سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(153) بعد قائم ہونے جماعت کے صبح کی سنت پڑھنا جائز ہے یا نہیں ۔

  • 2904
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 1867

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بعد قائم ہونے جماعت فرض صبح کے دو رکعت سنتیں فجر کی مسجد کے اندر خواہ قریب صف کے یا دور صف سے پڑھنی مکروہ ہیں یا نہیں، حنفی مذہب کی کتب معتبرہ سے زبان اردو میں جواب ادا فرماویں اور اس باب میں کوئی حدیث صحیح جو کہ دلالت کرے کراہت پر وارد ہوئی ہے یا نہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب مسجد میں جماعت قائم ہو، تو بعد اس کے سنتیں مسجد میں پڑھنی مکروہ ہیں، خواہ صف کے پاس پڑھے، یا دور صف سے پڑھے، دونوں صورتوں میں مکروہ ہے۔ کیوں اس میں مخالفت پائی جاتی ہے کہ امام جماعت کرا رہا ہے اور یہ شخص جدا جماعت سے سنت پڑھ رہا ہے، جیسا کہ ہدایہ اور فتح القدر حاشیہ ہدایہ اور در مختار اور فتاویٰ و لواجیہ اور فتاویٰ عالمگیری اور محیط رضوی وغیرہ سے سمجھا جاتا ہے اور ہدایہ فقہ حنفی میں بہت معتبر کتاب ہے اور فتح القدیر بھی بہت معتبر ہے چنانچہ علمائے حنفیہ پر مخفی نہیں اور قریب صف کے پڑھنے میں اشد کراہت ہے، جیسا کہ عملدار آمد جہلا کا ہے، ایسا ہی فتح القدیر میں مذکور ہے اور دلیل کراہت کی بموجب حدیث کے ہے۔ بیان حدیث کا آگے آوے گا۔ عبارت ہدایہ کی یہ ہے۔ و من انتہی الی الامام فی صلوة الفجر و ھو لم یصل رکعتی الفجر ان خشی ان تفوته رکعة و یدرک الاخری یصلی رکعتی الفجر عند باب المسجد ثم یدخل و ان خشی فوتھما دخل مع الامام لان ثواب الجماعة اعظم و الوعید بالترک الزم و التقیید بالاداء عند باب المسجد یدل علی الکراھة فی المجسد اذا کان الام فی الصلوة جو شخص مسجد میں آیا اور امام جماعت کرا رہا ہے اور اس شخص نے سنت فجر کی نہیں پڑھی تھی، پس اگر خوف ہو، کہ ایک رکعت جاتی رہے گی اور دوسری رکعت ہاتھ آوے گی، تو سنت فجر کی نزدیک دروازہ مسجد کے اگر جگہ ملے تو ادا کر کے جماعت میں مل جاوے اور جو خوف ہو کہ سنت پڑھنے میں دو رکعتیں فرض کی جماعت سے فوت ہو جاویں گی، تو جماعت میں مل جاوے اور سنت کو اس وقت چھوڑ دے، اس لیے کہ ثواب جماعت کا بہت بڑا ہے اور اس کے ترک میں سخت وعید لازم آتی ہے اور قید ادا سنت کی نزدیک دروازہ مسجد کے دلالت کرتی ہے اوپر کراہت پڑھنے سنت کےمسجد میں جس وقت کہ امام جماعت کراتا ہو، ترجمہ ہدایہ کا تمام ہوا اور ایسا ہی فتح القدیر اور در مختار وغیرہ کا مطلب ہے۔ اور مراد نزدیک دروازہ مسجد سے خارج مسجد ہے، یعنی خارج مسجد میں قریب دروازہ کے مسجد کوئی جگہ اگر ہو، تو وہاں سنت ادا کر کے جماعت میں شامل ہو جاوے اور جو کوئی جگہ نہ ہو، تو جماعت فرض میں مل جاوے، اور سنت مسجد میں نہ پڑھے کہ سنت مسجد کے اندر ادا کرنے میں کراہت لازم آوے گی۔ کیوں کہ ترک مکروہ کا مقدم ہے ادائے سنت پر، جیسا کہ فتح القدیر اور در مختار وغیرہ سے صاف معلوم ہوتا ہے۔ قوله و التقیید بالاداء عند باب المسجد یدل علی الکراھة فی المسجد اذا کان الامام فی الصلٰوة و السلام اذا اقیمت الصلوة فلا صلٰوة الا المکتوبة و لانه یشبه المخالفة للجماعة و الانتباذ عنھم فینبغی ان لا یصلی فی المسجد اذا لم یکن عند باب المسجد مکان لان ترک المکروہ مقدم علی فعل السنة غیر ان الکراھة تتفاوت فان کان الامام فی الصیفی فصلٰوته ایھا فی الشتوی ٓٓاخف من صلوتھا فی الصیفی و عکسه اشد ما یکون کراھته ان یصلیھا مخالطا للصف کما یفعله کثیر من الجھلة انتھٰی ما فی فتح القدیر۔ و اذا خاف فوت رکعتی الفجر لاشتغاله بسنتھا ترکھا لکون الجماعة اکمل و ابان رجا ادراک رکعة فی ظاھر المذھب و قیل التشھد و اعتمدہ المصنف و الشرنبلا لی تبعا للبحر لکن ضعفه فی النھر لا یترکھا بل یصلیھا عند باب المسجد ان وجد مکانا و الا ترکھا لان ترک المکروہ مقدم علی فعل السنة کذا فی الدر المختار قوله عند باب المسجد ای خارج المسجد کما صرح به القھستانی کذا فی الشامی یصلی رکعتی الفجر عند باب المسجد ثم یدخل کذا فی العالمگیریة و ذکر الولوالجی امام یصلی الفجر فی المسجد الخارج المشائخ فیه قال بعضھم لا یکرہ و قال بعضھم یکرہ لان ذلک کله کمکان واحد بدلیل جواز الاقتداء لمن کان فی المسجد الخارج بمن کان فی المسجد الاخل و اذا اختلف المشائخ فالاحتیاط ان لایفعل انتہٰی ما فی البحر الرائق۔
ترجمہ: اور مسجد کے دروازے کے پاس سنتیں ادا کرنے کی قید دلالت کرتی ہے کہ مسجدیں ان کا ادا کرنا مکر وہ ہے جب کہ امام نماز پڑھ رہا ہو، کیوں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، جب جماعت کھڑی ہو جائے تو فرضوں کے علاوہ اور کوئی جماعت نہیں ہوتی، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے، کہ یہ آدمی جماعت سے علیحدہ ہے اور اگر مسجد کے دروازہ کے پاس کوئی جگہ نہ ہو تو پھر سنت نہ پڑھے، کیوں کہ مکروہ کا ترک سنت کے فعل قر مقدم ہے اور کراہت کے درجات متفاوت ہیں، مثلا اگر کوئی آدمی جماعت کی صف کے پیچھے آکرسنت کے فعل پر مقدم ہے اور کراہت کے درجات متفاوت ہیں، مثلا اگر کوئی آدمی جماعت کی صف کے پیچھے آکر سنت ادا کرنے لگے تو اس کی کراہت بہت زیادہ ہوگی۔ جیسا کہ آج کل بعض جاہل لوگ کرتے ہیں۔ اگر سنت پڑھتے فرض جماعت کے فوت ہو جانے کا خطرہ ہو تو سنت نہ پڑھے اور اگر آخری رکعت مل جانے کی توقع ہو اور بعض کے نزدیک آخری تشہد کی توقع ہو، تو مسجد کے دروازہ پر یعنی مسجد کے باہر سنت ادا کرے، اگر آخری رکعت کی بھی توقع نہ ہو، تو سنت نہ پڑھے یا اگر مسجد کے باہر کوئی جگہ نہ ہو تو بھی سنت نہ پڑھے کیوں کہ مکر وہ کا ترک سنت کے فعل پر مقدم ہے۔ درمختار، قہستانی، شامی عالمگیری میں ایسا ہی ہے۔ بحرا لرائق میں ہے، امام صبح کی نماز مسجد کے اندر پڑھا رہا ہو، ایک آدمی مسجد کے باہر آکر سنت پڑھنے لگے، تو مشائخ کا اس میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک مکروہ نہیں اور بعض کے نزدیک مکروہ ہے۔ اس لئے کہ اور دلیل کراہت کی سنت فجر کے پڑھنے میں وقت قائم ہونے جماعت کے نزدیک صاحب ہدایہ کے اور صاحب فتح القدیر وغیرہ کے یہ حدیث ہے۔ اذا اقیمت الصلٰوۃ فلا صلٰوۃ الا المکتوبۃ ہ ترجمہ جب قائم ہو جائے نماز یعنی جب مؤذن اقامت شروع کرے، تو اس وقت نماز پڑھنی درست نہیں سوائے فرض کے، جیسا کہ نقل کیا، اس حدیث کو مسلم اور ترمذی اور ابو دائود اور نسائی اور احمد بن حنبل اور ابن حبان نے اور بخاری ترجمہ باب میں اس حدیث کو لائے ہیں اور ابن عدی محدث نے ساتھ سند حسن کے آگے اس کے یہ نقل کیا ہے۔ اے رسول خدا کے اور نہ دو رکعت سنت فجر کی، یعنی کسی نے پوچھا، کہ اقامت کے وقت سنت فجر کی بھی نہ پڑھے، فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جب اقامت ہونے لگے، تو سنتِ فجر کی بھی نہ پڑھے، اور موطا امام مالک میں اس طرح پر روایت ہے، کہ چند شخص مؤذن کی اقامت سُن کر دو رکعت سنتیں فجر کی مسجد میں پڑھنے لگے، پس گھر سے مسجد میں تشریف لائے، رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم، پھر فرمایا، کیا دو نماز سنت اور فرض اکٹھے ایک وقت خاص میں، کیا دو نماز سنت و فرض اکٹھے ایک وقت مخاص میں یعنی ازراہ انکار و توبیخ و سرزنش کے یہ فرمایا کیا دو نماز سنت و فرض اکٹھے پڑھتے ہو تم لوگ بعد اقامت کے، جیسا کہ محلی شرح مؤطا میں نقل کی ہے۔
اور دوسری حدیث انکار سنت فجر کی پڑھنے میں وقت قائم ہونے جماعت کے یہ ہے ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم رأی رجلا و قد اقیمت الصلٰوة یصلی رکعتین فلما انصرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لاث به الناس فقال له رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم اتصلی الصبح اربعا رواہ البخاری عن عبد اللہ بن بحینة

  ترجمہ مقرر دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو کہ سنت فجر کی پڑھ رہا ہے، وقت قائم ہونے جماعت کے پھر جب فارغ ہوئے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نماز فرض سے تو گرد ہوئے لوگ اس کے ساتھ، پس رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے توبیخ اور انکار فرمایا، کہ کیا چاررکعت صبح کی تو پڑھتا ہے۔ اس کو روایت کیا امام بخاری نے عبد اللہ بن بحینہ صحابی سے، اور صحیح مسلم وغیرہ میں عبد اللہ بن بحینہ سے یوں روایت ہے قال اقیمت صلٰوة الصبح فراٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رجلا یصلی و المؤذن یقیم فقال اتصلی الصبح اربعا۔  

ترجمہ کہا عبد اللہ بن بحینۃ نے اقامت ہوئی نماز صبح کی، پھر دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو، کہ سنت فجر کی پڑھنے لگا، اور مؤذن تکبیر کہہ رہا ہے۔ پس فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازراہ انکار کے کیا پڑھتا ہے تو چار رکعت صبح کی۔
اور صحیح مسلم اور ابودائود اور نسائی اور ابن ماجہ میں عبد اللہ بن سرجس صحابی سے یوں روایت ہے قال دخل رجل المسجد و رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فی صلٰوة الغداة فصلی رکعتین فی جانب المسجد ثم دخل مع رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فلما سلم رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال یا فلان بای الصلاتین اعتددت ابصلاتک وحدک ام بصلوتک معنا۔ کہا عبد اللہ بن سرجس صحابی نے کہ داخل ہوا، ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیچ نماز صبح کے تھے۔ یعنی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز صبح میں امامت کرا رہے تھے، پھر اس شخص نے دو رکعت سنت فجر کی بیچ ایک جانب مسجد کے پڑھی، پھر داخل ہوا وہ جماعت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھر جب سلام پھیرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے فلانے ان دونوں نمازوں میں سے کونسی نماز کو فرض میں شمار کیا تو نے آیا جو نماز تنہا پڑھی تو نے اس کو فرض ٹھہرایا یا جو نماز ہمارے ساتھ پڑھی تو نے اس کو فرض شمار کیا یعنی آڈ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سرزنش اور انکار کی راہ سے یہ بات فرمائی اس کو پس اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ سنت کا پڑھنا وقت قائم ہونے جماعت کے مکروہ اور ممنوع ہے اور ایک روایت عبد اللہ بن بحینہ سے صحیح مسلم اور ابن ماجہ  میں اس طرح سے ہے۔ ان رسول اللہ مر برجل یصلی و قد اقیمت صلٰوة الصبح فکلمه بشئ لاندری ما ھو فلما انصرفنا احطنا به نقول مذا قال لک رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال قال لی یوشک ان یصلی احدکم الصبح اربعا ترجمہ مقرر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرد کے پاس سے گزرے کہ وہ پڑھتا تھا سنتیں فجر کی اس حال میں کہ جماعت نماز صبح کی قائم ہوئی تھی پھر کلام کیا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرد سے کہ ہم نے نہیں معلوم کیا کہ کیا فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آہستہ اسے پھر جب ہم لوگ نماز جماعت سے فارغ ہوئے تو گرد ہوئے اس مرد کے اور کہا ہم نے کیا فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھ کو کہا اس مرد نے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قریب ہے کہ پڑھے گا ایک تمہارا فرض صبح کی چار رکعت یعنی سنت کا وقت قائم ہونے جماعت کے برابر فرض کے ٹھہراتا ہے آخر سنت کو ہوتے ہوتے بمنزلہ فرض کے اعتقاد کرو گے تو اس طرح کا اعتقاد سنت کو درجہ فرض کے پہنچا دے گا سنت اور فرض میں امتیاز نہ رہے گا اور ایسا اعتقاد خلاف مرضی میری ہو گا اور جو اعتقاد کسی کا خلاف میری مرضی کے ہو گا وہ مردود اور بدعت اور ضلالت ہے۔ ۱؎ اذا اقیمت الصلٰوة فلا صلوة الا المکتوبة حدیث مرفوع اخرجه مسلم و الاربعة عن ابی ھریرة و اخرجه ابن حبان بلفظ اذا اخذ لامؤذن فی الاقامة و احمد بلفظ فلا صلٰوة الا التی اقیمت و ھو اخص و زاد ابن عدی بسند حسن قیل یا رسول اللہ ولا رکعتی الفجر قال و لا رکعتی الفجر تورپشتی و ھکذا فی القسطلانی مالک عن شریک بن عبد اللہ بن ابی نمر انه سمع قوم الاقامة فقاموا یصلون ای التطوع فخرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال اصلوتان ای السنة و الفرض معا ای موصلا فی وقت و احدا صلوتان معا و ذلک فی صلوة الصبح فی الرکعتین اللتین قبل الصبح اعلم انه قد اختلف فی اداء سنة الفجر عند القامة فکرھة الشافعی و احمدؒ عملا بتلک الاحادیث و قالت المالکیة لا یبتدء الصلوة بعد الاقامة لا فرضا و لا نفلا لحدیث اذا اقیمت الصلٰوة فلا صلٰوة الا المکتوبة و اذا اقیمت و ھو فی الصلٰوة قطع ان خشی فوت رکعة و الا لا اثم و استدل بعموم الحدیث من قال بقطع النافلة اذا اقیمت الفریضة و به قال ابو حامد و غیرہ و رخص اٰخرون النھی بمن ینشاء النافلة عملاً بقوله و لا تبطلوا اعمالکم ثم زاد مسلم بن خالد عن عمرو بن دینار فی قوله صلی اللہ علیه وسلم اذا اقیمت الصلٰوة فلا صلٰوة الا المکتوبة قیل یا رسول اللہ و لا رکعتی الفجر قال و لا رکٓٓعتی الفجر اخرجه ابن عدی و سندہ حسن واما زیادة الا رکعتی الصبح فی الحدیث فقال البیہقی ھذہ الزیادة لا اصل لھا کذا فی المحلی عن ابی ھریرة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم اذا اقیمت الصلٰوة فلا صلوة الا المکتوبة و فی الباب عن ابن بحینة و عبد اللہ بن عمرو و عبد اللہ بن سرجس و ابن عباسؓ قال ابو عیسیٰ حدیث ابی ھریرة حدیث حسن و کذا روی ایوب و ورقاء ابن عمرو زیاد بن سعد و اسماعیل بن مسلم و محمد بن حجازة عن عمرو بن دینار عن عطاء بن یسار عن ابی ھریرة عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم و روی حماد بن زید و سفیان بن عیینة عن عمرو بن دینار و لم یرفعاہ و الحدیث المرفوع اصح عندنا و قد روی ھذا الحدیث عن ابی ھریرة عن النبی صلی اللہ علیه وسلم من غیر ھذا الوجه رواہ عیاش بن عباس القتبانی المصری عن ابی سلمة عن ابی ھریرة عن النبی صلی اللہ علیه وسلم و العمل علی ھذا عند اھل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم و غیر ھم اذا اقیمت الصلٰوة ان لا یصلی الرجل الا المکتوبة و به یقول سفیان الثوری رحمه اللہ علیه و ابن المبارک و الشافعی و احمد و اسحاق انتھٰی ما فی الترمذی عن عطاء بن یسار عن ابی ھریرة عن النبی صلی اللہ علیه وسلم قال اذا اقیمت الصلٰوة فلا صلٰوةۃٓ الا المکتوبةو حدثني محمد بن حاتم و ابن رافع قال حدثنا ٓٓشبابة قال حدثنی ورقاء بھذا الاسناد و حدثنی یحیی بن حبیب الحارثی قال حدثنا روح قال حدثنا زکریا بن اسحاق قال حدثنا عمرو بن دینار قال سمعت عطاء بن یسار یقول عن ابی ھریرة عن النبی صلی اللہ علیه وسلم انه قال اذا اقیمت الصلٰوة فلا صلٰوة الا المکتوبة حدثناہ عبد ابن حمید قال حدثنا عبد الرزاق قال اخبرنا زکریا بن اسحاق بھذا الاسناد مثله و حدثنا حسن الحلوانی قال حدثنا یزید بن ھٰرون قال اخبرنا حماد بن زید عن ایوب عن عمرو بن دینار عن عطاء بن یسار عن ابی ھریرے عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم بمثله قال حماد ثم لقیت عمروا فحدثنی به و لم یرفعه کذا فی صحیح مسلم مختصرا قوله قال حماد ثم لقیت عمروا فحدثنی به و لم یرفعه ھذا الکلام لا یقدح فی صحة الحدیث و رفعه لان اکثر الرواة رفعوہ و قال الترمذی و روایة الرفع اصلح و قد قدمنا فی الفصول السابقة فی مقدمة الکتاب ان الرفع مقدم علی الوقف علی المذھب الصحیح و ان کان عدد الرفع اقل فکیف اذا کان اکثر انتھٰی ما قال النووی فی شرح مسلم و ھکذا فی تدریب الراوی
ترجمہ: جب نماز کھڑی ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ اور کوئی نماز نہیں ہوتی یہ مرفوع حدیث ہے دوسرے لفظ یہ ہیں کہ جب مؤذن اقامت شروع کر دے تو وہی نماز ہو گی جس کی اقامت ہو گی رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کیا صبح کی سنتیں بھی نہ پڑھی جائیں آپ نے فرمایا صبح کی سنتیں بھی نہ پڑھی جائیں اقامت ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ سنتیں پڑھ رہے تھے تو آپ نے فرمایا کیا دو نمازیں اکٹھی پڑھتے ہو؟ اور یہ صبح کی نماز کا وقت تھا۔ اقامت کے وقت فجر کی سنت ادا کرنے میں اختلاف ہے۔ امام شافعیؒ اور احمدؒ اس کو ناجائز کہتے ہیں۔ مالکی کہتے ہیں کہ اقامت ہو جانے کے بعد کوئی نماز شروع نہ کرے خواہ فرض ہو یا نفل اگر پہلے سے نماز شروع کر رکھی ہے ہو اور اقامت بعد میں ہو تو اگر رکعت کے ضائع ہونے کا خطرہ ہو تو نماز توڑ دے اور اگررکعت مل جانے کی امید ہو، تو نماز پوری کرے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اپنے عملوں کو ضائع نہ کیا کرو، باقی رہا الارکعتی الفجر (مگر صبح کی دو سنتیں) کا استثنا امام بیہقی نے کہا یہ زیادت صحیح نہیں ہے۔ محلی میں بھی یہی ہے۔ ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب نماز کھڑی ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ اور کوئی نماز نہیں ہوتی۔ اس مضمون کی حدیثیں ابن بحینہ ابن عمرو، ابن سرجس، ابن عباس اور انس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے امام ترمذی نے کہا ابو ہریرۃ کی حدیث حسن ہے۔ اس حدیث کو کئی راویوں نے مرفوعاً بیان کیا ہے۔ اور کچھ لوگوں نے موقوفاً۔ سفیان ثوری۔ ابن مبارک، شافعی۔ احمد۔ اسحق سب کا یہی مذہب ہے کہ فرض کے شروع ہو جانے کے بعد کوئی اورنماز نہیں ہوتی۔ امام ترمذی نے کہا مرفوع روایت صحیح ہے اور ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ صحیح مذہب پر رفع وقف سے مقدم ہوتا ہے۔ اگرچہ رفع کی روایات کم ہوں اور اگر رفع کی روایات وقف سے زیادہ ہوں تو پھر کوئی اعتراض ہی نہیں ہوسکتا۔
اور معلوم ہوا کہ جو ابراہیم حلبی شارح منیۃ المصلی شاگرد ابن الہمام وغیرہ نے طحاوی وغیرہ سے نقل کیا ہے کہ عبد اللہ بن مسعودؓ اور ابو الدرداؓ صحابیوں میں سے اور مسروق و حسن بصری و ابن زبیر وغیرہ تابعین میں سے بعد قائم ہو جانے جماعت کے سنت فجر کی گوشتہ مسجد میں پڑھ کر جماعت میں شامل ہوئے سو اس نقل سے سنت کا پڑھنا مسجد میں بعد اقامت صلٰوۃ کے جائز معلوم ہوتا ہے۔ پس یہ نقل صاحب ہدایہ اور صاحب فتح القدیر و در مختار وغیرہ کی تقریر اور تحریر سے صحیح اور ثابت نہیں ہوتی کیوں کہ جو ثابت ہوتی تو صاحب ہدایہ و فتح القدیر کہ محقق مذہب حنفی کے ہیں ضرور نقل کرتے اس کو حالاں کہ اس کو نقل نہیں کیا بلکہ خلاف اس کے لحاظ حدیث اذا اقیمت الصلوة فلا صلوة الا المکتوبة کے سنت فجر کی مسجد میں پڑھنے کو مکروہ لکھا ہے، چنانچہ بخوبی پہلے مذکور ہو چکا تو اس سے معلوم ہوا کہ قول طحاوی وغیرہ کا جو ابراہیم حلبی مذکور نے نقل کیا ہے نزدیک صاحبِ ہدایہ اور صاحب فتح القدیر وغیرہ کے پایہ اعتبار سے ساقط ہے ورنہ وہ ضرور نقل کرتے اور نیز فعل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مخالف فعل عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ کے منقول ہے یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا کہ ایک شخص سنت فجر کی پڑھ رہا ہے وقت قائم ہونے جماعت کے تو اس کو مارا اور تعزیر دی اور عبد اللہ بن عمر نے دیکھاایک شخص کو کہ وقت اقامت مؤذن کے سنت فجر کی پڑھنے لگا تو اس کو کنکر مارا جیسا کہ بیہقی نے نقل کیا اور محلی شرح موطا میں مذکور ہے اور اگر بالفرض عبد اللہ بن مسعودؓ وغیرہ نے سنت فجر کی پڑھی ہو تو جواب اس کا یہ ہے کہ عبد اللہ ابن مسعودؓ وغیرہ کو حدیث نہی کی نہیں پہنچی اور حدیث نہی کے نہ پہنچنے میں کچھ تعجب نہیں کیوں کہ مخفی رہا عبد اللہ پر ہاتھ کا گھٹنوں پر رکھنا رکوع میں اور وہ ہمیشہ دونوں ہاتھ ملا کر رانوں میں رکھتے تھے موافق پہلے دستور کے اور مخالفت کی عبد اللہ بن مسعود نے سب صحابہ سے اس مسئلہ میں چنانچہ صحاح میں مذکور ہے حالاں کہ رکھنا دونوں ہاتھوں کا ملا کر رانوں میں منسوخ ہو چکامگر عبد اللہ بن مسعود کو نسخ کی حدیث نہیں پہنچی حالانکہ رکوع میں ہاتھ رکھنا گھٹنوں پر ہر وقت کا مدام معمول ہے ہر نماز میں اور یہ فعل ایسا مشہور عبد اللہ بن مسعود پر مخفی رہا پس اسی طرح حدیث نہی سنت فجر کے پڑھنے میں بیچ مسجد کے وقت قائم ہونے جماعت کے عبد اللہ بن مسعود اور ابو الدرداء کو نہ پہنچی اوفر اسی طرح عبد اللہ بن مسعودؓ اور ابو الدرداء بجائے قرأت و ما خلق الذکر و الانثی کے والذکر و الانثی پڑھتے تھے حالاں کہ و ما خلق الذکر قرأتِ متواترہ جمہور صحابہ کے نزدیک ہے۔ اور یہی قرأت متواتر تمام قرآن مجید میں اور مصحف عمانی میں اسی طرح سے مذکور ہے اور عبد اللہ بن مسعود اور ابو الدرداء کو یہ قرأت متواترہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ پہنچی جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم وغیرہ میں یہ قصہ مذکور ہے پس بسبب لا علمی اس حدیث نہی کے عبد اللہ بن مسعود اور ابو الدرداء نے سنت فجر کی کبھی مسجد میں بروقت قائم ہو جانے جماعت کے اگر پڑھی ہو تو معذور رہیں گے اور ہم پر ان کا پڑھنا بمقابلہ حدیث صحیح کے کہ چھ سات صحابی سے منقول ہے حجت نہیں ہو سکتا بموجب اس آیت کریمہ کے و ما اٰتکم الرسول فخذوہ و ما نھکم عنه فانتھوا ترجمہ جو چیز دی تم کو رسولؐ نے پس لے لو اس کو اور عمل کرو اس پر اور جس چیز سے منع کیا تم کو پس باز رہو اس سے اور نہ کرو اس کو پس قول و فعل اور تقریر رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی واجب الاتباع ہے امت پر

ترجمہ: حضرت عمرؓ جب کسی آدمی کو اقامت ہو جانے کے بعد نماز میں مشغول پاتے تو اس کو مارتے۔ عبد اللہ بن عمر نے ایک آدمی کو اقامت کے بعد سنتیں پڑھتے دیکھا تو کنکریاں ماریں۔ اور بعض عالم حنفی جواب میں حدیث نہی کے یوں تقریر کرتے ہیں کہ اس شخص نے کنارہ مسجد کے یا اوٹ کے میں نہیں پڑھی تھی اس واسطے انکار اور زجر فرمایا اور اگر دور یا اوٹ میں پڑھتا تو مضائقہ نہیں تھا۔ تو حدیث صحیح مسلم کی ان کے قول کو رد کرتی ہے جیسا کہ محلی میں موجود ہے: ۲؎ و من الحنفیة من قال انما انکر النبی صلی اللہ علیه وسلم و قال الصبح اربعا لانہ علم انه صلی الفرض او لان الرجل صلیھا فیا لمسجد بلا حائل فشوش علی المصلین و یرد الاحتمال الاول قولہصلی اللہ علیه وسلم کما فی الکتاب ا صلوتان معا و ما للطبرانی عن ابی موسیٰ انه صلی اللہ علیه وسلم رأی رجلا یصلی رکعتی الغداة و المؤذن یقیم فاخذ منکبیه و قال الا کان ھذا قبل ھذا و یرد الثانی ما فی مسلم عن ابن سرجس دخل رجل المسجد و ھو صلی اللہ علیه وسلم فی صلوة الغداة فصلی رکعتین فی جانب المسجد ثم دخل مع النبی صلی اللہ علیه وسلم فلما سلم النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قال یا فلان بای الصلوتین اعتددت ابصلوتک و حدک ام بصلوتک معنا انتھٰی فانه یدل علی ان اداء الرجل کانت فی جانب لا مخالطا للصف و فی المحیط الرضوی اختلفوا فی الکراھته فیما اذا صلی فی المسجد الخارج و الامام فی الداخل فقیل لا یکرہ و قیل یکرہ لان ذلک کله کم کان واحد فاذا اختلف المشائخ فیه کان الاخری ان لا یصلی کذا فی المحلی، پس احادیث مذکور بالا سے صاف واضح ہوتا ہے کہ سنت فجر کی بعد کھڑے ہو جائے جماعت فرض کے مطلقاً نہ پڑھے نہ مسجد میں اور نہ خارج میں اور یہی مذہب ہے سارے اہل علم اور سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ ؒ اور ابن مبارک اور احمد شافعی اور اسحاق کا ہے جیسا کہ ترمذی سے واضح ہے، اور مالکی مذہب سے بھی ایسا ہی سمجھا جاتا ہے جیسا کہ محلی شرح موطا سے معلوم ہوتا ہے اور ہدایہ و فتح القدیر و در مختار سے پہلے مذکور ہو چکا ہے کہ وقت اقامت کے مسجد میں سنت پڑھنی مکروہ ہے اور خارج مسجد میں پڑھنی درست ہے بشرطیکہ دونوں رکعت فرض کی فوت نہ ہو جاویں لیکن مضمون حدی سے مطلق معلوم ہوتا ہے نہ پڑھنا سنت کا خواہ مسجد میں ہوخواہ خارج مسجد کے ہو وقت قائم ہونے جماعت کے فیه دلیل علی انه لا یصلی بعد الاقامة نافلة و ان کان یدرک الصلٰوة مع الامام ورد علی من قال ان علم انه یدرک الرکعة الاولی او الثانیة یصلی النافلة انتھٰی۔ ما قال النووی فی شرح مسلم اور نہ پڑھنے سنت میں وقت قائم ہونے جماعت کے یہ حکمت ہے کہ دل جمعی سے ابتدا جماعت فرض میں مل جاوے اور ثواب تکبیر اولیٰ اور تکمیل فرض کی حاصل ہو اور صورت اختلاف کی نہ ظاہر ہووے پس محافظت فرض کی اوپر وجہ کمال کے مقتدی کو ضرور ہے ۱؎ ان الحکمة فیه ان یتفرغلل فریضة من الوھا فیشرع فیھا عقیب شروع الامام و اذاا اشتغل بنافلة الاحرام وفتاته بعض مکملات الفریضة فالفریضة الویٰ بالمحافظة علی اکمالھا قال القاضی و فیه حکمة اخری و ھو النھی عن الا ختلاف علی الائمة کذا قال الامام النووی فی شرح مسلم
ترجمہ: اس میں حکمت یہ ہے کہ وہ فرضوں کے لیے فارغ ہو جائے گا جب امام نماز شروع کرے گا تو وہ بھی شروع کرے گا اور اگرر نفل میں مشغول ہو گیا تو اس سے تکبیر تحریمہ اور بعض حصہ فرائض کا بھی فوت ہو جائے گا۔ تو فرائض کی محافظت ضروری ہے۔ قاضی عیاض نے کہا اس میں یہ حکمت بھی ہے۔ کہ ائمہ کی مخالفت سے ممانعت معلوم ہوتی ہے۔
اب آگے باقی رہا کلام اس میں کہ سنت فجر کی بعد طلوع آفتاب کے پڑھے پس عبد اللہ بن عمرؓ سے دونوں طرح منقول ہے خواہ بعد طلوع آفتاب کے یا قبل طلوع کے مالک انه بلغه ان عبد اللہ بن عمرؓ فاته رکعتا الفجر فقضا ھما بعد ان طلعت الشمس کذا فی موطا امام مالک و ھکذا اسندہ ابن ابی شیبة عن نافع عن ابی عمر جاء الی القوم و ھم فی الصلٰوۃ و لم یکن صلی الرکعتین فدخل معھم ثم جلس فی مصلاه فلم اضحٰی قام فصلاھما وله من طریق عطیة قال رأیت ابن عمرؓ قضاھما حین سلم الامام محلی
ترجمہ:امام مالک کو خبر پہنچی کہ عبد اللہ بن عمر کی صبح کی سنتیں رہ گئی تھی۔ ان کی قضا آپ نے سورج نکلنے کے بعد کی۔ ایک دفعہ عبد اللہ بن عمرؓ مسجد میں آئے لوگ نماز پڑھ رہے تھے انہوں نے سنتیں نہیں پڑھی تھیں آپ ان کے ساتھ شامل ہو گئے پھر اپنی نماز کی جگہ بیٹھے رہے جب ضٓٓحٰی کا وقت ہوا تو اٹھے اور ان کی قضا دی۔ عبد اللہ بن عمر نے ایک دفعہ صصبح کی سنتوں کی قضا امام کے سلام پھیرنے کے بعد دی۔
اور نیز حدیث مرفوع آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے در باب قضاء سنت بعد طلوع آفتاب کے ابی ہریرۃؓ سے ترمذی میں موجود ہے۔ اور کہا ترمذی نے اور اس پر عمل ہے اہل علم کا اور یہی قول سفیان ثوری اور شافعیؒ اور احمد و ابن المبارک و اسحاق کا ہے۔ عن ابی ھریرۃ مرفوعاً من لم یصل رکعتی الفجر فلیصلھما بعد ما تطلع الشمس قال الترمذی و العمل علی ھذا عند اھل العلم و به یقول الثوری و الشافعی و احمد و ابن المبارک و اسحاق انتھٰی ما فی الترمذی اور ابوداؤد اور ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ سے بعد فرض قبل طلوع آفتاب کے بھی پڑھنا سنت فجر کا واضح ہوتا ہے۔ کہ قیس بن عمروؓ صحابی وقت اقامت جماعت کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جماعت میں شامل ہوئے اور بعد ادائے فرض کے سنت فجر کی جلدی سے پڑھنے لگے اتنے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم جماعت سے فارغ ہوئے اور پایا قیس کو سنت پڑھتے ہوئے تو فرمایا اے قیس ٹھہر جا آیا دو نماز اکٹھی پڑھتا ہے تو قیس نے کہا اے رسول خدا کے میں نے سنت فجر کی پہلے نہیں پڑھی تھی سو میں نے یہ دورکعت سنت فجر کی پڑھی۔ پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پس نہیں مضائقہ اس وقت یعنی جب کہ پہلے تو نے سنت فجر کی نہیں پڑھی تھی اور بعد ادائے فرض کے تو نے پڑھی تو اس کے پڑھنے کا مضائقہ نہیں، تو اس کلام سے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے صاف اور واضح ہوا کہ بعد فرض صبح کے سنت فجر کی پڑھنا روا ہے اور نفل پڑھنا مکروہ ہے جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے تو حدیث نہی سے سنت فجر کی مستثنیٰ اور خارج ہوئی اور نہی اس پر وارد نہیں ہوتی کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قیس کے سنت پڑھنے پر خاموش رہے اور ایک روایت میں یوں فرمایا کیا مضائقہ اور ایک روایت میں مسکرائے اور اسی واسطے جماعت علماء مکہ معظمہ کی حدیث قیس پر عمل کرنے کو روا رکھتی ہے۔ پس جو شخص بعد اداء فرض کے سنت فجر کی پڑھنے کو شدت سے منع کرتے ہیں تو قول انکا بموجب حدیث قیس کے مقبول نہ ہو گا کیوں کہ اس میں وسعت پائی گئی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نذہایت کا اس حدیث کو مرسل کہیں گے اور حدیث مرسل حنفی مذہب اور مالکی مذہب میں حجت ہے جیسا کہ نور الانوار اور توضیح وغیرہ میں مذکور ہے۔ باب من فاتته متی یقضیھا حدثنا عثمان بن ابی شیبة نا ابن نمیر عن سعد بن سعید حدثنی محمد بن ابراہیم عن قیس بن عمرو قال رأی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رجلا یصلی بعد صلٰوة الصبح رکعتان فقال الرجل انی لم اکن صلیت الرکعتین اللتین قبلھا فصلیتھما لآن فسکت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم حدثنا حامد بن یحییٰ البلخی قال قال سفیان کان عطاء بن ابی رباح یحدث بھذا الحدیث عن سعد بن سعید قال ابو داؤد روی عبد ربه و یحییٰ ابنا سعید ھذا الحدیث مرسلا ان جدھم زید اصلی مع النبی صلی اللہ علیه وسلم انتھٰی ما فی ابی داؤد باب۔ ما جاء فیمن تفوته الرکعتان قبل الفجر یصلیھما بعد صلٰوة الصبح حدثنا محمد بن عمرو السواق حدثنا عبد العزیز بن محمد عن سعد بن سعید عن محمد بن ابراہیم عن جدہ قیس قال خرج رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فاقیمت الصلٰوة فصلیت معه الصبح ثم انصرف النبی صلی اللہ وفجدنی اصلی فقال مھلا یا قیس اصلوتان معا قلت یا رسول اللہ انی لم اکن رکعت رکعتی الفجر قال فلا اذا قال ابو عیسیٰ حدیث محمد بن ابراہیم لا نعرفه مثل ھذا الا من حدیث سعد بن سعید و قال سفیان بن عیینة سمع عطاء بن ابی رباح من سعد بن سعید ھذا الحدیث و انما یروی ھذا الحدیث مرسلا و قد قال من اھل مکة بھذا الحدیث لم یروا باس ان یصلی الرجل الرکعتین بعد المکتوبة قبل ان تطلع الشمس قال ابو عیسیٰٓ و سعد بن سعید ھو اخو یحییٰ بن سعید الانصاری و قیس ھو جد یحییٰ بن سعید و یقال ھو قیس بن عمرو و یقال ھو قیس بن فھد و اسناد ھذا الحدیث لیس بمتصل محمد بن ابراہیم التیمی لم یسمع من قیس و روی بعضھم ھذا الحدیث عن سعد بن سعید عن محمد بن ابراہیم ان النبی صلی اللہ علیه وسلم خرج فرأی قیسا انتھٰی ما فی الترمذی ھکذا رواہ ابن ماجة فقط اور سنت فجر کی قضا نذہیں ہے نزدیک امام ابو حنیفہؒ کے اور ابو یوسفؒ کے اور نزدیک امام محمدؒ کے تاز دال قضا کرے اور بعضے کہتے ہیں کہ جو قضا کرے گا تو نفل ہوں گے نزدیک شیخین کے اور محسوب سنت ہوں گے نزدیک امام محمدؒ کے قضا کرنا چھوڑنے سے بہتر ہے جیسا کہ پہلے معلوم ہو چکا و لا یضیھما ای سنت الفجر الا حال کونه تبعا للفرض قبل الزوال او بعدہ علی اختلاف المشائخ کما فی التمر تاشی و قیل یقضی بعدڈہ اجماعا و الکلام دال علی انھا اذا فاتت وحدھا لاتقضی و ھذا عندھما و اما عند محمد فیقضیھا الی الزوال استحسانا و قیل لا خلاف فیه فان عندہ لو لم یقض فلا شئ علیه و اما عندھما فلو قضی لکان حسنا و قیل الخلاف فی انه لو قضی کان نفلا عندھما سنته عندہ کما فی جامع الرموز و اللہ اعلم بالصواب

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3ص 55-67

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ