتاب اپنی میں اور امام محمد موطأ میں دونوں صاحب کہ جو شاگرد رشید امام اعظمؒ کے ہیں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رفع سبابہ مروی اور منقول ہے اور ہم لوگ بھی اس پر عمل کرتے ہیں اور یہی قول ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہے چنانچہ فتح القدیر و عینی و امیر الحاج و زیلعی و البحر ائرائق و نہر الفائق و ملتقط دشمنی و نجم الدین الزاہدی و علامہ حلبی و بہنسی و ابراہیم حلبی وغیرہ نے روایۃ د درایۃ رفع سبابہ کو نقل کیا ہے اور اس باب میں علماء کوفہ و علمائے مدینہ وغیرہ سے بہت سے اخبار و آثار مروی اور منقول ہیں۔ اور ملا علی قاری اور ملا عابد سندھی و امین الدین شامی نے اٹھائیس صحابہ سے روایت کی ہے اور رفع سبابہ میں ائمہ اربعہ و علمائے مقلدین اہل مذاہب کے سب متفق ہیں۔ اس میں ائمہ اربعہ وغیرہ کا اختلاف نہیں اور منع رفع سبابہ میں کوئی قول صحابی مذکور اورمنقول نہیں تو اٹھانا اس کا مستحب آکد اور موجب ثواب کثیر ہے اور خلاصہ کیدانی والے سے یا اور علماء سے اس باب میں خطا واقع ہوئی ہے، اس ے حرام مکروہ لکھنے میں تو قول مانعین کا اور حرام مکروہ کہنے والے کا از روئے دلائل شرعیہ کے محض باطل ہے نزدیک علمائے محققین حنفیہ کے اور جو شخص بعد مطلع ہونے کے روایات فقہیہ اور احادیث نبویہ کے حرام کہے اور منع کرے وہ مردود اور گمراہ ہے، خوف کفر کا ہے اس پر از روئے اہانت اور حقارت کے: قال اللہ تعالٰی ما اٰتاکم الرسول فخذوہ و ما نھاکم عنه فانتھوا الایة و رجح فی فتح القدیر القول بالاشارة و انه مروی عن ابی حنیفة کما قال محمد فالقول بعد مھا مخالف للروایة و الدارایة و رواہ فی صحیح مسلم من فعله صلی اللہ علیه وسلم و فی المجتبیٰ لما اتفقت الروایات عن اصحابنا جمیعا فی کونھا سنة  و کذا عن آلکوٓفیین و المدنیین و کثرت الاخبار و الاٰثار کان العمل بھا اولی کذا فی البحر الرائق و قال فی الدر المختار و احترزنا بالصحیح عما قیل لا یشیر لانه خلاف الدرایة و فی العینی عن اتحفة الاصح انھا مستحبة و فی المحیط انھا سنة کذا فی الدر المختار مختصرا المعتمد ما صححه الشراح لا سیما المتأخرون کالکمال و الحلبی و النھبسی والباقلانی و شیخ الاسلام وغیرھم انه یشیر بقوله صلی اللہ علیه وسلم و نسبوہ لمحمد و الامام و قال محمد فی المؤطا بعد حدیث الباب و بصنیع رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فاخذو ھو قول ابی حنیفة و ذکر ابو یوسف فی الامالی کما نقله الشمنی وغیرہ انه یعقد الخنصر و البنصر و یحلق الابھام و السطی و یشیر بالسبابة و ھذا فرع تصحیح الاشارة و فی الخانی الاشارة عند لا اله الا اللہ حسن لا خلاف فیه و ھکذا فی مختارات النوازل لصاحب الھدایة فان قیل لیس قاعدة الکیدانی و فی الغوائب و غیرھما من المحرمات قلنا قولھم فی مقابلة النص و اقوال الائمة مردود لایبسابة و لیس فی ھذا الجانب حدیث و لا اثر یعتمد علیه ولا یستند قولھم بقول ابی حنیفة و صاحبیه و قلوھم انہ لا خلاف ظاھر اصول اصحابنا غیر مقبول ففی العنایة و الذخیر و المحیط و الخزانة عن التاتارخانیه انه لم یذکر محمد تلک المسئلة فی الاصل لا نفیا و لا اثباتا فلم یوجد لما نص علیه محمد رحمة اللہ علیه فی مؤطاہ معارض من ظاھر الروایة و قد روی الاشارة بالسبابة عند التشھد عن جماعة من الصحابة انتہٰی ما فی المحلی شرح المؤطا للعلامة سلام اللہ من اولادٓٓ الشیخ عبد الحق المحدث الدھلوی و قال العلامة عابد السندی ثم المدنی فی طوالح الانوار شرح الدر المختار ان الاشارة قد رویت عن سبعة و عشرین صحابیا و مکذا ذکر الملا علی قاری الھروی فی الرسالة۔
ترجمہ: جو تم آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم دیں اسے لے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز آجاؤ، فتح القدیر میں ہے انگلی سے اشارہ کرنا درست ہے۔ اور یہی امام ابو حنیفہؒ سے مروی ہے جیسا کہ امام محمد نے بیان کیا ہے اور اس کی ممانعت کرنا روایت اور درایت دونوں کے بر خلاف ہے مجتبیٰ میں ہے اس کے سنت ہونے پر تمام روایات متفق ہیں۔ کوفی اور مدنی لوگوں کا اس میںاختلاف نہیں ہے اور احادیث و آثارٓٓ اس کے متعلق بہت زیادہ ہیں۔ عینی نے اس کو مستحب کہا ہے۔ اور صاحب محیط نے سنت، در مختار میں ہے کہ یہی صحیح ہے کہ یہ سنت ہے۔ متاخرین شرح مثلاً کمال، حلبی، نبہسی، باقلانی، اور شیخ الاسلام وغیرہ نے اس کی خوب تحقیق کی ہے۔ کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ اور امام محمد، ابو یوسف اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کا یہی مذہب ہے، خانیہ میں ہے کہ لا الہ الا اللہ کے وقت انگلی اٹھانا سنت ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ آخری دو انگلیاں بند کر لے۔ اور انگوٹھے اور درمیانی انگلی کا حلقہ بنا لے اور سبابہ سے اشارہ کرے۔
اگر کوئی سوال کرے کہ کیدانی نے غرائب میں اس کو افعال محرمہ سے شمار کیا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نص اور اقوال ائمہ کے برخلاف ان کا قول مردود ہے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی جائے گی اور اس کی ممانعت میں کوئی حدیث قابل اعتبار نہیں ہے۔ اور امام صاحب اور صاحبین کے قول کے برخلاف ان کے قول کی کیا حقیقت ہے۔ در مختار کی شرح طوالع الانوار میں گہے، کہ تشہد میں انگلی اٹھانے کے متعلق ستائیس صحابہ سے روایات منقول ہیں۔ ملا علی قاری نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔
پھر جو کوئی باوجود احادیث اور اقوال و افعال صحابہ کرام و مجتہدین عظام اور دیگر علمائے اعلام کے حرام کہے اور انگلی کاٹنے کا قائل ہو، اور اعتقاد رکھتا ہو مردود اور بڑا جاہل بے وقوف ہے۔ ایسے جاہل کے قول کا ہرگز اعتبار نہ کرنا چاہیے اور اس قدر دیندار منصف کو کافی ہے۔ و اللہ اعلم بالصواب۔

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 177۔179

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ