سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(13) بلی کے جھوٹے کا کیا حکم ہے؟

  • 2699
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 4662

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک ضروری مسئلہ درپیش ہے، جواب سے جلد مرحمت فرمائیں: ’’بلّی کا جُھوٹھا قرآن و حدیث کے دلائل سے پاک ہے یا پلید؟ اور اگر بلی کسی ہانڈی میں منہ ڈال دے تو وہ کھانا پاک ہے یا پلید؟ قرآن و حدیث کی رو سے یہ مسئلہ مدلّل بیان فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے گا۔ نیز کتاب کا حوالہ اور متن ضرور ارقام فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلّی کا جھوٹھا پاک ہے، پانی کے برتن میں بلّی منہ ڈال دے تو اُس پانی سے وضو کرنا بھی جائز ہے، ان مسائل کے لیے احادیث درج ذیل ہیں۔
عن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم قال فی الھرة انھا لیست بنجس انما ھی من الطوافین علیکم(ابو داؤد، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ)
’’حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بلّی کے متعلق فرمایا کہ یہ  پلید نہیں ہے۔ یہ تم پر (ہر وقت) پھرنے والوں میں سے ہے۔‘‘
حدیث دوم:

عن داؤد بن صالح بن دینار عن امہ ان مولانھا ارسلتھا بھریسة الی عائشة قالت فوجدتھا تصلی فاشارت الی ان ضحیھا فجاء ت ھرة فاکلت منھأ فلما انصرفت عائشة عن صلوٰتھا کلت من حیث اکلت الھرة فقالت ان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم یتوضؤ من فضلھا
(رواہ ابو داؤد، مشکوٰۃ باب الاحکام المیاہ فصل ۲)
’’حضرت داؤد بن صالح بن دینار اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی لونڈی کے ہاتھ حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حلیم کی قسم کا کھانا بھیجا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نماز پڑھ رہی تھیں، لونڈی کو اشارہ سے کھانا رکھنے کے لیے فرمایا، بلی آئی اور اس نے اس میں سے کچھ کھا لیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نماز سے فارغ ہو کر وہیں سے کھا لیا، جہاں سے بلّی نے کھا لیا تھا اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بلّی کے جُوٹھے پانی سے وضو فرما لیا کرتے تھے، ‘‘
ان احادیث میں جواب تفصیلاً آ گیا، مزید لکھنے کی ضرورت نہیں۔
(حافظ عبد القادر روپڑی، جامعہ اہل حدیث لاہور ، تنظیم اہل حدیث جلد ۱۹، شمارہ نمبر ۱۸) (الجواب صحیح : علی محمد سعیدی جامعہ سعیدیہ خانیوال مغربی پاکستان)

هٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الطہارۃ جلد 1 ص 26

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ