سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(08) حدیث من کنت مولاہ فعلی مولاہ کی استنادی حیثیت

  • 2840
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 2373

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

من کنت مولاہ فعلی مولاہ حدیث صحاح ستہ کی کس کتاب میں ہے۔ ؟ اور اس حدیث کا مطلب و تشریح کیا ہے۔ ؟ قرآن پاک میں استعمال کئے گئے لفظ "مولٰینا" اور ہماری اردو میں مستعمل مولانا میں کیا مشترک اور مختلف ہے ۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ حدیث ترمذی (حدیث نمبر3713) اور ابن ماجہ (حدیث نمبر 121) نے روایت کی ہے اوراس کے صحیح ہونے میں اختلاف ہے، امام زیلعی رحمہ اللہ تعالی نے ھدایہ کی تخریج( 1 / 189 ) میں کہا ہے کہ :

کتنی ہی ایسی روایات ہیں جو راویوں کی کثرت اورمتعدد طرق سے بیان کی جاتیں ہیں ، حالانکہ وہ حدیث ضعیف ہوتی ہیں ۔ جیسا کہ حدیث (جس کا میں ولی ہوں علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی اس کے ولی ہیں) بھی ہے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :

یہ قول (جس کا میں ولی ہوں علی رضي اللہ تعالی عنہ بھی اس کے ولی ہیں) یہ صحیح کتابوں میں تونہیں لیکن علماء نے اسے بیان کیا اوراس کی تصحیح میں اختلاف کیا ہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ اور ابراھیم حربی محدثین کے ایک گروہ سے یہ منقول ہے کہ انہوں نے اس قول میں طعن کیا ہے ۔۔۔ لیکن اس کے بعد والا قول (اللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ) آخرتک، تویہ بلاشبہ کذب وافتراء ہے ۔ (دیکھیں منھاج السنۃ: 7 / 319 )

امام ذھبی رحمہ اللہ اس حدیث کے بارہ میں کہتے ہیں :

حديث (من کنت مولاہ ) کے کئ طریق جید ہیں ، اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے السلسلۃ الصحیحۃ حدیث نمبر ( 1750 ) میں اس کی تصحیح کرنے کے بعد اس حدیث کو ضعیف کہنے والوں کا مناقشہ کیا ہے ۔

اوراگر یہ جملہ ( من کنت مولاہ فعلی مولاہ ) صحیح بھی مان لیا جاۓ اور اس کے صحیح ہونے سے کسی بھی حال میں یہ حدیث میں ان کلمات کی زیادتی کی دلیل نہیں بن سکتی جس کا غالیوں نے حدیث میں اضافہ کیا ہے تاکہ وہ علی رضی اللہ تعالی عنہ کو باقی سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے (نعوذباللہ) افضل قرار دے سکیں، یا پھر (نعوذباللہ) باقی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجععین پرطعن کرسکیں کہ انہوں نے ان کا حق سلب کیا تھا ۔

شیخ الاسلام نے ان زيادات اوران کے ضعیف ہونےکا ذکر منھاج السنۃ میں دس مقامات پر کیا ہے ۔

اس حديث کے معنیٰ میں بھی اختلاف کیا گیا ہے، توجو بھی معنیٰ ہو وہ احاديث صحیحہ میں جو یہ ثابت اور معروف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت میں افضل ترین شخصیت ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ ہیں اور خلافت کے بھی وہی زيادہ حق دارتھے ان کے بعد عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ اور پھرعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ سے تعارض نہیں رکھتا ، اس لیے کہ کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ کی کسی چیز میں معین فضیلت اس پردلالت نہی کرتی کہ وہ سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے افضل ہیں ، اورنہ ہی ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سب سے افضل ہونا اس کے منافی ہے جیسا کہ عقائد کے باب میں یہ مقرر شدہ بات ہے ۔

اس حدیث کے جومعانی ذکرکیے گئے ہیں ان میں کچھ کا ذکر کیا جاتا ہے :

ان کے معنی میں یہ کہا گيا ہے کہ :

یہاں پرمولا ولی جوکہ عدو کی ضدہے کے معنیٰ میں ہے تومعنیٰ یہ ہوگا ، جس سے میں محبت کرتا ہوں علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی اس سے محبت کرتے ہیں ، اور یہ بھی معنیٰ کیا گيا ہے کہ : جومجھ سے محبت کرتا ہے علی رضی اللہ تعالی عنہ اس سے محبت کرتے ہيں ،یہ معنیٰ قاری نے بعض علماء سےذکرکیا ہے ۔

اورامام جزری رحمہ اللہ تعالی نے نھایہ میں کہا ہے کہ :

حدیث میں مولیٰ کا ذکر کئ ایک بار ہوا ہے ، یہ ایک ایسا اسم ہے جو بہت سے معانی پرواقع ہوتا ہے ، اس کے معانی میں : الرب ، المالک ، السید ، المنعم ( نتمتیں کرنے والا ) ، المعتق (آزاد کرنےوالا )، الناصر ( مددکرنے والا) ، المحب ( محبت کرنےوالا ) ، التابع ( پیروی کرنے والا) ، الجار( پڑوسی )، ابن العم ( چچا کا بیٹا )، حلیف، العقید( فوجی افسر )، الصھر ( داماد) العبد ( غلام ) ، العتق ( آزاد کیا گیا ) ، المنعم علیہ ( جس پرنعمتیں کی جائيں ) ۔

ان معانی میں سے اکثرتو حدیث میں وارد ہیں جن کا اضافت کے اعتبار سے معنیٰ کیا جاتا ہے ، توجس نے بھی کوئی کام کیا یا وہ کام اس کے سپرد ہوا تو اس کا مولا اور ولی ہے، اورحدیث مذکورہ کو ان مذکورہ اسماء میں سے اکثر پر محمول کیا جا سکتا ہے ۔

امام شافی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ اس سے اسلام کی ولاء مراد ہے جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے :

’’ یہ اس لیے کہ اللہ تعالی مومنوں کا مولیٰ ومددگار ہے اور کافروں کا کوئی بھی مولی ومددگارنہیں ‘‘

اورطیبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

حدیث میں مذکور ولایہ کو اس امامت پرمحمول کرنا صحیح نہیں جو مسلمانوں کے امورمیں تصرف ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں مستقل طور پرتصرف کرنے والے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ان کے علاوہ کوئی اور نہیں تو اس لیے اسے محبت اور ولاء اسلام اور اس جیسے معانی پرمحمول کرنا ضروری ہے ۔ ( دیکھیں تحفۃ الاحوذی لشرح الترمذي حديث نمبر: 3713 )

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الطہارہ جلد 2

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ