سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(11) امام کے پیچھے سورة فاتحہ پڑھنا کیسا ہے الخ

  • 2948
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 1724

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

امام کے پیچھے سورئہ فاتحہ پڑھنا احادیث صحیحہ مرفوعہ غیر منسوخہ سے ثابت ہے یا نہیں اور اس کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام کے پیچھے سورئہ فاتحہ کا پڑھنا خواہ صلوٰۃ سریہ میں ہو یا جہریہ میں احادیث صحیحہ مرفوعہ سے ثابت ہے عن عبادة بن الصامت ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال لاصلوٰة لمن لم یقرأ بفاتحة الکتاب رواہ البخاری و مسلم عن ابی ھریرة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم من صلی صلٰوة و لم یقرأ فیھا بام القراٰن فھی خداج غیر تمام ثلاثال فقیل لابی ھریرة انا نکون وراء الامام فقال اقرأ بھا فی نفسک الحدیث رواہ مسلم عن عبادة بن الصامت قال صلی رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم الصبح فثقلت علیه القرأة فلما انصرف قال انی ارکم تقرؤن خلف امامکم قال قلنا یا رسول اللہ ای و اللہ قال لا تفعلوا الا بام القراٰن فانه لاصلٰوة لمن لم یقرأ بھا رواہ الترمذی و قال حدیث عبادة حدیث حسن (عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! جو الحمد نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہے، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو بغیر فاتحہ کے نماز پڑھے وہ نماز ناقص ہے پوری نہیں ہے تین مرتبہ فرمایا، ابو ہریرہ سے سوال کیا گیا کہ ہم امام کے پیچھے ہوں تو کیا کریں؟ فرمایا اپنے دل میں آہستہ پڑھو، عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی، تو آپ پر قرأت بوجھل ہو گئی جب فارغ ہوئے تو فرمایا! میں دیکھتا ہوں کہ تم امام کے پیچھے قرأت کرتے ہو، ہم نے کہا ہاں اے اللہ کے رسول، آپ نے فرمایا! ام القرآن کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو، کیوں کہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی) اور روایت کی گئی ہے حدیث اس باب کی حضرت عائشہ و انس و ابو قتادہ و عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے۔ اور اسی پر عمل ہے بہت سے صحابہ اور تابعین اور محدثین کا، جیسا کہ جامع ترمذی میں مسطور ہے باقی رہا حکم اس کا پس بعض قائل فرضیت کے ہیں اور بعض قائل استحباب کے ہیں، جیسا کہ امام ابو عیسیٰ ترمذی اپنی جامع میں فرماتے ہیں: قد اختلف اھل العلم فی القرأة خلف الامام فرای اکثر اھل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیه وسلم و التابعین و من بعد ھم القرأة خلف الامام و به یقول مالک و ابن المبارک و الشافعی و احمد و اسحاق و و روی عن عبد اللہ بن المبارک انه قال انا اقرأ خلف الامام و الناس یقرؤن الا قوم من الکوفیین و اری من یقرأ صلٰوہ جائزة و شدد قوم من اھل العلم فی ترک قرأۃ فاتحۃ الکتاب و ان کان خلف الامام فقالوا لاتجزئ صلٰوۃ لا بقرأۃ فاتحۃ الکتاب وحدہ کان او خلف الامام و ذھبوا الی ما روی عبادۃ بن صامت عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم و قرأ عبادۃ بن  صامت بعد النبی صلی اللہ علیہ وسلم خلف الامام انتہٰی (امام کے پیچھے الحمد پڑھنے میں علماء کا اختلاف ہے صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کی اکثریت الحمد پڑھنے کے قائل ہیں۔ امام مالک، احمد بن حنبل، ابن مبارک، امام شافعی، اسحاق بن راہویہ کا یہی مذہب ہے، عبد اللہ بن مبارک نے کہا، میں امام کے پیچھے الحمد پڑھتا ہوں اور دسرے تمام لوگ بھی (ماسوائے کوفیوںکی ایک جماعت کے) پیچھے الحمد پڑھتے ہیں، میں اس آدمی کی نماز  کو جائز سمجھتا ہوں جو امام کے پیچھے الحمد نہیں پڑھتا، لیکن اہل علم کی دوسری جماعت تو اس معاملہ میں بڑی سخت ہے۔ وہ ایسی نماز کو صحیح نہیں سمجھتے جس میں فاتحہ نہ پڑھی گی ہو، ان لوگوں نے عبادہ بن صامت کی حدیث اور ان کے طرز عمل سے استدلال کیا ہے۔) اور دلائل دونوں طرف کے اپنی جگہ پر مذکور ہیں اور وہ روایات جو دوبارہ عدم جواز قرأت کے مروی ہیں وہ مقابلہ ان روایات صحیحہ کا نہیں کر سکتی ہیں۔

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 119۔120

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ