سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(353) امام نماز میں بھول جائے تو کیا لقمہ دیا جا سکتا ہے؟

  • 2638
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 4106

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

امام اگر نماز میں کوئی لفظ بھول جائے تو اس کو لقمہ دینا درست ہے یا نہیں؟ اور کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں مروی ہے کہ آپ نماز فرض میں بھول گئے ہوں اور صحابہ رضی اللہ عنہ نے حالت اقتداء میں آپ کو لقمہ دیا ہو؟ احناف اس کو ناجائز سمجھتے ہیں اور منع کرتے ہیں۔ اور ان کے ہاں امام اگر بھول جائے تو صرف سجدہ سہو کر دینا کافی سمجھتے ہیں اس کی کیا دلیل ہے؟


 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام کو لقمہ دینا درست ہے۔ چنانچہ ابو داؤد بحوالہ عون المعبود جلد اول ص ۳۴۱ باب الفتح علی الامام فی الصلوٰۃ میں حدیث ہے۔
(۱) عن یحیی الکاھلی عن المسور بن یزید المالکی ان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم قال یحییٰ ربما قال شھدت رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم یقراء فی الصلوٰة فترک شیئا لم یقرأہ فقال لہ رجل یا رسول اللّٰہ ترک اٰیة کذا وکذا فقال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ھلا ذکر تینھا
’’یعنی مسور بن یزید مالکی سے روایت ہے کہ میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں قرأت فرماتے تھے۔ آپ نے درمیان سے کچھ چھوڑ دیا۔ نماز کے بعد ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے فلاں فلاں آیت چھوڑ دی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو فرمایا کہ تو نے کیوں نہ یاد دلایا۔‘‘
(۲)  عن عبد اللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلٰوة فقرأ فیھا فلبس علیہ فلما انصرف قال لابی اصلیت معنا قال نعم قال فما منعک
’’عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرأت مشتبہ ہو گئی یعنی بھول گئی یا آگے پیچھے ہو گئے۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت ابی بن کعب حافظ القرآن کو فرمایا کہ تو نے میرے ساتھ نماز پڑھی ہے؟ جواب دیا کہ ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے مجھے لقمہ کیوں نہ دیا۔ کس چیز نے منع کیا۔‘‘
صاحب عون المعبود فرماتے ہیں۔
والحدیثان یدلان علٰی مشروعیة الفتح علی الامام وتقید بان یکون علی امام لم یرد الواجب من القرأة وباخر رکعة ممالا دلیل علیہ
’’یعنی دونوں حدیثیں جواز لقمہ پر دلالت کرتی ہیں، اور جواز لقمہ کو مقید کرنا اس شرط کے ساتھ کہ جب امام بقدر واجب من القرأۃ بھو ل گیا ہو۔ اور رکعت اخیری (۱) ہو یہ قول بلا دلیل ہے۔‘‘
(۱) غالباً جس نے یہ شرط لگائی ہے اس نے خیال کیا ہو کہ نماز شروع ہو تو نئے سرے سے پڑھنی سہل ہے اخیر نماز ہو تو نئے سرے سے نماز پڑھنے میں دقت ہے اس لیے شروع نماز میں لقمہ کی اجازت نہیں، اخیر میں اجازت ہے مگر ایسے قیاسات کا شرع میں کوئی
پھر صاحب عون فرماتے ہیں۔
(والادلة قد دلت علی مشروعیة الفتح مطلقا فعند نسیان (لام الاٰیة فی القراءة الجھریة یکون الفتح علیہ بتذکیرہ تلک الاٰیة کام فی حدیث الباب وعند نسانہ لغیر ھا من الارکان یکون الفتح بالتسبیح والتصفیق للنساء
’’یعنی احادیث سے جواز لقمہ مطلقاً ثابت ہوتا ہے۔ خواہ بقدر واجب من القرأت میں بھولے یا زیادہ میں۔ اور فتح کی دو صورتیں ہیں(ا) ایک جہری نماز میں اگر امام بھول جائے تو مقتدی خواہ عورت ہو یا مرد۔ امام کی بھول ہوئی آیت بتلا دے (۲) اگر قرأت کے علاوہ مثلاً سجدہ یا قعدہ وغیرہ بھول جائے تو مقتدی مرد امام کو اطلاع دینے کے لیے سبحان اللہ کہے۔ اور عورت اطلاع دینے کے لیے تالی بجائے یعنی ہاتھ پر دوسرا ہاتھ رکھ کر ایک مرتبہ مارے۔‘‘
فقہا بھی منع نہیں کرتے، بلکہ وہ جائز سمجھتے ہیں۔ ملاحظہ ہو شرح وقایہ جلد اول ص ۱۵۴ مطب۳ یوسفی باب ما یفسد الصلوٰۃ و ما یکرہ فیہا۔
وفتحہ علی غیر امامہ قال بعض المشائخ اذا قرأ امامہ مقدار ما یجوز بہ الصلوٰة او انتقل الٰی آیة اخرٰی ففتح تفسد صلوٰة الفاتح وان اخذ الامام منہ تفسد صلٰوة الامام ایضاً وبعضھم قالوا لا تفسد فی شئی من ذٰلك وسمعت ان الفتویٰ ذٰلك
’’یعنی مصلی اگر غیر امام کو لقمہ دے تو نماز فاسد ہو جائے گی۔ اگر مصلی اپنے امام کو لقمہ دے تو جائز ہے۔ نماز فاسد نہ ہو گی۔ بعض مشائخ کا قول ہے کہ امام اگر تین آیتیں پڑھ کر بھول گیا۔ یا دوسری آیت شروع کر دی اس صورت میں لقمہ دینے والے کی نماز فاسد ہو گی۔ اگر امام نے لقمہ لیا تو امام کی بھی نماز فاسد ہو جائے گی۔ اور بعض فقہا نے کہا ہے کہ کسی کی بھی فاسد نہ ہو گی۔‘‘
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تاج الشریقہ صاحب شرح وقایہ کہتے ہیں کہ:
’’ہم نے اپنے استادوں اور مشائخوں سے سنا ہے کہ فتویٰ اسی آخری قول (کسی کی بھی فاسد نہ ہو گی) پر ہے۔‘‘
شرح وقایہ کے حاشیہ پر بھی مولانا عبد الحی رحمۃ اللہ علیہ محشی کتاب حنفی عالم جید نے بھی ابو داؤد کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’لقمہ دینا جائز ہے۔‘‘
دلیل نمبر۲: … ہدایہ مع نہایہ جلد اول مطبوعہ احمدی ص ۷۳ میں ہے۔
وان فتح علٰی امامہ لم یکن کلامًا
’’یعنی اگر امام کو لقمہ دیا جائے تو وہ کلام میں شمار نہیں تاکہ نماز فاسد نہ ہو جائے۔‘‘
اس عبارت کی شرح میں لکھا ہے کہ
قولہ وان فتح علٰی امامہ لم یکن کلامًا والطلاق ھٰذا دلیل علٰی ان ما اذا قرء الامام مقدار ما یجوز به الصلٰوة وبہ اذا لم یقرأ لا تفسدوا الفاتح ولا صلوٰة الامام بالاخذ
’’یعنی شارح کہتے ہیں کہ مصنف کا کلام مطلق ہے اور یہ مطلق اس بات کی دلیل ہے کہ خواہ امام مقدار ما یجوز بہ الصلوٰۃ کے پڑھنے کے بعد یا اس سے کم میں بھولے۔ ہر دو صورتوں میں اگر مقتدی لقمہ دے اور امام لقمہ قبول کرے نہ تو امام کی نماز فاسد ہو گی نہ مقتدی کی۔‘‘
احناف کا یہ کہنا کہ:
امام اگر بھول جائے تو اس کو لقمہ نہ دیا جائے صرف سجدہ سہو کرنا کافی ہے۔
اس کی دلیل کتب فقہ میں کہیں نہیں ہے۔ یہ ان کا زبانی قول بلا دلیل مردود ہے۔ کتب فقہ اس کے خلاف ہیں جیسا کہ بیان کیا گیا۔
اعتراض:… اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ ابو داؤد میں باب الفتح علی الامام کے بعد باب النہی عن التلقین میں حدیث ہے۔
عن ابی اسحاق عن الحارث عن علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم یا علی لا تفتح علی الامام فی الصلوٰة
’’یعنی ابو اسحاق سے روایت ہے وہ حارث سے روایت کرتے ہیں۔ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے علی! امام کو نماز میں لقمہ نہ دے۔‘‘
تو اس کے کئی جواب ہیں:۔
جواب اوّل:… اس حدیث کی سند میں حارث ہے اس کی بابت صاحب عون فرماتے ہیں۔
ھو ابو زہیر الحارث بن عبد اللّٰہ الکوفی الاعور قال المنذری قال غیر واحد من الائمة انه کذاب
’’یعنی حدیث کی سند میں جو حارث ہے اس کی کنیت ابو زہیر ہے۔ باپ کا نام عبد اللہ ہے کوفہ کا رہنے والا ہے۔ منذری نے کہا ہے کہ اکثر اماموں نے حارث کو کذاب کہا ہے۔‘‘
لہٰذا یہ حدیث قابل استدلال نہیں۔
جواب دوم:… امام ابو داؤد نے اس حدیث کے روایت کرنے کے بعد لکھا ہے۔
قال ابو داؤد ابو اسحاق لم یسمع من الحارث الا اربعة احادیث لیس ھٰذا منھا
’’یعنی ابو داؤد نے کہا کہ ابو اسحاق نے اپنے استاد سے سوائے چار احادیث کے اور کوئی حدیث نہیں سنی۔ اور یہ حدیث (علی رضی اللہ عنہ والی) ان چاروں میں سے نہیں ہے۔‘‘
لہذا یہ حدیث منقطع ہوئی، مرفوع متصل صحیح کے ہوتے ہوئے منقطع قابل حجت نہیں۔
جواب سوم:… عن المعبود میں ہے:
قال الامام ابو سلیمان الخطابی وقد روی عن علی نفسہ انہ قال اذا استطعمکم الامام فاطعموہ من طریق ابی عبد الرحمٰن السلمی
’’یعنی امام ابو سفیان خطابی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ عبد الرحمن سلمی روایت کرتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب امام تم سے لقمہ طلب کرے، تو اس کو لقمہ دے۔ مطلب یہ کہ جب امام بھول جائے یا پڑھنے سے رک جائے تو بتا دو۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ تلخیص البجیر کے ص ۱۱۰ میں فرماتے ہیں۔
روی الحاکم عن انس کنا نفتح علی الائمة علی عہد رسول اللّٰہ ﷺ
’’یعنی حاکم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اماموں کو لقمہ دیا کرتے تھے۔‘‘
وقد روی عبد الرزاق فی مصنفہ من طریق الحارث عن علی مرفوعاً لا تفحن علیٰ الامام وانت فی الصلٰوۃ والحارث ضعیف وقد صح عن ابی عبد الرحمٰن السلمی قال قال علی اذا استطعمك الامام فاطمعہ
’’یعنی مسند عبد الرزاق میں حارث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کرتا ہے کہ اے علی رضی اللہ عنہ! امام کو اس حالت میں کہ تو نماز میں ہو لقمہ دے اور حارث ضعیف ہے۔ اور عبد الرحمن سلمی رضی اللہ عنہ سے صحیح روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے عبد الرحمان! اگر امام تجھ سے لقمہ کا طالب ہو تو لقمہ دے اور یہ روایت صحیح ہے۔‘‘
جواب چہارم:… حارث کی ایک روایت  لا تفتحن علی الامام وانت فی الصلٰوۃ ہے۔ اگرچہ لفظوں کا فرق مضر صحت حدیث نہیں ہے۔ اور جہاں فی الصلوٰۃ ہے وہاں وانت مقدر مان سکتے ہیں مگر یہ سب کچھ اس صورت میں ہے کہ جب روایت صحیح ہو، جب روایت ہی صحیح نہیں تو تاویل کیسی؟
نیز یہ بھی احتمال ہے کہ جس روایت میں صرف فی الصلوٰۃ ہے یہ قید صرف امام کی ہو۔ یعنی اے علی! جب تو نماز میں نہ ہو اور کوئی امام قرأت میں بھول جائے تو ، تو لقمہ نہ دے۔
چنانچہ اسی مطلب کو مدنظر رکھتے ہوئے امام ابو داؤد نے اسی جملے  یا علی لا تفتح علی الامام فی الصلوٰة  سے  نھی عن التلقین کا باب باندھا ہے، جس سے مطلب یہ ہے کہ غیر مصلی کا امام کو لقمہ دینا جائز نہیں ہے۔ انتہیٰ
خلاصہ:… یہ کہ ان دلائل جواز کے باوجود بھی کوئی حنفی منع کرے تو وہ نہ حنفی ہے نہ اہل حدیث، اگر حنفی ہوتا تو منع نہ کرتا کیونکہ کتب فقہ میں منع نہیں ہے، اور اگر اہل حدیث ہوتا تو منع کرنے پر جرأت نہ کرتا، کیونکہ حدیث میں منع نہیں ہے۔ (تنظیم اہل حدیث جلد نمبر ۱۳ شمارہ نمبر ۳۷)

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الصلاۃجلد 1 ص 247۔252
محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ