سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(04) نماز میں بسم اللہ جہر کرنے کے متعلق امام ابو داؤد کے ایک باب کا مطلب ۔

  • 2941
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 2395

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

امام ابو دائود باب ما جاء من جھر بھا میں لکھتے ہیں قال ابو داؤد قال الشعبی و ابو مالک و قتادة و ثابت بن عمارة ان النبی صلی اللہ علیه وسلم لم یکتب بسم اللہ الرحمن الرحیم حتی نزل سورة النمل ھذا معناہ ترجمہ ابودائود نے کہا کہ شعبیؒ ، ابو مالکؒ قتادہ اور ثابت بن عمارہؒ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ نہیں لکھی یہاں تک کہ سورئہ نمل اتری۔ اس سے جہر بسم اللہ فی الصلوٰة پر کیسے استدلال ہو سکتا ہے۔ دوسرے اس سے کتابت بسم اللہ فی المکتوب فی الرسائل کا ثبوت ہے نہ کہ مکتوب ہونا بسم اللہ کافی اول السور کیوں انفصال سور کا آپؐ کو معلوم ہی نہیں ہوتا تھا جب تک کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ اتری تھی۔ تیسرے یہ روایات مرسلہ معارض بھی ہیں اس روایت کے کہ جس میں آتا ہے کہ آپؐ کو فصل سورت از سورت قرآن معلوم ہی نہیں ہوتا تھا جب تک کہ نزول بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ ہوتا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ابو دائود یہ حدیث اس سے پہلی حدیثوں کا مطلب بتانے کے لیے لائے ہیں پہلے دو حدیثیں ہیں ایک کے الفاظ یہ ہیں۔ ان النبی صلی اللہ علیه وسلم و ابو بکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ کانوا فتحون القرأة بالحمد للہ رب العلمین (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکرؓ اور عمرؓ اور عثمانؓ الحمد للہ رب العالمین سے نماز شروع کرتے تھے) دوسری حدیث کے الفاظ یہ ہیں کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یفتح الصلٰوة بالتکبیر و القرأة بالحمد للہ رب العلمین (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر اور قرأۃ الحمد للہ رب العالمین سے نماز شروع کرتے تھے۔
یہ دونوں حدیثیں بظاہر ان لوگوں کی دلیل ہیں جو بسم اللہ الرحمن الرحیم جہراً نہیں پڑھتے ابو دائود نے باب تو انہی کے مطابق باندھا ہے مگر ضمناً اصل مطلب کی طرف بھی اشارہ کر دیا۔ وہ یوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ مجھ پر ایک سورت اتاری گی ہے سورت ’’انا اعطینا‘ بسم اللہ سے شروع کی۔ جس سے معلوم ہوا کہ بسم اللہ بھی اس میں داخل ہو گئی اس بنا پر ہر سورے کے شروع کی بسم اللہ اس صورت میں داخل ہو گی۔ جس میں فاتحہ بھی آ جاتی ہے۔ پس الحمد للہ رب العلمین سے قرأت شروع کرنے کا مطلب یہ ہو گا۔ کہ سورۃ الحمد للہ رب العلمین سے قرأت شروع کی اور سورۃ الحمد للہ رب العالمین میں بسم اللہ بھی داخل ہے پس اس کا پڑھنا بھی ثابت ہو گیا۔
چونکہ یہاں شبہ ہوتاہے کہ انا اعطینا کے شروع میں بسم اللہ پڑھنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ بسم اللہ اس میں داخل ہو ممکن ہے بطور تبرک پڑھی ہو اس کا جواب اگرچہ دیا جا سکتا ہے کہ یہ ظاہر کے خلاف ہے کیوں کہ بطور تبرّک پڑھنے کا کوئی قرینہ نہیں، پھر سورہ فاتحہ کے شروع میں بھی بسم اللہ بطورر تبرّک ضرور پڑھی ہو گی اور الحمد للہ رب العالمین سے قرأۃ شروع کرنے کا مطلب یہ ہو گاکہ بسم اللہ کے بعد کوئی اور صورت نہیں پڑھی۔ بلکہ سورۃ الحمد للہ رب العالمین پڑھی۔
لیکن ابو دائود حدیث کی کتاب ہے اس میں فقہی طرز پر مسائل کا بیان کرنا مقصود نہیں بلکہ مسائل کے متعلق روایات کا ذخیرہ کرنا مقصود ہے۔ اس لیے ابودائود نے اس کے بعد ایک اور روایت ذکر کی جس میں ذکر ہے کہ حضرت عائشہؓ کی جب برأۃ اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعوذ پڑھ کر آیت اِنَّ الَّذِیْنَ جَاؤُا بِالْاِفْکِ پڑھی اگر انا اعطیناک الکوثر کے شروع میں بسم اللہ بطور تبرک پڑھی ہوتی تو یہاں بھی پڑھتے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شروع سورۃ میں بطور تبرّک نہیں پڑھی ٓٓبلکہ اس لیے پڑھی کہ شروع سورۃ میں بسم اللہ ہے پس اس میں فاتحہ بھی آ گئی۔
حدیث عثمانؓ سے جہر اسی طرح ثابت ہوئی ہے کہ ظاہر یہی ہے کہ ما بین الدفتین قرآن مجید ہے۔ اور بطور تبرّک کہنا خلاف ظاہر ہے۔ جو بغیر دلیل مسموع نہیں، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورئہ نمل کے اترنے تک بسم اللہ نہیں لکھی اس سے معلوم ہوا کہ بعد لکھی ہے اگر بطور تبرّک لکھتے تو پہلے بھی لکھتے، پس جیسے نمل کی لکھی گئی اسی طرح شروع سورتوں کی لکھی گئی اور نمل کی تو بطور جزئیت کے ہے بس شروع سورتوں کی بھی بطور جزئیت کے ہو گی۔
اس کے بعد ابو دائود نے ایک اور حدیث ذکر کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سورت کی دوسری سورت سے جدائی نہ پہچانتے تھے، یہاں تک کہ بسم اللہ اتاری جاتی اس سے بھی تائید ہوتی ہے کہ بسم اللہ کی کتابت بطور تبرّک نہیں، کیوں کہ دوسری سورۃ شروع ہونے کے وقت اس کا باقاعدہ نزول ہوتا، جیسے قرآن مجید اترتا پس قرآن مجید میں ہر سورت کے شروع میں اس کٓٓا لکھنا بطور جزئیت ہوا اور جب لکھنا بطور جزئیت ہوا تو اس سے جہراً پڑھنا بھیگ ثابت ہو گا کیوں کہ اصل یہی ہے کہ جیسے باقی جزاء جہراً پڑھے جاتے ہیں ایسے ہی بسم اللہ پڑھنی چاہیے ہاں جہراً پڑھ دیتے چنانچہ مشکوٰة باب قرأة الصلوٰۃ میں ہے۔ جیسے کسی آیت کے جہراً پڑھنے سے عدم جزئیت لازم نہیں آتی، اسی طرح آہستہ کو خیال کر لینا چاہیے اور آہستہ پڑھنے کی وجہ نیل الاوطار جلد نمبر ۲ صفحہ ۹۷، ۹۸ بحوالہ فتح الباری وغیرہ یہ ذکر کی ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں جب بسم اللہ پڑھتے تو بطور استہزا کفاریہ کہتے کہ یہ رحمان یمامہ کا ذکر کرتا ہے۔ یعنی مسیلمہ کذاب کا کیوں کہ اس نے اپنا نام رحمان رکھا ہوا تھا۔‘‘ پس اس وقت سے بسم اللہ آہستہ پڑھنے کا ارشاد ہو گیا، پھر اگرچہ آہستہ پڑھنے کی علت باقی نہ رہی مگر عمل در آمد اس پر باقی رہا، جیسے طواف بیت اللہ میں رمل باقی رہا۔ یہ روایت طبرانی وغیرہ میں ہے اور مجمع الزوائد میں کہا کہ اس کے راوی ثقہ ہیں۔ یہ نیل الاوطار کی عبارت کا خلاصہ ہے اس میں جو یہ کہا ہے کہ اس پر عمل در آمد باقی رہا، اس سے مراد اگر اکثر ہو یعنی اکثر ایسا ہوتا ہے تو یہ صحیح ہو سکتا ہے اور اگر یہ مراد ہو کہ اس کے بعد جہر پر عمل باقی نہیں ہوا تو یہ محل نظر ہے کیونکہ احادیث سے اس کے بعد بھی جہر کا ثبوت ملتا ہے۔

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 109۔111

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ