سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(165) اکیلا شخص صف کے پیچھے نماز نہ پڑھے ۔ الخ

  • 2916
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 903

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اکیلا شخص صف کے پیچھے نماز نہ پڑھے بلکہ صف میں کسی کو کھینچ کر اپنے ساتھ ملا لے اس مسئلہ کے متعلق حدیث کا کیا حکم ہے کہ اگر کوئی شخص بغرض جماعت مسجد میں آئے اور پہلی صف مکمل ہو چکی ہو تو وہ کیا کرے؟ اکیلا کھڑا ہو جائے یا پہلی صف میں سے کسی کو کھینچ کر اپنے ساتھ ملا لے؟ ان دونوں امور میں سے کون سا فعل افضل ہے؟ اگر اکیلا کھڑا ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو کیا نماز درست ہو جائے گی؟ نیز اگر کسی کو کھینچے تو درمیان میں سے کھینچےیاایک طرف سے؟ مدلل بیان فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بعد حمدو صلوٰۃ صورت مسئولہ میں واضح دلائل ہو کہ اگر کوئی شخص مصلی بعد اتمام صف صلوٰۃ مسجد میں آیا اور صف میں اس نے کوئی جگہ نہیں پائی تو وہ اکیلا صف کے پیچھے نماز نہ پڑھے بلکہ کسی شخص کو اطراف صف سے کھینچ کر اپنے ساتھ ملا لے۔
بہ حدیث علی بن شیبان مرفوعاً ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم رأی رجلا یصلی خلف الصف فوقف حتی انصرف الرجل فقال له استقبل صلوٰتک فلا صلوٰة لمنفرد خلف الصف اسنادہ حسن (کذا فی تحفۃ الاحوذی ج ۱ ص ۱۹۴) یعنی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرد کو دیکھا کہ وہ اکیلا صف کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہے پس ٹھہرے آپؐ یہاں تک کہ اس شخص نے اپنی نماز پڑھ لی۔ پس فرمایا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ تو اپنی نماز نئے سرے پڑھ کیوں کہ منفرد کی نماز صف کے پیچھے نہیں ہوتی۔
اس حدیث کی اسناد حسن ہے اور اس حدیث کی تائمید حدیث طلق سے بھی ہوتی ہے جس کو مرفوعاً ابن حبانؓ نے روایت کیا ہے۔ جس کے الفاظ یہ ہیں۔ لا صلٰوة لمنفرد خلف الصف (کذا فی النیل) اب رہا یہ سوال کہ اب وہ اس وعید سے بچنے کے لیے کیا کرے؟ سو دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اطراف صف میں سے کسی شخص کو کھینچ کر اپنے ساتھ ملا لے۔ چنانچہ مراسیل ابو دائود میں ایک مرفوع حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: ان جاء رجل فلم یجد احدا فلیختلج الیه رجلا من الصف فلیقم معه فما اعظ اجر المختلج الحدیث ایسے ایک روایت بیہقی و طبرانی اوسط میں مرفوع آئی ہے: انه صلی اللہ علیه وسلم قال لرجل صلی خلف الصف ایھا المصلی ھلا دخلت فی الصف اوجررت رجلا من الصف اعد صلاتک الحدیث و لکن فیه راو ضعیف کذا فی تحفۃ الاحوذی ص ۱۹۵ ج ۱
اس حدیث کا خلاصہ ترجمہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بعد اتمام صف کے آئے تو وہ صف میں سے کسی شخص کو کھینچ کر اپنے ساتھ ملا لے کیوں کہ منفرد شخص کی نماز نہیں ہوتی۔
باقی رہا یہ امر کہ اگر کسی شخص کو صف سے کھینچا جائے گا تو قطع صف لازم آئے گا اور یہ منع ہے سو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ صورت اس سے خاص ہے ما من عام الاخص منہ البعض مشہور قاعدہ پھر مقتدی اپنی صف کو ملا لیں ایسی حرکت نماز میں درست ہے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں حضرت ابن عباس ؓ کو اپنی بائیں جانب سے پکڑ کر اپنی دڈاہنی جانب کر لیا اور نماز خوف میں بھی ضرورت کی بنا پر صفیں متاخر متقدم ہوتی ہیں، یہ صورتیں قطع صف سے مستثنیٰ ہیں۔ نیز ایک صحابی ابی بن کعبؓ نے ایک رجل غیر ذوی الاحلام کو صف سے کھینچ کر پیچھے کر دیا اور آپ اس کی جگہ پر کھڑا ہو گیا۔ (نسائی ص ۱۳۰ ج ۱)
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ کسی ضرورت سے صف میں سے کسی شخص کو کھینچ لینا درست ہے، قطع صف ضرورت کی بنا پر جائز ہے۔ پس اگر کسی مسلمان کی نماز کسی کو کھینچ کر درست ہو جائے ایسی قطع صف سے جس کا پھر وصل ہو سکتا ہے۔ بطور خیر خواہی مومن کے درست اور جائز ہے۔ ہذا ما عندی من الجواب و اللہ اعلم بالصواب

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 76-78

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ