سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(154) صبح کی جماعت قائم ہونے کے بعد صبح کی سنت پڑھے یا جماعت میں شامل ہو ۔

  • 2905
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2081

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جب جماعت نماز فجر کی کھڑی ہو جائے اس وقت دو رکعت سنت فجر کی پڑھ لے یا شامل جماعت ہو جاوے اگر شامل جماعت ہو گیا تو بعد نماز فرض کے طلوع آفتاب سے قبل نماز سنت کو پڑھے یا نہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس وقت سنت نہ پڑھے جماعت میں شامل ہو جاوے بموجب فرمودہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اذا اقیمت الصلٰوة فلا صلوة الا المکتوبة ترجمہ جس وقت جماعت نماز کی کھڑی ہو جاوے تو اس وقت سوائے نماز فرض کے اور کوئی نماز نہیں ہے دوسری حدیث ثم زاد مسلم بن خالد عن عمرو بن دینار فی قوله صلی اللہ علیه وسلم اذا اقیمت الصلوة فلا صلوة الا المکتوبة قیل یا رسول اللہ لا رکعتی الفجر قال لا رکعتی الفجر اخرجه ابن عدی بسند حسن
ترجمہ: جب نماز کھڑی ہو جائے تو پھر فرض نماز کے علاوہ اور کوئی نماز نہیں ہوتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ صبح کی سنتیں بھی آپ نے فرمایا وہ بھی نہیں ہوتیں۔
اور بخاری میں عبد اللہ بن بحیینہ سے روایت ہے۔ ۲؎ ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم رأی رجلا و قد اقیمت الصلٰوة صلی رکعتین فلما انصرف رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال الصبح اربعا الصبح اربعا عن ابن عمر انه ابصر رجلا یصلی الرکعتین و المؤذن یقیم فحصبه فقد روی عن عمرؓ انہ کان اذا رای رجلا یصلی و ھو یسمع الاقامة ضربه عن طریق عطیةقد رأیت ابن عمرؓ قضاھما حین سلم الامام اور قیس سے روایت ہے خرج رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فاقیمت الصلٰوة فصلیت معه الصبح ثم انصرف النبی صلی اللہ علیه وسلم فوجدنی اصلی فقال مھلا یا قیس اصلٰوتان معا قلت یا رسول اللہ انی لم اکن رکعت رکعتی الفجر قال فلا اذا۔
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا اس نے ایک آدمی کو دیکھا اس نے دو رکعتیں پڑھیں اور نماز کھڑی ہو چکی تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا صبح کی چار رکعتیں پڑھتے ہو؟ صبح کی چار رکعت پڑھتے ہو؟ عبد اللہ بن عمرؓ نے ایک آدمی کو دیکھا وہ دو رکعت پڑھ رہا تھا اور مؤذن اقامت کہہ رہا تھا آپ نے اس کو کنکریاں ماریں حضرت عمرؓ نے ایک آدمی کو نماز پڑھتے دیکھا اور اقامات کی آواز سنی جا رہی تھی آپ نے اس کو مارا حضرت عبد اللہ بن عمر نے امام کے سلام پھیرنے کے بعد قضا دی۔ قیس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے نماز کی اقامت ہوئی میں نے آپ کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی جب آپ فارغ ہوئے تو میں نے سنتیں پڑھی تھیں آپ نے فرمایا اے قیس ٹھہر جا کیا دو نمازیں اکٹھی پڑھتا ہے میں نے کہا اے اللہ کے رسول میں نے پہلی سنتیں نہیں پڑھی تھی آپ نے فرمایا پھر ٹھیک ہے۔
قیس سے روایت ہے کہ قیس نے کہا کہ حضرت باہر تشریف فرما ہوئے اور نماز فجر کی جماعت کھڑی ہوئی تو میں نے حضرت صلی اللہ کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی بعد سلام پھیرنے کے حضرت نے مجھ سے نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا۔ ٹھہرجا  اے قیس کیا تو دو نمازیں اکٹھی پڑھتا ہے میں نے عرض کیا کہ میں نے دو رکعت سنت فجر کی نہیں پڑھی تھی تو حضرت نے فرمایا اگر ایسا ہے تو کچھ مضائقہ نہیں ان روایات مذکورہ بالا سے وقت کھڑی ہو جانے جماعت فرض کے شام لہونا جماعت میں ضرور ہے اور پڑھنا سنتوں کا بعد جماعت کے قبل طلوع آفتاب کے یہ بھی ثابت ہو گیا اگر کوئی بعد طلوع آفتاب کے سنتیں پڑھے گا تو بھی درست ہے۔ واللہ اعلم
محمد عبید اللہ ۱۲۹ اذا اقیمت الصلٰوة فلا صلٰوة الا المکتوبة نص است و بمقابلہ نص تعلیلات قیاسیہ باطل است فقیر عبد الحق ۱۲۹۵     میر احمد پشاوری واقعی ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اذا اقیمت الصلوة فلا صلٰوۃ الا المکتوبة مانع جواز پڑھنے سنت کے ہے مگر بعد فرضوں کے بلا شبہ درست ہے۔
حسبنا اللہ بس حفیظ اللہ قد ثبت فی الصحیحین و غیرھما انه اذا اقیمت الصلٰوة فلا صلٰوة الا المکتوبة و زیادة الا رکعتی الفجر لا اصل لھا قاله البیہقی و نقل عنه فی المحلی شرح الموطا و اللہ اعلم بالصواب
صحیحین میں ثابت ہے۔ کہ جب نماز کی اقامت ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ اور کوئی نماز نہیں ہوتی۔
الجواب صحیح و الرائے نجیح نمقہ محمد یٰسن الرحیم اٰبادی عفی عنہ۔ مجیب صاحب نے بہت ہی عمدہ جواب دیا ہے حقیقت میں وقت اقامت ادائے سنت فجر نا جائز و نا درست از روئے حدیث صحیح السند کے ہے اور کتب فقہ میں بھی اس طرح سنت پڑھنے کو کہ جس طرح آج کل فی زماننا جہال پڑھتے ہیں یعنی قریب صف کے اور مسجد میں ممنوع لکھا ہے اور فتح القدیر میں لکھا ہے کہ اس طرح سے جیسا کہ آج کل مروج ہو رہا ہے سنت فجر پڑھتے ہیں بہت سخت مکروہ ہے اور وہ بڑے اجہل ہیں اور ہدایہ مع الکنایہ میں لکھا ہے کہ سنت فجر وقت اقامت مسجد میں ممنوع و نادڈرست ہے اگر پڑھے تو خارج از مسجد پڑھے اور مولوی عبد الحئ صاحب لکھنوی حنفی نے عمدۃ الرعایہ صفحہ ۲۳۸ و تعلیق الممجد صفحہ ۸۶ میں خوب واضح کر کے لکھا ہے کہ از روئے احادیث صحیحہ مرفوعہ سنت فجر وقت تکبیر نہ پڑھنی چاہیے۔ فقط و اللہ اعلم بالصواب

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد3 ص 67۔69

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ