سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(01) قرآن کی جن آیات میں حساب وکتاب کا ذکر ہو یا استفہام و سوال وغیرہ - اس كا جواب پڑھنے والا دے یا سننے والا بھی ۔

  • 2938
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2056

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 قرآن مجید کی وہ آیتیں جن میں استفہام و سوال ہے جیسے فَبِاَیِّ اٰلَائِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَان۔ ’’اَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقَادِرٍ عَلٰی اَن یُّحْیِ الْمَوتٰی وغیرھم یا دیگر آیتیں جن میں حساب و کتاب کا ذکر ہو جیسے اِنَّ اِلَیْنَا اِیَابَھُمْ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَھُمْ وغیرہ جب پڑھ یجائیں تو کیا ان کے جوابات یا دعائیں حسب موقع صرف پڑھنے والے ہی دے سکتے ہیں یا سننے والے بھی جوابی دعائیں پڑھیں اور نماز میں صرف امام ہی جواب دے سکتا ہے یا مقتدی کو بھی جواب دینا چاہیے، نیز یہ بھی تحریر فرمائیے کہ جوابی دعا بلاند آواز سے پڑھی جائے یا آہستہ اور یہ جواب دینا مستحب ہے یا فرض و سنت؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 آیاتِ مذکورہ کا جواب جس طرح قاری کو دینا چاہیے اسی طرح سامع کو بھی دینا چاہیے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بوقت قرأت ان آیتوں کا جواب دینا ثابت ہے اور آپ کا ہر قول و فعل امت کے لیے ہر وقت دستور العمل ہے تاوقتیکہ اس کی تخصیص وقت خاص یا شخص خاص یا حالت خاص کے ساتھ ثابت نہ ہو مثلاً رفع الیدین اور وضع الیدین علی الصد اور سبّابه فی التشہد اور جلسئه استراحت اور تورک اور قبل افتتاح قرأت کے اللہ اکبر کبیر او الحمد للہ کثیر او سبحان اللہ بکرة و اصیلا۔ یا اِنِّی وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰواتِ وَ الْاَرْضِ الخ یا اَللّٰھُمَّ بَاعِدْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدتَّ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ پڑھنا یا رکوع میں سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمَلٰئِکَة وَ الرُّوْحِ اور سجدہ میں میں لَکَ سَجَدَ وَجْھِیَ وَ عِظَامِیْ وَ مُحِیّ پڑھنا وغیر ذالک یہ ایسے افعال ہیں جن کی مسنونیت میں کوئی شک نہیں کیا جا سکتا اور امت محمدیہ میں سے ہر شخص کے لیے یہ افعالمسنون ہیں خواہ وہ شخص امام ہو یا مقتدی، خواہ منفرد ہو، حالاں کہ یہ کہیں ثابت نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مقتدیوں کو ان امور کی تعلیم فرمائی ہو یا عام طور پر حکم دیا ہے۔ پھر بھی یہ احکام ہر شخص کے لیے اسی وجہ سے عام رہے ہیں کہ آپ نے فرمایا ہے کہ صَلُّوْا کَمَا رَأَیْٓٓٓٓٓتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ یعنی تم اسی طرح نماز پڑھو جیسا کہ تم مجھے پڑھتے دیکھتے ہو اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُسْوَة حَسَنَة۔ پس بنا بر تقریر ہذا آیاتِ مسئولہ کا جواب ہر شخص کو دینا چاہیے عام ازیں کہ قاری ہو یا سامع نمازمیں ہو یا غیر نماز میں، اتباعاً لفعل النبی صلی اللہ علیه وسلم کما رواہ ابو دائود عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْه وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا قَرَأَ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی قَالَ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے کہ عَنْ مُوْسیٰ بْنِ عَائِشَة قَالَ کَانَ رَجُلٌ یُصَلِّی فَوْقَ بَیْتِه وَ کَانَ اِذَا قَرَأَ اَلَیْسَ ذَالِکَ بِقَادِرٍ عَلٰی اَنْ یُّحْیِیَ الٔٔمَوتٰی قَالَ سُبْحَانَکَ فَبَلٰی فَسَاَلُوْا عَنْ ذَالِکَ فَقَالَ سَمِعْتُه مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بیہقی میں ہے عَنْ عَلِیٍّ اَنَّه قَرَأ فِی الصُّبْحِ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی فَقَالَ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی (الحدیث) ابو دائود میں عوف بن مالک الاشجعیؓ سے روایت ہے کہ قُمْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَیْلَة فَقَامَ فَقَرَأ سُوْرَة الْبَقَرَة لَایَمَرُّ بِاٰیَة رَحْمَة اِلَّا وَقَفَ فَسَأَلَ وَ لَا یَمَرُّ بِاٰیَة عَذَابٍ اِلَّا وَقَفَ فَتَعَوَّذَ قَالَ ثُمَّ رَکَعَ بِقَدْرِ قِیَامِه یَقُوْلُ فِیْ رُکُوْعِه سُبْحَانَ ذِیْ الْجَبَرُوْتِ وَ الْمَلَکُوْتِ وَ الْکِبْرِیَائِ وَ الْعَظْمَۃِ ثُمَّ سَجَدَ بِقَدْرِ قِیَامِه ثُمَّ قَالَ فِی سُجُوْدِه مِثْلَ ذَالِکَ ثُمَّ قَامَ فَقَرأَ بِاٰلِ عِمْرَانَ ثُمَّ قَرَأَ سُوْرَة (الحدیث) ترمذی میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز صحابہ کرام کے سامنے سورئہ رحمن شروع سے آخر تک پڑھی، صحابہ چپ رہے اس پر آپ ٓٓنے فرمایا کہ یہی سورۃ لیلۃ الجن میں جنّات پر جب میں نے پڑھی تو انہوں نے تم سے بہتر اس کا جواب دیا۔ جب بھی میں فَبِاَیِّ اٰلاَئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَان پڑھتا تو جنات ان لفظوں کے ساتھ اس کا جواب دیتے۔‘‘ لَا بِشَیئٍ مِنْ نَعَمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ فَلَکَ الْحَمْدُ۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس قسم کی آیتوں کا جواب قاری یا مصلی کے اعتبار سے نہیں بلکہ خود اس کلام پاک کے معنی اور موقعہ کے لحاظ سے ہے جب ہی تو آپ نے صحابہ کرام کے سکوت پر اعتراض فرمایا اور جنات کے جواب دینے کو مدحیہ طور پر ذکر فرمایا، گویا آپؐ نے اس طرح کر کے صحابہ کو تعلیم دی کہ اس قسم کی آیتوں سے جب تمہاا گذر ہو تو اس کا جواب ضرور دو۔ اسی طرح آیت اَلَیْسَ ذَالِکَ بِقَادِرٍ عَلٰی اَنْ یُّحْیِ الْمَوتٰی اور اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحَاکِمِیْنَ۔ سننے والے کو اس کا جواب لفظ ’’بلیٰ‘‘ سے دینا چاہیے۔ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی میں حکم ہے کہ رب کی پاکی بیان کروخ اس کے جواب میں ٓقاری کو بھی اور سامع کو بھی۔ ’’سبحان ربی الاعلیٰ کہنا چاہیے۔اسی طرح جب عذاب کی آیت پڑھی جائے تو عذاب نار سے پناہ مانگنا چاہیے اور اگر رحمت کی آیت تلاوت کی جائے تو اللہ تعٓالیٰ سے اس کو طلب کرنا چاہیے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی دستور تھا۔ ہم کو بھی اس کے مطابق عمل کرنا چاہیے (اسی قسم کا بیان امام نووی کی ’’کتاب الاذکار‘‘ میں موجود ہے۔ ۱۲ و اللہ اعلم بالصواب

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 102۔104

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ