سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(08) امام کے پیچھے سورة فاتحہ پڑھنے کے بارے میں کیا کیا دلیلیں ہیں

  • 2945
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 9372

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بارے میں کیا کیا دلیلیں ہیں حوالہ سمیت تحریر فرمائیے اور اگر کوئی امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھے تو اس کے منہ میں آگ کا انگارا بھرا جائے گا۔ یہ کہاں تک صحیح ہے اس کا مدلل جواب دیا جائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے بغیر سورہ فاتحہ پڑھے نماز نہیں ہوتی اس سلسلہ میں دس حدیثیں مندرجہ ذیل ہیں ان کو غور سے پڑھو اور عمل کرو، پہلی حدیث حضرت عبادہ بن صامتؓ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں: اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْه وَسَلَّمَ قَالَ لَا صَلٰوة لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأ بِفَاتِحَة الْکِتَابِ۔‘‘ کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں ہوتی نماز اس شخص کی جس نے سورئہ فاتحہ نہیں پڑھی۔‘‘ اس حدیث کو بخاری، مسلم، ترمذی، ابودائود، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کو نماز میں سورئہ فاتحہ پڑھی ضروری ہے تنہا ہو یا امام یا مقتدی، بغیر سرئہ فاتحہ پڑھے کسی کی کوئی نماز نہیں ہوتی خواہ فرض ہو یا نفل ہر ایک میں سورئہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے کیوں کہ حکم عام ہے۔
دوسری حدیث
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَة عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْه وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَلَّی صَلٰوة لَمْ یَقْرَأ فِیْھَا بِاُمِّ الْقُرْآنِ فَھِیَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَیْرُ تَمَامٍ فَقِیْلَ لِاَبِیْ ھُرَیْرَة اِنَّا نَکُوْنُ وَرَائَ الْاِمَامِ فَقَالَ اِقْرَأ بِھَا فِیْ نَفْسِکَ الحدیث رَوَاہُ مُسْلِمٌ ص ۱۶۹ یعنی ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کوئی نماز پڑھے کہ اس میں سورئہ فاتحہ نہ پڑھے تو وہ نماز ناقص ہے ناقص ہے ناقص ہے پوری نہیں ہے پس ابو ہریرہؓ سے کہا گیا کہ ہم لوگ امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو ابو ہریرہؓ نے کہا پڑھ سورہ فاتحہ کو آہستہ، روایت کیا اس حدیث کو مسلم نے۔
تیسری حدیث
عن عبادة بن الصامت قال صلی رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم الصبح فثقلت علیه القرأة فلما انصرف قال انی اراکم تقرئون خلف امامکم قال قلنا یا رسول اللہ ای و اللہ قال لاتفعلوا الا بام القرأن فانہ لاصلٰوة لمن لم یقرأ بھا رواہ لاترمذی و قال حسن ئو ابودائود و النسائی وغیرہ۔‘‘ یعنی عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی پس بھاری ہوئی آپ کو قرأت پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ میں خیال کرتا ہوں کہ تم لوگ اپنے امام کے پیچھے پڑھتے ہو، ہم لوگوں نے کہا ہاں یا رسول اللہ، قسم اللہ کی، آپ نے فرمایا نہ پڑھو مگر سورئہ فاتحہ اس واسطے کہ نہیں ہوتی نماز اس شخص کی جس نے سورئہ فاتحہ نہیں پڑھی۔ روایت کیا اس کو ترمذی نے اور کہا کہ حسن ہے۔ اور ابودائود و نسائی وغیرہ نے۔
چوتھی حدیث
عن زید بن واقد عن حزام بن حکیم و مکحول عن نافع بن محمود بن الربیع کذا و قال انه سمع عبادة بن الصامت یقرأ بام القراٰن و ابو نعیم یجھر بالقرأة فقلت رأیتک صفة فی صلاتک شیئا قال و ما ذاک قال سمعتک تقرأ بام القراٰن و ابو نعیم یجھر بالقراة قال نعم صلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم بعض الصلٰوات ٓٓالتی یجھر فیھا بالقرأةفلما انصرف قال منکم من احد یقرأ شیئا من القرأة اذا جھرت بالقراة قلنا نعم یا رسول اللہ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم و انا اقول ما لی انازع القران فلا یقرأن احد منکم شثئا من القرأن اذا جھرت بالقرأة الا بام القراٰن رواہ الدار قطنی و قال ھذا اسناد حسن و رجاله ثقات کلھم۔‘‘ یعنی نافع بن محمود سے روایت ہے کہ انہوں نے عبادہ بن صامت سے سنا کہ وہ سورئہ فاتحہ پڑھتے ہیں حالاں کہ ابو نعیم جہر سے قرأت کر رہے تھے پس کہا کہ میں نے آپ کو نماز میں ایک شے کرتے دیکھا ہے۔ عبادہؓ نے کہا کہ وہ شے کیا ہے کہا آپ کو میں نے سورئہ فاتحہ پڑھتے ہوئے سنا۔ حالاں کہ ابو نعیم جہر سے قرأت رہے تھے، عبادہؓ نے کہا ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو بعض وہ نماز پڑھائی جس میں جہر سے قرأت کی جاتی ہے پس جب آپ نماز سے فارغ ہوئے فرمایا کوئی تم میں سے کچھ پڑھتا ہے جبکہ میں جہر سے قرأت کی جاتی ہے جبکہ میں جہر سے قرأت کرتا ہوں، ہم لوگوں نے کہا ہاں یا رسول اللہ پس فرمایا کیا ہے مجھ کو کہ میں منازعت اور کشاکشی کیا جاتا ہوں قرآن میں، پس ہرگز نہ پڑھے تم میں سے کوئی کچھ قرآن جبکہ میں جہر سے قرأت کروں مگر سورئہ فاتحہ، روایت کیا اس حدیث کو دارقطنی نے اور کہا کہ یہ اسناد حسن ہے اور اس کے کل راوی ثقہ ہیں۔
اس حدیث سے بھی صراحتاً معلوم ہوا کہ مقتدی کو امام کے پیچھے سورئہ فاتحہ پڑھنی چاہیے۔
پانچویں حدیث
عن محمد بن عائشة عن رجل من اصحاب النبی صلی اللہ علیه وسلم قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لعلکم تقرؤن و الامام یقرأ قالوا انا نفعل قال لا الا ان یقرأ احدکم بفاتحة الکتاب رواہ احمد و البیہقی و البخاری فی جزہٖ و فی روایة البخاری الا ان یقرأ احدکم بفاتحة الکتاب فی نفسه و نحوہ فی روایة البخاری قال ھذا اسناد صحیح و اصحاب النبی صلی اللہ علیه وسلم کلھم ثقة فترک ذکر اسمائھم فی الاسناد و لا یضر اذا لم یعارضه ما ھو اصح عنه و قال الحافظ فی التلخیص ص ۸۷ اسنادہ حسن۔
یعنی محمد بن عائشہؒ نے ایک صحابیؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شاید تم لوگ پڑھتے ہو جب کہ امام پڑھتا ہے لوگوں نے کہا بیشک پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا نہیں مگر سورئہ فاتحہ آہشتہ پڑھنا چاہیے، روایت کیا اس حدیث کو احمدؒ نے بخاریؒ نے جزء القرأۃ میں اور کہا بیہقیؒ نے یہ اسناد صحیح ہے اور کہا حافظ ابن حجرؒ نے تلخیص الحبیر میں کہ اسناد اس حدیث کی حسن ہے۔ اس حدیث سے بھی صراحتاً معلوم ہوا، کہ مقتدیں کو امام کے پیچھے سورئہ فاتحہ پڑھنی چاہیے۔
چھٹی حدیث
عن انس کان النبی صلی اللہ علیه وسلم صلی باصحابه فلما قضی صلٰوته اقبل علیھم بوجھه فقال اتقرؤن فی صلاتکم و الامام یقرأ فسکتوا فقالھا ثلاث مرات فقال قائل او قائلون انا لنفعل قال فلا تفعلوا و لیقرأ احدکم بفاتحة الکتاب فی نفسه رواہ البخاری
ترجمہ: اس حدیث کا خلاصہ ترجمہ یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو نماز پڑھائی، پس جب نماز سے فارغ ہوئے صحابہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ کیا تم لوگ اپنی نماز میں پڑھتے ہو جبکہ امام پڑھتا ہے پس صحابہ چپ رہے آپ نے اس بات کو تین بار فرمایا ایک شخص یا کئی شخصوں نے کہا بیشک ہم لوگ پڑھتے ہیں فرمایا آپ نے ایسا نہ کرو اور سورئہ فاتحہ آہستہ پڑھ لو روایت کیا اس حدیث کو بخاری نے۔
ساتویں حدیث
قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم تقرؤن خلفی قالوا نعم انا لنفعل ھذا قال فلا تفعلوا الا بام القرأن رواہ البخاری فی جزء القرأة ص ۵ حاصل اس حدیث کا یہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ میرے پیچھے پڑھتے ہو؟ لوگوں نے کہا ہاں۔ ہم لوگ جلدی جلدی پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا نہ پڑھو مگر سورئہ فاتحہ،روایت کیا اس حدیث کو بخاری نے جزء القرآۃ میں۔
آٹھویں حدیث
قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لا صلٰوة لمن لم یقرأ بفاتحة الکتاب خلف الامام۔‘‘ یعنی عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں ہوتی نماز اس شخص کی جس نے امام کے پیچھے سورئہ فاتحہ نہ پڑھی۔ (بیہقی)
نویں حدیث
من صلی خلف الامام فلیقرأ بفاتحة الکتاب۔  عبادہ بن صامت سے سے روایت ہے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو شخص نماز پڑھے امام کے پیچھے تو اس کو سورئہ فاتحہ پڑھنا چاہیے۔ روایت کیا اس حدیث کو طبرانی نے کبیر میں اور کہا بیہقی نے کل راوی اس حدیث کے سچے ہیں اس حدیث سے بھی قرأۃ فاتحٓٓہ خلف الامام کا وجوب بصراحت ثابت ہے۔
دسویں حدیث
من صلی صلٰوة لم یقرأ فیھا بام القراٰن فھی خداج یعنی عائشہؓ فرماتی ہیں۔ کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ فرماتے تھے کہ جو شخص ایسی نماز پڑھے کہ اس میں سورئہ فاتحہ نہ پڑھے تو وہ نماز ناقص ہے روایت کیا اس حدیث کو ابن ماجہ اور طحاوی نے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ چاہے مقتدی ہو یا غیر مقتدی نماز میں سورئہ فاتحہ نہ پڑھے تو اس کی نماز فاسد ہو گی۔
امام کے پیچھے سورئہ فاتحہ پڑھنے کی وجہ سے منہ میں انگارے رکھنے کی کوئی حدیث نہیں ہے بعض لوگوں کا قول ہے اور وہ بھی ضعیف ہے قرآن و حدیث کے مقابلہ میں کسی کا قول قابل حجت نہیں ہے آپ کی تسلی کے لیے ذیل میں اس قول کو نقل کر کے اس کا جواب دیا جاتا ہے۔
مؤطا امام محمدؒ ص ۹۸ میں ہے: قال محمد اخبرنا داؤد بن قیس الفراء المدنی اخبرنی بعض ولد سعد بن ابی وقاص انہ ذکر له ان سعداً قال وددت ان الذی یقرأ خلف الامام فی فیه جمرة۔‘‘ یعنی سعد بن ابی وقاصؓ کی بعض اولاد نے دائود بن قیس سے ذکر کیا کہ سعد بن ابی وقاص نے کہا کہ میں اس بات کو دوست رکھتا ہوں کہ جو شخص امام کے پیچھے قرأت کرے اس کے منہ میں انگارا ہو۔
الجواب:… سعد بن ابی وقاص کا یہ اثر صحیح نہیں ہے تعلیق الممجد حاشیہ موطا امام محمد ص ۹۹ میں ہے: قوله بعض ولد بضم الواو سکون اللم ای اوردہ و لم یعرف اسمه قال ابن عبد البر فی الاستذکار ھذا حدیث منقطع لا یصح انتھٰی۔ یعنی بعض اولاد سعد بن ابی وقاص کا نام معلوم نہیں ہوا ہے کہا حافظ ابن عبد البر نے استذکار میں یہ حدیث منقطع ہے صیح نہیں ہے اور حافظ ممدوح تمہید میں لکھتے ہیں۔ و اما ما روی عن سعد بن ابی وقاص انه قال وددت ان الذی یقرأ خلف الامام فی فیه جمرة فمنقطع لا یصح و لا نقله ثقة انتھٰی۔ یعنی لیکن وہ اثر جو سعد بن ابی وقاصؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں دوست رکھتا ہوں کہ جو شخص امام کے پیچھے قرأت کرے اس کے منہ میں انگارہ ہو سو وہ منقطع ہے صحیح نہیں ہے اور کسی ثقہ نے اس کو نقل نہیں کیا ہے۔ امام بخاریؒ جزء القرأۃ ص ۷ میں لکھتے ہیں:
وروی داؤد بن قیس عن ابن نجاد رجل من ولد سعد عن سعد وددت ان الذی یقرأ خلف الامام فی فیه جمرة و ھذا مرسل و ابن نجاد لم یعرف و لا سمی و لا یجوز لاحد ان یقول فی القاری خلف الامام جمرة لان الجمرة من عذاب اللہ و قال النبی صلی اللہ علیه وسلم لا تعذبوا بعذاب اللہ و لا ینبغی لاحد ان یتوھم ذالک علی سعد مع ارساله وضعفه انتہٰی۔
یعنی داؤود بن قیس نے ابن نجاد سے جو سعد بن ابی وقاصؓ کی اولاد سے ایک شخص ہیں روایت کیا سعد بن ابی وقاصؓ نے کہا میں اس بات کو دوست رکھتا ہوں کہ جو شخص امام کے پیچھے قرأت کرے اس کے منہ میں انگارا ہو اور یہ مرسل ہے اور ابن نجاد پہچانا نہیں جاتا ہے اور نہ اس کا نام لیا گیا ہے اور کسی کو یہ جائز نہیں  کہ امام کے پیچھے قرأت کرنے والے کے منہ میں انگارا ہو کیونکہ اگرا اللہ کے عذاب سے ہے اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے عذاب سے عذاب نہ کرو اور کسی کو لائق نہیں کہ سعد بن ابی وقاصؓ پر اس بات کا وہم کرے کہ انہوں نے ایسا کہا ہو گا اور ساتھ اس کے یہ اثر مرسل اور ضعیف ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ مولانا عبد السلام بستوی (مدرسہ ریاض العلوم دہلی) اخبار اہلحدیث دہلی جلد ۹ ش ۲۳

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 112۔116

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ