سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(136) مسجد میں نماز ہو جانے کے بعد گھر یا مسجد میں نماز پڑھنے میں کوئی فرق ہے یا نہیں

  • 2887
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1211

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مسجد میں نماز جماعت ہو گئی، اس کے بعد مسجد میں نماز پڑھنے اور مکان پر نماز پڑھنے میں کوئی فرق ہے یا دونوںصورتیں برابر ہیں اور دور صورت اول کونسی افضل ہے


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسی صورت میں گھر پر اور مسجد میں دونوں جگہ نماز پڑھنا مساوی ہے اور ظاہر الروایت میں فضیلت کسی جگہ کو نہیں۔ فی الخانیة رجل فاتته الجماعة فی مسجد حیة فان ذھب الٰی مسجد اٰخر و صلی فیه بجماعة فھو حسن و ان صلی فی مسجد حیة وحدہ فھو حسن و ان دخل منزله و صلی فیه باھله فھو حسن و اللہ اعلم بالصواب و عندہ ام الکتاب۔ محمد اعظم غفر له (ترجمہ)محلہ کی مسجد میں اگر کسی آدمی کی جماعت فوت ہو جائے تو پھر اگر وہ کسی اور محلہ کی مسجد میں جا کر جماعت سے نماز پڑھ لے تو بھی ٹھیک ہے اور اگر محلہ کی مسجد میں اکیلا نماز ادا کرے، توبھی ٹھیک ہے۔ اوراگر اپنے گھر جا کر بال بچوں سمیت نماز پڑھ لے تو بھی ٹھیک ہے) مخفی نہ رہے کہ صورت مسئولہ میں تامل سے ثابت ہوتا ہے کہ چار صورتیں پیدا ہوتی ہیں، ایک مسجدگ و مکان میں دونوں جگاہ تنہا پڑھے، دوسری دونوں جگہ تنہا پڑھے، دوسری دونوں جگہ جماعت سے پڑھے، تیسری مسجد میں جماعت سے اور گھر میں تنہا، چوتھی برعکس اس کے یعنی مسجد میں تنہا اور گھر میں جماعت سے، تو خانیہ کی عبارت سے اگر ثابت ہوتا ہے۔ تو اس صورتِ اخیر کا حکم ثابت ہوتا ہے اور پہلی تین صورتیں جو باقی ہیں ان کا حکم ظاہر نہیں ہوا، اور اصلی مسئول صورت اول ہی ہے، تو واضح رہے کہ ان تینوں صورتوں میں مسجد ہی افضل ہے، جیسا کہ احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم، حررہ ابو محمد یحییٰ شاہ جہانپوری
در صورت تنہا پڑھنے کے ہر دو جگہ مسجد میں پڑھنا افضل ہے، فضیلت مسجد میں جو احادیث مطلق وارد ہیں، قطع نظر جماعت سے وہ دال ہیں، اور اقوال فقہا سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی مسجد میں داخل ہو جائے تو اس کو وہاں سے دوسری مسجد میں جماعت کے واسطے بھی نہ جانا چاہیے اگرچہ مسجد اول میں جماعت ہو چکی ہو، قال صاحب فتح القدیر و اذا کان مسجد ان یختارا قدمھما و ان استویا فالاقرب و ان صلوا فی الاقرب و سمع اقامة غیره فان کان دخل فیه لا یخرج و لا یذھب الیه انتہٰی  پس جب مسجد میں آن کر دوسری مسجد میں جماعت اولٰی کے لیے اجازت نہیں دیتے تو گھر کو کیا مناسبت ہے، بقیہ صورتیں چوں کہ سائل کو مطلوب نہیں، لہذا جواب نہیں لکھّا اور سائل کی زبانی معلوم ہوا کہ قصہ مسجد اقرب کا ہے۔ فقط عبد الکریم پنجابی     (محمد یعقوب)
مسجد اور گھر ادائے صلوٰۃ کے واسطے مساوی خیال کرنا مجیب صاحب ہی کا کام ہے فقہا کرام نے کہیں نہیں لکھا ہے کہ مسجد اور گھر صلوٰۃ کے واسطے مساوی ہیں اور جو روایت مجیب نے نقل کی ہے اس کا مطلب انہوں نے نہیں سمجھا، کما لایخفی، معلوم کرنا چاہیے کہ گھر اور مسجد ادائے صلوٰۃ مفروضہ کے حق میں بلکہ اور اذکار کے حق میں بھی مساوی نہیں، بلکہ مسجد میں نماز پڑھنا افضل ہے باعتبار گھر کے۔ ۱؎ عن ابی ھریرة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من غدا الی المسجد اوراح اعد اللہ له نزله فی الجنة کلما غدا اوراح متفق علیه
۱؎ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو آدمی پہلے پہر یا پچھلے پہر مسجد کی طرف جائے تو جب وہ مسجد کی طرف جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں مہمانی تیار کرتے ہیں ۱۲
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت میں لکھتے ہیں و ظاھر الحدیث حصول الفضل لمن اتی المسجد مطلقا و لکن المقصود منه اختصاصه بمن یاتیه للعبادة و الصلوة راسھا انتھٰی

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد3 ص 38۔40

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ