سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(116) کیا بیوی خاوند کے برابر کھڑی ہو کر نماز باجماعت پڑھ سکتی ہے؟

  • 2867
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1413

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میاں بیوی مل کر باجماعت نماز فریضہ یا نوافل ادا کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اگر کر سکتے ہیں تو کس ترکیب سے؟ یعنی بیوی ساتھ کھڑی ہو یا پیچھے؟ جواب مدلل اور مفصل بحوالہ احادیث نبویّہ تحریر فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث اول: عن انسؓ قال صلینا انا و یتیم فی بیتنا خلف النبی صلی اللہ علیہ وسلم دام سلیم خلفنا رواہ مسلم (مشکوٰۃ باب الموقف فصل اول) ترجمہ: حضرت انسﷺ سے روایت ہے کہ میں نے اور ایک یتیم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اپنے گھر میں نماز پڑھی اور ام سلیم (میری والدہ) ہمارے پیچھے اکیلی تھی۔ حدیث دوم ۲؎ و عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی بہ وبامہ او خالتہ قال فاقامنی عن یمینہ و اقام المراۃ خلفنا (رواہ مسلم) یعنی انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اور اس کی والدہ یا خالہ کو نماز پڑھائی۔ پس مجھے دائیں طرف کھڑا کیا اور میری والدہ یا خالہ کو پیچھے کھڑا کیا۔
حدیث سوم۳؎: عن الحارث بن معاوية الکندی انہ رکب الی عمر بن الخطاب یسألہ عن ثلاث خلال فقدم المدینة فقال له عمر ما اقدمک علی قال ربما کنته انا و المرأۃ فی بناء مبنی فتحضر الصلٰوۃ فان صلیت انا و ھی کانت بحذائی و ان صلت خلفی خرجت من البناء فقال عمر تستر بینک و بینھا بثوب ثم تصلی بحذائک ان شئت و ان الرکعتین بعد العصر فقال نھانی عنھما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال و عن القصص فقال ارادونی علی القصص فقال ما شئت کانہ کرہ ان یمنعہ قال انما اردت ان انتھی الٰی قولک قال اخشی علیک ان تقص فترتفع علیھم فی نفسک ثم تقص فترتفع حتی یخیل الیک انک فوقھم بمنزلۃ الثریا فیضعک اللہ تحت اقدامھم یوم القیمۃ بقدر ذالک (حم ض)منتخب کنز العمال جلد نمبر ۲ ص ۲۰۷ ترجمہ حارث بن معاویہ کندیؓ سے روایت ہے کہ وہ حضرت عمرؓ بن خطاب کے پاس تین باتوں کے متعلق سوال کرنے کے لیے مدینہ شریف میں آئے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: آپ کس طرح تشریف لائے؟ کہا: تین باتوں کے متعلق سوال کے لیے، فرمایا: وہ کیا ہیں؟ کہا: میں اور میری بیوی تنگ خیمہ میں ہوتے ہیں۔ پس نماز کا وقت ہو جاتا ہے اگر میں اور میری بیوی ایک ساتھ نماز پڑھیں تو وہ میرے برابر ہو جاتی ہے اگر پیچھے کھ ڑی ہو تو باہر نکل جاتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اگر تو چاہے تو اپنے اور اس کے درمیان کپڑے کا پردہ کر دے پھر وہ تیرے برابر نمازپ ڑھے۔ اور عصر کے بعد دو رکعتوں سے سوال کیا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے منع فرمایا ہے۔ اور وعظ سے سوال کیا کہ میری قوم سے وعظ کی خواہش کرتی ہے۔ فرمایا: جو کچھ تیری مرضی۔ گویا کہ حضرت عمرؓ نے اس کو روکنے سے اچھا نہ سمجھا اور وعظ کو کچھ پسند بھی نہ کیا۔ حارثؒ نے کہا: میرا ارادہ ہے کہ میں آپ کے قول کے مطابق عمل کروں۔ فرمایا: میں ڈرتا ہوں کہ تو وعظ کرے اور تیرے دل میں کچھ اونچائی کا خیال آ جائے پھر وعظ کرے اور پھر خیال آ جائے یہاں تک کہ تو اپنے خیال ہی میں ستاہ ثریا (کھتیاں) تک پہنچ جائے پھر اتنا ہی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے قدموں کے نیچے کر دے۔ ان تینوں حدیثوں سے مسئلہ واضح ہو گیا کہ عورت کو جماعت میں ساتھ کھڑا نہ کرنا چاہیے خواہ ماں ہو یا خالہ، بہن ہو یا بیوی، بلکہ وہ اکیلی پیچھے کھڑی ہو، نماز خواہ فرض ہو یا نفل۔ خواہ لڑکا نابالغ ہی ہو۔ اس کے برابر بھی کھڑی نہیں ہو سکتی چنالنچہ پہلی حدیث اس کی وضاحت ہے۔ ہاں ضرورت کے وقت برابر کھڑی ہو سکتی ہے چنانچہ تیسری محدیث سے معلوم ہوا۔ حضرت العلام حافظ صاحب محدثِ روپڑی تنظیم اہلحدیث جلد ۱۵ ش۴۷

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص

22-23

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ