سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(434) نماز میں سجدہ میں اعتدال کا بیان

  • 2719
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1202

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مشکوٰۃ المصابیح میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: سجدہ میں  ( بخاری، الاذان، باب لا یفترش ذراعیہ فی السجود حدیث: ۸۲۲۔ مسلم، الصلاۃ، باب الاعتدال فی السجود ، حدیث:۴۹۳) اعتدال رکھو۔ (پشت ہموار رکھو۔) اور کوئی اپنے ہاتھ زمین پر کتے کی طرح نہ پھیلائے۔
اس حدیث کے تحت حاشیہ میں لکھا ہے۔
 سجدہ کی صحیح کیفیت: حدیث کامطلب یہ ہے کہ سجدہ میں اپنے بازوؤں کو زمین پر نہ لگائے، جیسا کہ کتا زمین پر اپنے بازو بچھا لیتا ہے۔ البتہ عورت اس حکم سے مستثنیٰ ہے کیونکہ ابو داؤد نے مراسیل میں زید بن ابی حبیب سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو عورتوں کو نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا: اپنے بازوؤں کو زمین پر لگاؤ اور اس مسئلہ میں عورت مرد کی طرح نہیں ہے۔ حوالے کے لیے دیکھیں:  (مشکوٰۃ المصابیح ، جلد اوّل ، ص:۵۸۵، مترجم و محشی ،استاذ الاساتذہ محمد اسماعیل سلفی)
محمد عاصم صاحب نے تو بالکل واضح لکھا ہے:
’’ حنفیہ شافعیہ اور حنبلیہ کے نزدیک عورت کے لیے سجدہ میں اپنے پیٹ کو رانوں سے ملانا مسنون ہے۔‘‘
حوالے کے لیے دیکھیں: [فقہ السنّہ ، حصہ أول ، ص:۱۸۶، حاشیہ نمبر :۲بحوالہ الفقہ علی مذاہب الاربعۃ ، ج:۱ ، ص:۲۶۲] مطبوعہ اُردو پریس لاہور۔ ۱۹۶۰ء
اشکال :اشکال یہ ہے کہ مشکوٰۃ میں جو اوپر تشریح بیان ہوئی ہے کیا احادیث صحیحہ کے حوالہ سے وہ واقعتا درست ہے اور سجدے کی اس کیفیت کو صحیح اور مسنون کیفیت کہا جاسکتا ہے۔ نماز میں عورت اور مرد کے سجدے میں کیفیت کے حوالے سے اہلحدیث علماء کا کیا موقف ہے؟ اس موقف کے حوالے سے اس تشریح کی مناسبت اور موافقت یا مطابقت کیا ہے اور کس طرح سے ہے؟ از راہ کرم اپنی قیمتی معلومات سے راہنمائی فرماکر عنداللہ ماجور ہوں۔


 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

افتراش کلب در نماز مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ممنوع ہے۔ محشی مشکاۃ کا لکھنا ’’ البتہ عورت اس حکم سے مستثنیٰ ہے ، کیونکہ ابو داؤد نے مراسیل میں زید بن ابی حبیب سے روایت کیا ہے۔‘‘ الخ درست نہیں۔ کیونکہ مرسل روایت ضعیف ہوتی ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ یہ تابعی یزید بن ابی حبیب ہیں نہ کہ زید بن ابی حبیب پھر ’’ عورت کے لیے سجدہ میں اپنے پیٹ کو رانوں سے ملانے کے مسنون ‘‘ ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔ اس سلسلہ میں جس قدر روایات پیش کی جاتی ہیں۔ سب ضعیف و کمزور ہیں۔
۱:… نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے جو سوال میں درج ہے واضح ہوتا ہے کہ نمازی (مرد ہو یا عورت) کو اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھ کر دونوں کہنیاں (یعنی بازو) زمین سے اٹھا کر رکھنے چاہیے نیز پیٹ بھی رانوں سے جدا رہے اور سینہ بھی زمین سے اونچا ہو۔ میری معزز مسلمان بہنو! اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق نماز پڑھو۔ آپ مسلمان مردوں اور عورتوں کو یکساں فرماتے ہیں۔ سجدے میں اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھ اور اپنی دونوں کہنیاں بلند کر۔  (مسلم، الصلاۃ، باب الاعتدال فی السجود)
بعض لوگ یہ فضول عذر پیش کرتے ہیں کہ اس طرح سجدے میں بی بی کی چھاتی زمین سے بلند ہوجاتی ہیں جو بے پردگی کی علامت ہے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے لیے اوڑھنی کو لازم قرار دیا ہے۔ یہ اوڑھنی دورانِ سجدہ بھی پردہ کا تقاصا پورا کرتی ہے۔ پھر آج کی کوئی خاتون صحابیات کے مقام کو نہیں پاسکتی۔ جب انہوں نے ہمیشہ سنت کے مطابق نماز ادا کی ہے۔ تو آج کی خاتون کو بھی اسی راہ پر چلنا چاہیے۔

 

 

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الصلاۃجلد 1 

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ