سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(147) کیا ایک مصلی پر دوبارہ جماعت مکروہ ہے

  • 2898
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 2738

سوال

 

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک مصلے پر دوبارہ جماعت کرنا مکروہ ہے یا نہیں اور جو لوگ کہ مکروہ بتاتے ہیں اور منع کرتے ہیں ان کی دلیل یہ حدیث ہے روی عبد الرحمن بن ابی بکر عن ابیه ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرج من بیته لیصلح بین النصار فرجع و قد صلی فی المسجد بجماعة فدخل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی مانزل بعض اھله فجمع فصلی بھم جماعة
ترجمہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار میں صلح کرانے کے لیے اپنے گھر سے نکلے واپس آئے تو مسجد میں جماعت ہو چکی تھی آپ اپنے کسی حجرہ میں چلے گئے اور اپنے گھر والوں کو اکھٹا کر کے ان کی جماعت کرائی۔
وہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر نہ مکروہ ہوتا تکرار جماعت کا تو اسی مسجد میں آں حضرت نماز پڑھتے، نہ پڑھنا حضرت کا خود دلالت کرتا ہے مکروہ ہونے تکرار جماعت پر۔ اب مستفتی سوال کرتا ہے کہ آیا یہ حدیث صحیح ہے یا نہیں اور مخرج اس کا کون ہے ہے اور در صورت صحت حدیث کے استدلال کراہت تکرار جماعت ایک مصلی پر ٹھیک ہے یا نہیں اور علمائے حنفیہ رحمہم اللہ کا اس میں کیا فتویٰ ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حقیقت مسئلہ کی یہ ہے کہ اگر جماعت اہل محلہ نے ہمراہ امام معین کے کرنی ہو تو اسی اہل محلہ کے باقی ماندہ کو اسی مسجد محلہ میں بہیئت اولیٰ تکرار جماعت مکروہ ہے یعنی مسجد محلہ میں ساتھ اذان اور تکبیر کے اسی مصلے پر جماعث ثانیہ اسی اہل محلہ کی مکروہ ہے اور اگر بغیر اذان کے یا بہ تبدیل مصلے جماعت ثانیہ اسی اہل محلہ نے کی تو بلا کراہت درست اور جائز ہے اور اگر غیر اہل محلہ نے اول جماعت ساتھ اذان اور اقامت کے کر لی تھی تو اہل محلہ کو ساتھ اذان اور جماعت ثانیہ جائز ہے۔ اور جو مسجد شارع عام ہو اس میں تکرار جماعت مطلقاً خواہ ساتھ اذان کے ہو یا بہ تبدیل مصلّٰی ہو یا نہ ہو ہر طرح درست ہے۔
۱؎ و یکره تکرار الجماعت باذان و اقامة فی مسجد محلة لا فی مسجد طریق او مسجد لا امام له و لا مؤذن درمختار قوله باذان و اقامة الخ عبارته فی خزائن اجمع مما ھنا و نصھا یکره تکرار الجماعة فی مسجد محلة اذان واقامة الا اذا صلی بھما فیه او لا غیر اھله لکن بمخافة الاذان و لو کرر اھله بدونھما او کان مسجد طریق جاز اجماعاً کما فی مسجد لیس له امام ولا مؤذن و یصلی الناس فیه فوجا فوجا فان الافضل ان یصلی کل فریق باذان و اقامة علیحدة کما فی امالی قاضی خان و نحوه فی الدر و المراد بمسجد المحلة ماله امام و جماعة معلومون کما فی الدر و غیرھا قال فی المنبع و التقیید بالمسجد المختص بالمحلة احتراز من الشارع و بالاذان الثانی احتراز عما اذا صلی فی مسجد المحلۃ جماعة بغیر اذان حیث یباح اجماعا انتھٰی ما فی الشامی
ترجمہ: محلہ کی مسجد میں اذان اور اقامت سے بار بار جماعت کرانا مکروہ ہے۔ اگر کسی راستہ پر مسجد ہو یا ایسی مسجد میں ہو کہ اس میں کوئی امام اور موذن مقرر نہ ہو تو اس میں تکرار جماعت اذان اور اقامت سے بھی مکروہ نہیں ہے بلکہ افضل ہے اگر محلہ کی مسجدمیں پہلے بغیر اذان کے جماعت ہوئی ہو تو دوسری جماعت اذان اور اقامت سے مکروہ نہیں ہے۔ اور محلہ کی مسجد وہ ہے جس کا امام اور مقتدی معلوم اشخاص ہوں۔
اور اسی طرح سے بدائع اور ظہیریہ اور عالمگیریہ اور شرح منیہ وغیرہم میں لکھا ہے کہ تبدل محراب اور مصلے میں ہیئت جماعۃ اولیٰ بدل جاتی ہے اور جماعۃ ثانیہ غیر مصلے اولی پر بلا کراہتہ ہو جاتی ہے ۲؎ و فی شرح المنیة عن ابی یوسف رحمة اللہ عیه ان اذا لم تکن الجماعة علی الھیئة الاولی لاتکره و الا تکره و ھو الصحیح و بالعدول عن المحراب تختلف الھیئة الاولی کذا فی البزازیة انتہی و فی التتارخانیة عن الولواجیة و بہ ناخذا انتہٰی ما فی الشامی
ترجمہ: امام یوسف کہتے ہیں کہ اگر دوسری جماعت پہلی ہیئت پر نہ ہو تو مکروہ نہیں ہے۔ ورنہ مکروہ ہے۔ اور اگر محراب کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ پر جماعت کھڑی ہو جائے۔ تو اس سے ہیئت بدل جاتی ہے۔
اور حدیث مندرجہ سوال کو شارحین کتب فقہ نے بلا اسناد اور بلا مخرج باختلاف الفاظ بیان کیا ہے۔ اور کتب صحاح میں صحیح سند اس کی کا پتہ نہیں لگتا، پس قطع نظر اس کے کہ صحت اور عدمِ صحت حدیث میں بحث کی جائے مطلب اس حدیث کا یہ نہیں ہے۔ کہ جماعت دوسری مسجد واحد میں مکروہ ہے بلکہ اس حدیث سے تاکید جماعت ثابت ہوتی ہے کیوں کہ جب حضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما ہوئے تو کوئی دوسرا نمازی نہیں پایا۔ اسی واسطے گھر میں جا کر ساتھ اہل اپنے کے نماز پڑھی اور یہ ظاہر ہے کہ اگر کوئی نمازی دوسرا ہوتا تو ضرور ہے کہ ان کو جماعت سے محروم نہ کرتے یا مسجد میں جماعت کراتے یا بیرون مسجد جیسا کہ حدیث ترمذی سے صاف ثابت ہوتا ہے۔ عن ابی سعید الخدری قال جاء رجل و قد صلی رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فقال ایکم یتجر علی ھذا فقام رجل و صلی معه رواه الترمذی و ھو قول غیر واحد من اھل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیه وسلم و غیرھم من التابعین قالوا لا باس ان یصلی القوم جماعة فی مسجد قد صلی فیه و به یقول احمد و اسحاق
ترجمہ: ایک آدمی مسجد میں آیا۔ جماعت ہو چکی تھی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون ہے جو اس آدمی پر صدقہ کرے۔ تو ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ مل کر نماز پڑھی۔ صحابہ اور تابعین میں سے اہل علم حضرات کا یہی مسلک ہے کہ دوبارہ جماعت کرا لینا درست ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ امام احمد اور اسحاق کا بھی یہی مذہب ہے۔
اور ابو دائود میں اس طرح سے آئی ہے عن ابی سعید الخدری ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابصر رجلا یصلی وحده فقال الا رجل یتصدق علی ھذا فیصلی معه
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا وہ اکیلا نماز پڑھ رہا تھا۔ آپؐ نے فرمایا! کوئی ہے جو اس پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ مل کر نماز پڑھے۔
پس جب کہ آں حضرت نے واسطے فضیلت حاصل کرنے جماعت کے اس شخص کو حکم شامل ہونے کا دیا کہ پہلے نماز پڑھ چکا تھا۔ تو جن اشخاص نے کہ نماز نذہ پڑھی ہو ان کو بالاولیٰ جماعت دوسری کرنی بلا کراہت ایک مسجد میں جائز ہوئی اور یہ امر نہیں ہو سکتا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب کو جماعت دوسری کا حکم فرما دیں اور پپ نہ کریں پس متحقق ہوا کہ حدیث مذکورہ فی السوال کا مورد یہ ہے کہ اس وقت دوسرا نمازی کوئی نہ تھا اگر ہوتا تو ضرور مسجد ہی میں نماز پڑھتے کیوں کہ جماعت کی بہت تاکید احادیث میں آئی ہے ماسوا اس کے چونکہ امر کو ترجیح اور غلبہ ہے فعل غیر ہمیشگی پر۔ اس لیے حدیث ترمذی پر عمل کرنا اولیٰ اور اقدم ہوا اور تیسری وجہ یہ کہ حدیث ترمذی کی نص صریح ہے۔ واسطے جماعت دوسری کے۔ اور حدیث مذکورہ فی السوال سے دلالتاً نکلتا ہے اور اصول فقہ میں مندرج ہے کہ بحالت تعارض عبارۃ النص و دلالۃ النص کی عبارت کو ترجیح دیتے ہیں دلالۃ النص پر اور چوتھی وجہ یہ کہ نہ پڑھنا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسپر دلالت نہیں کرتا کہ جماعت دوسری مکروہ ہے۔ بلکہ دیگر امورات عارضہ پر بھی دلالت کرتا ہے۔ پس اختیار امر واحد کا بلا دلیل قابل اعتبار نہیں اور صحیح بخاری میں آیا ہے۔ کہ حضرت انسؓ مسجد میں آئے اور جماعت ہو چکی تھی۔ پس اذان کہی اور تکبیر کہی اور جماعت سے نماز پڑھی ۱؎ و جاء انس بن مالک الیٰ مسجد قد صلی فیه فاذن و اقام و صلی جماعة رواه البخاری
ترجمہ: انس بن مالکؓ ایک مسجد میں آئے وہاں جماعت ہو چکی تھی۔ آپ نے اذان اور تکبیر کہہ کر جماعت کرا لی۔
پس امر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم و فعل اصحابہ اور تابعین سے متحقق ہوا کہ جماعت دوسری مسجد واحد میں بلا کراہت صحیح و جائز ہے۔ واللہ اعلم بالصواب حررہ و اجابہ خاکسار محمد مسعود نقشبندی دہلوی ۲۹ ربیع الاول ۱۲۹۳ ھ

سید محمد نذیر حسن

ھو الموافق
تکرار جماعت بلا کراہت جائز ہے ایک مصلے پر ہو خواہ ایک مصلے پر نہ ہو۔ جامع ترمذی کی حدیث مذکور اور انس رضی اللہ تعالیٰ کا اثر مذکور جواز پر صاف دلالت کرتا ہے۔ اور مطلقاً تکرار جماعت کا مکروہ ہونا یا ایک مصلے پر نہ ہو تو مکروہ نہ ہونا سو اس کی کوئی دلیل میری نظر سے نہیں گزری ہے۔ اور اسی طرح مجیب نے جو تشقیق شامی سے نقل کی ہے اس کی کوئی دلیل میری نظر سے نہیں گزری ہے۔ واللہ اعلم اور عبد الرحمن بن ابی بکر کی حدیث جو سائل نے نقل کی ہے وہ بالکل غیر معتبر و ناقابل احتجاج ہے، کیوں کہ نہ اس کے مخرج کا پتہ اور نہ اس کی سند کا حال معلوم فقہائے حنفیہ یوں ہی بلا سند و بلا ذکر مخرج اس کو ذکر کرتے ہیں۔ اور اگر فرض کر لیا جائے کہ یہ حدیث قابل احتجاج ہے تو اس سے تکرار جماعت کی کراہت ثابت نہیں ہوتی ہے جیسا کہ مجیب نے بیان

کیا ہے۔ واللہ اعلم کتبہ محمد عبد الرحمن المبارکفوری عفا اللہ عنہ     (فتاوٰی نذیریہ اول جلد ص ۴۵۶)

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 40-43

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ