سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(121) جوشخص اذان سن کر بغیر عزر کے جماعت میں حاضر نہ ہو ‘ اکیلا نماز پڑھے تو کیا حکم ہے

  • 2872
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 4487

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جو شخص اذان کی آواز سنے اور بغیر عذر شرعی کے جماعت میں نماز کے لیے حاضر نہ ہو تو اس کی نماز بعد میںاکیلے پڑھنے سے نہیں ہوتی۔ ایک فریق کا یہ بیان ہے اور دوسرا فریق کہتا کہ اگر دکانداری یا نوکری وغیرہ کی وجہ سے جماعت میں شریک نہ ہو تو بعد میں اکیلے نماز پڑھ سکتا ہے لیکن جماعت کی فضیلت اور خوبی سے محروم ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ دونوں میں سے حق بجانب کون ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اقول و باللہ التوفیق: نماز باجماعت کے لیے احادیث میں جس قدر تاکید ہے اس کی بنا پر صحابہ کرام اور علمائے سلف نے نماز باجماعت کو واجب بلکہ فرض لکھا ہے۔ اس لیے سب سے پہلے سائل کو یہ معلوم ہو جانا چاہیے کہ جماعت چھوٹ جانے سے صرف اتنا ہی نہیں کہ ایک خوبی اور سنت سے نمازی محروم ہو گیا، بلکہ ترکِ واجب سے ایک معصیت کا مرتکب ہو گیا۔
سب سے پہلے صحیح بخاری کو دیکھئے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے لیے یہ عنوان قائم ہے باب وجوب صلاة الجماعة اس باب میں امام بخاری نے ایک تو حضرت حسن بصری کا ایک قول نقل کیا ہے۔ مختصراً جس کو حافظ ابن حجرؒ نے مصلاً یوں نقل کیا ہے۔ ایک شخص نے حسنؓ سے دریافت کیا کہ ایک شخص نفلی روزہ رکھے اور اس کی والدہ اس کو روزہ توڑنے کا حکم دے تو کیا حکم ہے انہوں نے کہہا کہ روزہ توڑ دے، اور اس شخص پر روزہ کی کوئی قضا نہیں بلکہ اس کو روزہ کا ثواب بھی ملے گا، اور مزید برآں یہ کہ والدہ کے حکم کی اطاعت کا ثواب بھی ملیگا، پھر اُن سے یہ سوال کیا گیا کہ والدہ اگر اپنے بیٹے کو شفقتِ پدری کی وجہ سے عشاء کی نماز باجماعت مسجد میں جا کر پڑھنے سے منع کرے۔ تو کیا کرے؟ کہا کہ والدہ کو یہ حق حاصل نہیں۔ کیوں کہ نماز باجماعت فرض ہے۔ اس کے بعد امام بخاریؒ نے وہ مشہور حدیث ذکر کی ہے جس میں جماعت سے غیر حاضر رہنے والوں کے مکانات کے جلا دینے کی تہدید موجود ہے۔ حافظ ابن حجرؒ فتح الباری میں اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں۔
و اما حدیث الباب فظاھر فی کونھا فرض عین لانھا لو کانت سنة لم یھدد تارکھا بالتحریق و لو کانت فرض کفایة لکانت قائمة بالرسول و من معه اس کے بعد حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ و الی القل بانھا فرض عین ذھب عطاء و الاوزاعی و احمد و جماعة من محدثے الشافعیة کابی تور و ابن خزیمة و ابن المنذر و ابن حبان و بالغ داؤد و من تبعه فجعلھا شرطا فی صحة الصلٰوة۔(فتح جلد دوم صفحہ ۱۰۴ مصر)
حافظ ابن قیم نے اپنی مشہور تصنیف کتاب الصلوٰۃ میں اس مسئلہ پر نہایت مفصل بحث کی ہے شاید ٓایسی مفصل اور جامع بحث کسی دوسری کتاب میں نہ ہو۔
اس کے متعلق حافظ ابن قیم صاحب نے خود ہی پہلے یہ سوال کیا ہے کہ جو شخص نماز باجماعت دا نہیں کرتا یعنی کوئی شرعی عذر نہیں ہے اور پھر وہ نماز باجماعت نہیں ادا کرتا اور اکیلے پڑھتا ہے کیا اس کی نماز ہو جاتی ہے؟ پھر خود ہی اس کے جواب میں فرماتے ہیں۔
کہ یہ مسئلہ دو چیزوں پر مبنی ہے کہ تو یہ کہ نماز باجماعت فرض ہے یا سنت اور اگر فرض ہے تو کیا یہ صحت نماز کے لیے شرط ہے یا نماز بغیر جماعت کے ہٓو جاتی ہے لیکن ترک جماعت کی وجہ سے وہ گنہگار ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد دونوڈں صورتوں کے متعلق علماء سلف کا اختلاف نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ اما المسئلة  الاولٰی فاختلف الفقھاء فیھا فقال بوجوبھا عطاء بن ابی رباح و الحسن البصری و ابو عمرو الاوزاعی و ابو ثور و الامام احمد فی ظاھر مذھبه و نص علیه الشافعی فی مختصر المزنی فقال و اما الجماعة فلا رخص فی ترکھا الا من عذر و قالت الحنفیة و المالکیة ھی سنة المؤکدة و لکنھم یؤثمون تارک السنن الموکدة و یصححون الصلاة بدونھا و الخلاف بینھم و بین من قال انھا واجبة لفظی وکذالک صرح بعضھم بالوجوب۔(کتاب الصلوٰۃ امام ابن قیمؒ ص ۵۶۹ تا ص ۵۷۱ مصری)
فرضیت یا وجوب نماز باجماعت پر حافظ ابن قیم صاحب نے قرآن و حدیث سے بارہ دلائل اس کے ذیل میں لکھے ہیں۔ اور منکرین وجوب کے دلائل اور اعتراضات کا مفصل اور شافی جواب تحریر کیا ہے اور نصوص کتاب و سنت کے علاوہ حضرت عائشہؓ، ابن عباسؓ، علیؓ ابو ہریرہؓ، عبد اللہ بن مسعودؓ، ابو موسیٰ اشعری اور امام حسنؓ کے صریح اقوال وجوب جماعت کے متعلق ذکر کییہیں۔ یہ تمام تفصیل مصری ٹائپ کے ۱۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد دوسرے مسئلہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ جماعت صحتِ نماز کے لیے شرط ہے یا نہیں؟ اس بارہ میں جو علماء اور ائمہ دین وجوب جماعت کے قال ہیں ان میں اختلاف ہے دو گروہ ہیں:
احدھما انھا فرض یاثم تارکھا و تبرأ ذمته بصلاته وحدہ۔ و ھذا قول اکثر المتاخرین مناصحاب احمد فی روایة حنبل فقال اجابة الداعی الیٰ الصلٰوة فرض و لو ان رجلاً قال ھی عندی سنة اصلیھا فی بیتی مثل الوتر وغیرہ لکان خلاف الحدیث و صلاته جائزة و فی روایة ثانیة ذکرھا ابو الحسین الزعفرانی فی کتاب الاقناع انھا شرط للصحة فلا تصح صلاة من صلی وحدہ حکاہ القاضی من بعض الاصحاب و اختارہ ابو الوفا ابن عقیل و ابو الحسن التمیمی و ھو قول داؤد و اصحابہ۔
اور اسی طرح امام ابن تیمیہ نے ’’اختیارات العلمیہ‘‘ میں تحریر کیا ہے۔ و اذا قلنا ھی واجبة علٰی الاعیان و ھو المنصوص عن احمد وغیرہ من ائمة السلف و فیھا الحدیث فھولاء۔ تنازعوا فی اذا ترکوا لغیر عذر ھل تصحی صلاة علیٰ قولین احدھما لا تصح وھو قول طائفة من قدماء اصحاب احمد و الشافی تصح مع ائمة بالترک و ھو الاکثر من احمد و قول اکثر اصحابہ و(کتاب اختیارات ابن تیمیہ ص ۴۰ مصر)
حافظ ابن قیم نے کتاب الصلوٰۃ میں امام ابن منصذر کا یہ قول نقل کیا ہے۔ فلا ارخص لمن قدر علٰی صلاة الجماعة فی ترک اتیانھا الا من عذر و ان تخلف احدھما فصلی منفردا لم تکن علیه اعادتھا صلی ھا قبل الامام او بعدہ الا صاة الجمعة فان من صلی ھا ظھر اقبل صلاة الامام کان علیه اعادتھا لان ایتانھا فرض (کتاب الصلوٰۃ ص ۵۷۱)
حافظ ابن حجرؒ فتح الباری باب وجوب الجماعۃ کے ذیل میں اختلاف ائمہ ذکر کرتے ہوئے امام احمدؒ کا قول صرف وجوب کا ذکر کیا ہے نہ کہ شرطتیہ کا۔
و بالغ داؤد من تبعه فجعلھا شرطا فی صحة الصلاة و لما کان الوجوب قد ینفک عن الشرطیة قال احمد انھا واجبة غیر شرط (جلد اول ص ۳۵۷)
خلاصہ
اس تمام تفصیل کا ما حصل یہ ہوا کہ سوال کا دارو مدار دو مسئلوں پر ہے۔ ایک تو یہ کہ نماز باجماعت ادا کرنی واجب ہے۔ یا صرف افضل اور موجب ثواب ہے۔ اور اگر واجب ہے تو کیا یہ صحتِ نماز کے لیے شرط ہے۔ یعنی جماعت کے بغیر نماز نہیں ہوتی یا شرط نہیں، یعنی نماز تو ہو جاتی ہے لیکن ترکِ جماعت کی وجہ سے معصیت اور گناہ کا مرتکب ہو جاتا ہے۔
اول مسئلہ کے متعلق امام بخاریؒ، امام احمدؒ، امام شافعیؒ، ابن المنذرؒ، حسن بصریؒ، ابن خزیمہؒ، ابن حبان، ابو ثور، عطا بن ابی رباح اور اوزاعی کا فتویٰ یہ ہے کہ نماز باجماعت واجب ہے اور بغیر عذر شرعی کے جماعت کا چھوڑنا جائز نہیں۔ اور اگر کوئی چھوڑ دے تو نماز ادا تو ہو جائے گی، لیکن ترک جماعت کی وجہ سے مرتکب معصیت کا ہو گا۔ کیوں کہ ترکِ واجب معصیت ہے۔
وجوب جماعت کے جو لوگ قائل ہیں ان میں سے صرف داؤد ظاہری اور بعض حنابلہ کا یہ قول ہے کہ جماعت واجب اور صحت نماز کے لیے شرط ہے اگر جماعت فوت ہو جائے تو نماز اکیلے نہیں ہو گی۔ لیکنیہ قول مرجوع ہے۔ حافظ ابن حجرؒ نے اسی واسطے اس کا ذکر اس طریق پر کیا ہے۔ کہ بالغ داؤد و من تبعه فجعلھا شرطا فی صحة الصلٰوة۔ یعنی دائود ظاہری نے وجوب جماعت میں مبالغہ کر دیا۔ اور اس کو صحتِ نماز کے لیے شرط قرار دیا۔ بعض حنابلہ بھی اس کے قابئل ہیں لیکن امام احمد بن حنبل کا قول جیسا کہ امام ابنِتمیہ، حافظ ابن قیم اور حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے۔ یہی ہے کہ وہ وجوب جماعت کے قائل ہیں۔ لیکن جماعت کو صحت نماز کے لیے شرط نہیں مانتے، تو گویا بقول حافظ ابن حجرؒ جس طرح نماز جمعہ کی صحت کے لیے جماعت شرط ہے اس طرح پانچوں وقت کی نمازوں کی صحت کے لیے شرط نہیں البتہ ترک جماعت بہت بڑی معصیت اور گناہ ہے۔ جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت وعید اور تہدید فرمائی ہے۔
دوسرا گروہ علماء کا وہ ہے جو نہ وجوب جماعت کا قائل ہے نہ جماعت کو شرطِ صحت نماز قرار دیتا ہے۔ یہ گروہ حنفی اور مالکی علماء کا ہے۔ یہ جماعت کو سنت مؤکدہ کہتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں۔ کہ سنت مؤکدہ کا تارک گنہگار ہوتا ہے۔ اس لیے یہ اختلاف کوئی زیادہ اہم نہیں بلکہ جیسا کہ حافظ ابن قیم نے کہا ہے یہ لفظی اختلاف ہے۔
اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا۔ کہ سوائے ظاہر یہ اور بعض حنابلہ کے اکثر ائمہ دین علماء سلف اور صحابہ کرام کا فتویٰ اس بارہ میں یہی ہے کہ نماز باجماعت بغیر عذر شرعی کے چھوڑنے والا گناہ گار اور عاصی ہو گا۔ لیکن نماز اس کی منفرد ہو جاتی ہے۔ سوائے نماز جمعہ کے کہ وہ بلا جماعت ہوتی ہی نہیں۔
لیکن ترک جماعت کیسی معصیت ہے اور اس معصیت کا درجہ کس قدر ہے یہ معلوم کرنے کے لیے امام احمدؒ کی بعض تحریروں کی طرف توجہ منعطف کرانا چاہتا ہوں۔ امام احمدؒ نے نماز کی طرف سے عام لوگوں کی بے توجہی اور غفلت کو دیکھتے ہوئے ایک رسالہ ’’الرسالۃ السنیّہ‘‘ کے نام سے لکھال ہے، اس میں لوگوں کی نماز کی طرف سے بے اعتنائی اور سستی اور اوقات نماز کی طرف سے غفلت اور ارکان نماز کی صحیح ادائیگی میں کوتاہی اور حضور جماعت سے تخلف پر بعض ایسی درد ناک تحریریں گسپرد قلم کی ہیں کہ ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام نے لوگوں کی بے دینی کو بڑے درد و کرب کے ساتھ دیکھا ہے اور اسی سے متاثر ہو کریہ تحریریں قلم بند کی ہیں اس لیے ہر وہ شخص جس کے دل میں دین کی غربت اور اسلام کا ضعف کا درد ہے۔وہ آنسو بہائے بغیر ان تحریروں کو نہیں پڑھ سکتا، خدا کرے کہ آپ کے سوالات کے جوابات اس میں موجود ہوں اور آپ بھی ان سے اسی طرح متاثر ہوں، جس طرح کہ اللہ کے بندے اس سے متاثر ہوتے ہیں۔
فاٰمروا رحمکم اللہ بالصلٰوة فی المساجد من تخلف عنھا و اعاتبوھم اذا تخلفوا عنھا و انکروا علیھم بایدکیم فان لم تستطیعوا فبالسنتکم و اعلموا انہ لایسعکم السکوت عنھم لان التخلف عن الصلاة عظیم المعصیة فقد جاء عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انه قال (لقد ھممت ان اٰمر بالصلاة فتقام ثم اخالف الٓی قوم فی منازلھم لایشھدون الصلوٰة فی جماعة فاحرتھا علھم) فھدوھم النبی صلی اللہ وسلم بحرق منازلھم فلولا ان تخلفھم عن الصلٰوة فی المسجد معصیة کبیرة عظمیة۔ لماھددھم النبی صلی اللہ علیہ وسلم بحرق منازلھم و جاء الحدیث (لا صلٰوة لجار المجسد الا فی المسجد) و جار المسجد الذی بینه و بین الکسجد اربعون دارا۔ فالصلٰوة اول فریضة فرضت علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم و ھی اخرما اوصیٰ بھا امته عند خروج من الدنیا و ھی اخرما یذھب من الاسلام لیس بعد ذھا بھا اسلام و لا دین۔
شرعی عذر
باقی رہا یہ امر کہ تخلف عن الجماعت کے لیے کون کون سے عذر ہیں، جنہیں شریعت صحیح عذر قرار دیتی ہے اور ان عذروں کے ہوتے ہوئے تارکِ جماعت مرتکبِ معصیت نہیں ہوتا، سو اس کے متعلق عرض ہے کہ کتاب صحاح میں جو روایات اس بارہ میں موجود ہیں ان سب کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ (۱) بیماری (۲) خوف (۳) بارش (۴) سردی (۵) بھوک (۶) پیشاب پاخانہ کی حاجت (۷) جسم کا موٹاپا جس سے نقل و حرکت مشکل ہو جائے (صحیح بخاری) (۸) امام اس قدر لمبی نماز پڑھائے کہ مقتدیوں کے لیے ضرر بن جائے۔ اس حالت میں تخلف عن الجماعت موجب معصیت نہیں ہے۔ (۹) دکاندار جس کے مال کی حفاظت کرنے والا ملازم نہ ہو، جیسا کہ امام ابنِ حزمؒ نے محلی میں حدیث نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن اضاعۃ المال سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے۔ کہ خوف، اضاعت مال کے خیال سے اگر جماعت سے مختلف ہو جائے تو اس کو بھی معذور سمجھا جائے گا۔ باقی رہا یہ امر کہ وہ دکاندار جو اضاعتِ مال کے خیال سے اگر بلکہ صرف دکانداری کے لالچ میں بیٹھا رہے ان لوگوں کی فہرست میں داخل نہیں ہو سکتا جو شرعاً معذور سمجھے جاتے ہیں۔ البتہ ملازم معذور ہے۔ اور اس کا آقا اگر مسلمان ہے۔ اور پھر اس کو جماعت میں شامل نہیں ہونے دیتا تو اس کا بوجھ آقا کی گردن پر ہے۔ لیکن اگر ملازم دکان کی حفاظت کرتا ہے اور آقا جماعت کے ساتھ نماز پڑھتا ہے تو پھر کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ھذا ما عندی و اللہ اعلم حضرت مولانا سید محمد داؤد الغزنوی رحمۃ اللہ علیہ     الاعتصام گوجرانوالہ ج ۴، ش ۴۷

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3ص28-33

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ